تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     24-10-2015

ماں بولی کو خراج

ماں کملی ہوئی
یہ فخر زمان کا نیا ناول ہے جو عالمی شہرت کے مالک ادیب و شاعر اور دانشور ہیں۔ پنجابی، اردو اور انگریزی میں اُن کی 40 کتابیں چھپ چکی ہیں۔ پاکستان حکومت انہیں ہلال امتیاز اور ستارہ امتیاز سے نواز چکی ہے۔ ہندوستانی پنجاب کی حکومت انہیں سب سے بڑا ایوارڈ شرومنی ساہتک ایوارڈ دے چکی ہے۔ 2000ء میں انہیں دلی میں ایک بڑی تقریب میں بہترین پنجابی ناولسٹ کا میلینیئم ایوارڈ دیا گیا جس کا فیصلہ ہندوستانی اور پاکستانی تنظیموں نے کیا۔ فخر زمان کی پنجابی کتابوں کے دنیا کی بڑی زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں۔ ہندوستان میں اُن کے ناول اور شاعری پر کئی پی ایچ ڈی اور ایم فل تھیسز لکھے جا چکے ہیں۔ ان کی کتابیں کئی بیرون ملکی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ 1978ء میں فخر زمان کی پانچ کتابوں پر مارشل لاء حکومت نے پابندی لگا دی۔ کتابیں دکانوں سے زبردستی اٹھا کر جلا دی گئیں۔ 1996ء میں 18 سال تک مقدمہ چلنے کے بعد لاہور ہائیکورٹ نے پابندی اُٹھائی۔ اس طرح فخر زمان دُنیا کے واحد ادیب ہیں جن کی کتابوں پر یکبارگی پابندی لگی اور جو لمبے عرصے کے بعد اٹھائی گئی۔ فخرزمان پی پی پی کے وزیر، سینیٹر اور دو دفعہ اکیڈیمی آف لیٹرز کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔ آج کل وہ عالمی پنجابی کانگرس اور عالمی صوفی کونسل کے چیئرمین ہیں۔ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا یہ ناول کس معرکے کی چیز ہو گا جو گائوں کی ایک بزرگ خاتون یعنی بڑی ملکانی کا دماغ چل جانے سے شروع ہوتا ہے اور اسی پردے میں مصنف نے اپنے استعمار دشمن اور عوام دوست نظریات کا پرچار کیا ہے۔ اسے کلاسیک نے چھاپا اور قیمت 300 روپے رکھی ہے۔
''نیندر بھجیاں نظماں‘‘
یہ پنجابی کے ہمارے محبوب شاعر سلیم شہزاد کی نظموں کا تازہ مجموعہ ہے جو بک ہوم لاہور نے چھاپا اور اس کی قیمت 300 روپے رکھی ہے۔ انتساب شفقت تنویر مرزا اور اظہر جاوید کے نام ہے۔ پسِ سرورق درج آراء میں سرفہرست شفقت تنویر مرزا مرحوم کی رائے ہے جو انگریزی زبان میں ہے اور جس کے مطابق سلیم شہزاد ایک سینئر شاعر ہے جس نے اپنا ادبی کیریئر اردو سے شروع کیا۔ بعد میں یہ پنجابی کی طرف راغب ہوا۔ اس کی شاعری کئی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹی ہوتی ہے اور اس نے اس ریزہ کاری کو مؤثر انداز میں برتا ہے۔ روزنامہ ''ڈان‘‘ مورخہ 22 جولائی 2005ء کو پنجابی کی ممتاز ادیبہ افضل توصیف مرحوم لکھتی ہیں کہ ہمارے اچھے ادب یا شاعری میں تکنیک کے تجربے بہت کم ہوئے ہیں۔ سلیم شہزاد کی تکنیک قاری کے لیے اس کی ہر نظم کو ایک تیار نوالہ بنا دیتی ہے اور وہ ایک ہی لقمے میں سیر ہو جاتا ہے اور یہ پوری خوراک بھی ہوتی ہے۔ روزنامہ ''خبریں‘‘ 11مئی 2005ء۔ خاکسار کی رائے میں سلیم شہزاد کا پہلا امتیاز وہ زندہ زبان ہے جو انہوں نے اپنی نظموں میں استعمال کی ہے اور جو یقینی طور پر اربنائز ہونے سے کافی حد تک بچی ہوئی ہے اور ہمارے دیہات ہی میں پورے جوش و جذبے سے بولی جاتی ہے۔ بلکہ اگر یہ بھی کہا جائے تو کچھ ایسا غلط نہ ہو گا کہ ہماری ماں بولی کو باقاعدہ دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ یعنی ایک تو وہ جو شہروں میں آ کر اپنی تاب و تواں کھو بیٹھی ہے اور لازمی طور پر خون کی کمی کا شکار ہے اور دوسری وہ جو شہر کی ہوا لگنے سے بچ گئی ہے... سلیم شہزاد کی نظموں میں صحیح زبان کے علاوہ گہرائی اور پیچیدگی بھی دستیاب ہے جبکہ نظریاتی طور پر اس کا قبلہ بھی بظاہر درست لگتا ہے، نیز ابہام بجائے خود شاعری کا حسن ہے... اب اس کی کچھ نظمیں دیکھیے:
آ ہُن
آ ہُن... ہتھ دی میل تے...سفنے اُنیے... جیبھاں اندر... اکھاںرکھ کے... اکھاں رل کے پنیے... آہُن...کنیں سیٹیاں مارئیے... ڈورے ہوکے سُنیے... ویلے دے نال... سانجھ رلا کے... عیباں دے گھر چُنیے... پنڈے اُتے گولے دھرکے... میلاں اندر وڑئیے...کالیاں گلاں کرئیے۔
نظم
چھوڈے رنگے... مونہہ نیں ساڈے... ککراں رنگی اکھ... پیراں دے نال جھوٹھ نوں بنھ کے... پھرئیے ککھو ککھ...کوڑھی کوڑھی ہتھاں دے وچہ...ٹھوٹھے وکھو وکھ۔
نظم
آئو ساڈے گھر دے باہر... ایہو تختی لکھی... کوئی وی بولن والا ایتھے... ہن تاں کدے وی... لبھنا نئیں... ساڈے گھر تے... دن دا پہرہ... چوراں نال کھلوندا اے... اتے نکا نکا روندا اے!
نظم
ساڈے سرچوں...مِکھاں کڈھ کے... مرچاں وچ رلائو... جثیاں اُتے دھونی لا کے... عقلاں نوں پسمائو... عقلاں وچوں... شکلاں کڈھ کے... کندھاں اُتے ٹنگو... فیروی ساتھوں سنگو!
''بنی اپنی گرو آپ‘‘
یہ پنجابی شاعری کی کتاب ہے جو ساون پبلی کیشنز نے چھاپی ہے۔ اس کی خالق شکیلہ جبیں ہیں جو بالکل نیا نام ہے لیکن کمال کی شاعرہ ہیں اور پنجابی شاعری پربالعموم جو یبوست چھائی ہوئی نظر آتی ہے اس کے برعکس یہ ایک نئی کھڑکی کھلتی دکھائی دیتی ہے۔ اندرون سرورق عطاء الحق قاسمی لکھتے ہیں... شکیلہ جبیں کا شعری مجموعہ ''بنی اپنی گرد آپ‘‘ پڑھنے کے بعد مجھے یوں لگا جیسے کسی آرٹ گیلری سے واپس آیا ہوں۔ ایسی آرٹ گیلری جس میں پنجاب کے شعر و ادب کی نمائش تھی اور ہر تصویر فن کا اعلیٰ نمونہ اور شہکار تھی۔ شکیلہ جبیں نے منفرد، دلکش اور دلپذیر شاعری کر کے میرے خیال میں، پنجابی شاعری کی روایت کی نمائندگی کی ہے۔ ایک طرف اس کی شاعری کی جڑیں صوفیانہ شعری روایت میں پیوست ہیں تو دوسری طرف اس کی شعری اٹھان راوی اور چناب میں اٹھنے والی لہروں جیسی ہے جو کبھی کبھی دریا کے کناروں کو بھی ساتھ بہا لے جاتی ہیں۔ شکیلہ جبیں کی شاعری بعض شاعروں کی کھڑی فصلوں کو ڈبونے کی صلاحیت رکھتی ہے مگر خوشی اس بات کی ہے کہ یہ پنجاب کی شعری روایت میں اپنی زرخیزی بھی شامل کرے گی جس سے نئی اور شاداب فصلیں لہلہائیں گی... اور اب اس کی ایک نظم:
مائے نی کل رات
اجے ہوئی نئیں سی سرگھی...ہر شے سی اوہدے ورگی... میرے ویہڑے آ گیا چور... جدپادتا میں شور... فیر گل ہوئی نہ بات... مائے نی کل رات... مِکھ سر میرے چوں کڈھی... میرے مونہہ چوں بولی وڈھی... میرے کھوہ کے لے گیا ہوش... دس میرا کیہہ اے دوش... چُپ ہو گئے پھل تے پات... مائے نی کل رات... میرے کنیں دِتا رُوں...میں چاں کیتا نہ چوں...میں ہو گئی گنگی بولی... گئی چڑھ سمے دی ڈولی... مینوں بُھل گئی میری ذات... مائے نی کل رات... میرے ہتھ پھڑا کے چھنی... وچ جھاڑ گیا اوہ کنی... میں ویکھ کے کیتا واہ... توں چورناہیں ، ایں شاہ... بن پیکادے گیا مات... مائے نی کل رات... میری خالی کر کے کھوپڑی... میرے دل دی ٹِکی چوپڑی... دل رکھ دتا میرے کول... جویں لجّ نال بدھا ڈول... میں ڈبی وچ فرات... مائے نی کل رات۔
اس شاعرہ کی مزید ڈھیر ساری نظمیں کسی اگلی نشست میں پیش کر وں گا۔ اس نے مجھے حیران کر دیا ہے!
آج کا مقطع
عزاداری میں شامل تو سبھی ہوتے ہیں لیکن
ظفر، جس پر گزر جائے اُسی کی کربلا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved