چیئر مین سینیٹ میاں رضا ربانی نے بارہ اکتوبر 1999ء کی منا سبت سے اپنی تقریر میں فرمایا ہے کہ جنرل مشرف نے کشمیر کا سودا کرلیا تھا اگر یہ حرکت کسی سویلین وزیر اعظم نے کی ہوتی تو اب تک اسے تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا ہوتا، لیکن وہ کراچی ڈیفنس میں مزے سے رہ رہا ہے۔ میاںرضا ربانی بھول گئے کہ بارہ اکتوبر کی سب سے زیا دہ پذیرائی تو پیپلز پارٹی کی جانب سے کی گئی تھی۔ اگر کسی کو ذرا سا بھی شک ہے کہ میں نے غلط لکھ دیا ہے تو پنجاب پبلک لائبریری لاہور میں تیرہ اکتوبر سے بارہ نومبر 1999ء تک کے اخبارات کا مطالعہ کر لے، ایسے ایسے چہرے شہنائیاں بجاتے دکھائے دیں گے کہ اپنی نظر بھی دھوکہ دیتی محسوس ہو گی، اور پھر راجیو گاند ھی کے ''خالصتان‘‘ کے سودے سے پھر جانے کا شکوہ تو پی پی پی کی محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے ایک مشہور زمانہ انٹرویومیں خود کیا تھا ۔ میاں رضا ربانی کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ خالصتان کے سودے کے بعد بہت سے لوگ مزے کرتے رہے ہیں۔ جس سودے کا الزام میاں رضا ربانی نے جنرل مشرف پر الزام لگایا ہے اس کی وضاحت وزیر اعظم میاں نواز شریف نے جنرل اسمبلی کے70 ویں اجلاس سے خطاب میںبھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے چار نکات پیش کرتے ہوئے کر دی ہے کہ پاکستان اور بھارت کو2003ء میں طے پانے والے معاہدے پر عمل کرتے ہوئے بر صغیر میں امن کی ضمانت بننا چاہئے۔ کارگل جنگ نے کشمیر کے مسئلے پر بے سدھ سوئی ہوئی اقوام عالم کو ہڑبڑا کر جگا د یا اور پھر نائن الیون کے بعد تو جنرل مشرف نے دنیا بھر کی توجہ کشمیر کی جانب کھینچ لی، جس پر امریکہ اور یورپی یونین نے کھل کر ان کا ساتھ دینا شروع کر دیا۔ دسمبر2003 ء میں خارجہ امور کی
یورپی پارلیمانی کمیٹی اور ہیومن رائٹس کامن سکیورٹی جبکہ دفاعی تجزیہ کاروں کے مختلف گروپوں نے جون2004ء میں مقبوضہ کشمیر کے تفصیلی دورے کے بعد ''The world's most beautiful prison'' کے نام سے اپنی رپورٹ میں مقبوضہ کشمیر کو بھارتی ظلم و استبداد کے سائے میں '' دنیا کے خوبصورت قید خانے‘‘سے تعبیر کیاتھا، جس پر بھارت کو سفارتی محاذ پر سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور عالمی دبائو پر مجبور ہو کر بھارت کو کشمیر پر پہلی دفعہ سنجیدگی سے مذاکرات کے واضح ایجنڈے پر بیٹھنا پڑا۔ 2003ء کے بعداب وزیر اعظم نواز شریف کی جنرل اسمبلی میں کی گئی تقریر میں پیش کئے گئے چار نکاتی فارمولے کو سامنے رکھیں تو جنرل مشرف پرمیاں رضا ربانی اور مسلم لیگ نواز کی جانب سے بار بار لگائے جانے والے تمام الزام غلط ثابت ہو جاتے ہیں کیونکہ آج اسی رسی کو پکڑ کر کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کی بات کی جا رہی ہے، جو جنرل مشرف نے کئی سال پہلے بھارت کی دھوتی سے باندھ دی تھی۔ وزیر اعظم نواز شریف نے جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں جو کچھ کہا ، وہ ایک قومی اخبار میں 5مئی 2005ء کو ''کشمیر اور سات زون‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے میرے مضمون میں بھی اس طرح درج ہیں: میثاق جمہوریت والی دونوں جماعتوں،جو ایک ہی گردان کرتی رہتی تھیں کہ مشرف نے کشمیر کا سودا کر لیا ہے،کو شاید یاد رہ گیا ہو کہ اکتوبر2004ء میں جنرل مشرف نے بحیثیت صدر پاکستان، من موہن سنگھ اور سونیا گاندھی کو کشمیر کے سات ریجن کا فارمولا پیش کرتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔
٭ ریاست جموں و کشمیر کو ایک اکائی تسلیم کرنے کی بجائے سات زونوں میں تقسیم کر کے وہاں کے باشندوں کی اپنے مستقبل کے بارے میں آزادانہ رائے لی جائے۔٭ کشمیر کے ان سات ریجنز کو غیر فوجی علا قہ قرار دے دیا جائے۔ (یہ نکتہ اس لئے شامل کیا گیا تھا کہ کشمیر پر اب تک اقوام متحدہ سے جتنی بھی قرار دادیں منظور ہوئی ہیں ان میں یہ بات صاف طور پر لکھی گئی ہے کہ پاکستان اور بھارت اپنی فوجیں کشمیر سے نکال لیں گے تاکہ کشمیر کے لوگ آزادانہ طور پر رائے شماری میں حصہ لے سکیں۔ ان قرار دادوں میں بھارت کو کشمیر میں8 ہزار اور پاکستان کو3 ہزار تک فوج رکھنے کی اجا زت دی گئی ۔)٭ان سات ریجنز کا سٹیٹس تبدیل کر دیا جائے۔٭ سات ریجنز کے عوام کی رائے لینے اور ان علا قوں میں انتقال اقتدار تک اقوام متحدہ کی جانب سے بھیجی جانے والی عالمی افواج کشمیر میں تعینات کر دی جائیں۔
1 ۔مقبوضہ وادی سری نگر میں69 فیصد مسلم آبادی ہے۔2۔جموں میں ہندو آبادی 58 فیصد ہونے کی وجہ سے اکثریت میں ہے۔3 ۔ پونچھ، راجوڑی،کشتواڑ، بھدر واہ، ریاسی اور ڈوڈا کے علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔4۔کارگل میں84 فیصد سے زائد مسلمان بستے ہیں ۔5۔لداخ میں مسلمان صرف13 فیصد ہیں۔6۔آزاد کشمیرمکمل مسلم آبادی ہے۔7۔گلگت اور اس کے ملحقہ علا قے بھی مسلم آبادی پر مشتمل ہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف نے جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے جو چار نکاتی ایجنڈا پیش کیا، اس پر اگر بھارت کو رضا مند کرنے کیلئے مذاکرