تسلیم ور ضا کے معنیٰ ہیں :''اپنے آپ کو اللہ کے سپر د کردینا، اپنی نفسانی خواہشات و ترجیحات کو اللہ کی رضا کے تابع کر دینا ، اپنی انا کو اس کی رضا میں فنا کر دینا ‘‘اسی کو فنا فی اللہ بھی کہتے ہیں اور انگریزی میں اسےTotal Submissionسے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اسی معنویت کو ان آیاتِ مبارکہ میں بیان فرمایا ہے :
(1) '' اور لوگوں میں سے ایک شخص ایسا ہے جو اللہ کی رضا کے حصول کے لیے اپنی جان کا سودا کر لیتا ہے ‘‘(بقرہ : 207) (2) '' بے شک اللہ نے اہلِ ایمان سے اُن کی جانوں اور مالوں کو جنت کے عوض خرید لیا ہے ، وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں ، پھر( اللہ کے دشمنوں کو) قتل کر دیتے ہیں یا(راہِ حق میں) شہید ہو جاتے ہیں ، اس پر اللہ کا تورات، انجیل اور قرآن میں سچا وعدہ ہے اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو وفا کرنے والا کون ہے ، سو تم اپنی اس بیع کی خوشی مناؤ جو تم نے اللہ سے کی ہے اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے ‘‘ (توبہ : 111)
حضرتِ ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام نے تسلیم و رضا کی یہ لا زوال مثال قائم کی ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ''سو جب (باپ بیٹا)دونوں نے سرِ تسلیم خم کر دیا اور ابراہیم نے اپنے بیٹے کو پیشانی کے بل گرا دیا ،‘‘(الصّٰفّٰت: 103) مراحلِ ابتلا میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عزیمت و استقامت کی شہادت اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ان کلمات طیبات میں دی ہے:'' اور جب ابراہیم علیہ السلام کو ان کے رب نے چند باتوں میں آزمایا ، تو وہ (اس امتحان میں )پورا اترے ، اللہ نے فرمایا : میں تمہیں انسانیت کا امام بنانے والا ہوں‘‘ (بقرہ: 124) اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا : ''بے شک ابراہیم علیہ السلام (اپنی ذات میں ) اللہ کے اطاعت گزار ایک امام تھے، ہر باطل سے اجتناب کرنے والے اور مشرکوں میں سے نہ تھے ، اس کی نعمتوں کے شکر گزار تھے ، (اللہ نے) ان کو منتخب کر لیا اور ان کو سیدھے راستے کی ہدایت دی اور ہم نے ان کو دنیا میں بھلائی عطا کی‘ آخرت میں بھی وہ نیکو کاروں میں سے ہوں گے ‘‘ (النحل : 120-122)
پس تسلیم ورضا کا یہ شِعار حضرت ابراہیم علیہ السلام سے شروع ہوا اور حضرتِ اسماعیل علیہ السلام کے توسط سے رحمۃ اللعالمین سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ تک پہنچا۔ غزوۂ حنین میں قبیلۂ ہوازن کی شدید تیر اندازی کے سبب جب وقتی طور پرمجاہدین کے قدم اکھڑ گئے تو رسول اللہ ﷺ تنہا میدان میں پوری استقامت کے ساتھ کھڑے رہے اور فرمایا : ''میں نبی ہوں یہ کوئی جھوٹ نہیں ہے ، میں عبدالمطلب کا فرزند ہوں ‘‘۔ رسول اللہ ﷺ سے اللہ کی راہ میں عزیمت و استقامت اور جاں نثاری کی یہ وراثت آپ کے اہلِ بیتِ اطہار کو منتقل ہوئی اور میدانِ کربلا میں امامِ عالی مقام حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کے اہلِ بیتِ اطہار و اعوان و انصار رضی اللہ عنہم کے ذریعے یہ اپنی معراج کو پہنچی ۔ علامہ اقبال نے کہا تھا :
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حُسین، ابتدا ہے اسماعیل
اللہ تعالیٰ کے محبوب و مقرّب بندے سراپا تسلیم و رضا ہوتے ہیں ، وہ اللہ کی قضا و قدر پر شاکی نہیں ہوتے بلکہ راضی رہتے ہیں ۔ امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ جامع مسجد کوفہ میں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ عبدالرحمٰن بن ملجم خارجی نے زیرِ لب کہا : ''میں ایسی چکی چلاؤں گا کہ لوگوں کو ان سے نجات دلادوں گا ‘‘۔ کچھ لوگوں نے اس کی اس بات کو سنا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا : ''اس کے ارادے ناپاک ہیں اور یہ آپ کو قتل کی دھمکی دے رہا ہے ‘‘۔ اس پر حضرت علی ؓنے کہا: ''ابھی تو اس نے مجھے قتل نہیں کیا‘‘۔اور ایک روایت کے مطابق آپ نے کہا:''میں اپنے قاتل کو کیسے قتل کردوں ‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی شہادت کا علم تھا ۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا تھا: '' گزشتہ امتوں میں بدبخت ترین شخص وہ تھا جس نے حضرت صالح علیہ السلام کی ناقہ کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور اس اُمت کا بدبخت ترین شخص وہ ہو گا جو تمہاری پیشانی کو خون سے رنگین کرے گا‘‘۔ایک بار بیماری کے عالم میں آپ سے کہا گیا : بہتر ہوتا کہ آپ مدینہ منورہ تشریف لے جاتے : تو آپؓ نے فرمایا:اس بیماری میں میرا انتقال نہیں ہو گا ، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے عہد فرمایا تھا کہ موت سے پہلے مجھے امیر مقر ر کیا جائے گا، پھر (جب میری شہادت کا وقت آئے گا تو ) قاتل میری پیشانی سے داڑھی تک میرے خون سے رنگین کرے گا ۔
یہ تمام حقائق اس بات پر شاہد ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی شہادت کاعلم تھا اور شاید قاتل کا بھی علم تھا۔ لیکن انہوں نے اپنے قاتل کا خاتمہ نہیں کیا بلکہ وہ شہادت کے لیے ہر وقت آمادہ رہے ۔ یہی صورتِ حال امامِ عالی مقام حسین رضی اللہ عنہ کی بھی تھی کہ جب شہادت کی منزل انہیں آفتاب نصف النہار کی طرح اپنی آنکھوں کے سامنے نظر آرہی تھی تو آپ کے پائے ثبات میں کو ئی لغزش نہ آئی اور اس منزل کو پانے کے لیے آپ تیار رہے ۔ شبِ عاشور کو آپ نے چراغ گُل کیا اوراپنے جاںنثاروں سے کہاکہ یہ لوگ میرے خون کے پیاسے ہیں ،تم سے انہیں غرض نہیں ہے ۔ سواگر تم میں سے کوئی جان بچاکر جانا چاہے تومیری طرف سے اُسے اجازت ہے ،لیکن وہ سب کوہِ استقامت تھے اورموت کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنے کے باوجود آپ کا ساتھ نہیں چھوڑا، یہی منزلِ تسلیم ورضا ہوتی ہے کہ جب انسان دنیوی نفع ونقصان سے ماوراہوکر حیاتِ ابدی اور رضائے الٰہی کو اپنی منزل بنا لیتاہے اور اس کے نتیجے میں اُس کے لیے جان سے گزرنے کی منزل بھی آسان ہوجاتی ہے ،علامہ اقبال نے خوب کہا :
برتر از اندیشۂ سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی
تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں، پیہم رواں، ہر دم جواں ہے زندگی
اِسی شعار کوحضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے میدانِ کرب وبلا میں اُن بلندیوں تک پہنچایا کہ جس کی نظیر تاریخِ انسانیت میں نہیں ملتی ۔ اللہ کی راہ میں ایثار وقربانی کا کوئی ایسا عنوان باقی نہ رہا جسے آپ نے اپنی نسبت سے مُشرَّف نہ کیاہو ۔ اس سے پہلے جب آپ مدینۂ منورہ سے عزمِ سفر کرنے لگے تو جلیل القدر صحابہ حضرت عبداللہ بن عباس ‘حضرت عبداللہ بن زبیر ،حضرت ابوسعید خدری وغیرہم رضی اللہ عنہم اجمعین نے آپ کو اس سفر سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی اور اہلِ کوفہ کی بیوفائیوں کابھی حوالہ دیا ،لیکن آپ اپنے عزم پر قائم رہے ۔ اس کاسبب یہ تھا کہ کوفے کے لوگوں نے بڑی تعداد میں خطوط بھیجے اور آپ کو کوفہ آنے کی دعوت دی اور بطورامیرالمومنین و خلیفہ آپ کی بیعت کرنے کا وعدہ کیا اور آپ بجاطورپر یہ سمجھتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ سے نسبتِ قرابت ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرزند اور حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کالختِ جگر ہونے اور اپنے علم اور ورَع وتقویٰ کے سبب آپ خلافت کے اہل ہیں ۔ چنانچہ آپ عمرہ اداکرنے کے بعد منازلِ سفر طے کرتے ہوئے کربلا پہنچے اور محرم الحرام 61ھ کے یومِ عاشور کو جب کوفے کی مساجد سے جمعۃ المبارک کی اذان کی آوازیں بلند ہورہی تھیں ، شقی القلب لوگ تقریباً اُسی وقت نواسۂ رسول کی گردن پر خنجر چلارہے تھے ۔یہ منظر کسی بھی مسلمان کے لیے ناقابلِ تصور ہے لیکن امت کی بدنصیبی کہ بظاہریہ ناممکن فعل واقع ہوا اور آج تک اس پر تمام اہلِ ایمان اور محبانِ رسول ﷺ ومحبانِ اہلِ بیتِ رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین غمگسار ہیں ۔
لیکن ستم یہ ہے کہ محبتِ حسینؓ کے دعوے دار تو بہت ہیں اور اپنے اپنے انداز میں ان کی یاد بھی مناتے ہیں ،ان کا غم بھی تازہ کرتے ہیں اور مجالس بھی منعقدکرتے ہیں،مگر اُن کی اقدار کو زندہ کرنے والے آج بھی کم ہیں ۔اسی لیے علامہ اقبال نے کہا تھا :
گرچہ ہیں تابدار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات
قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں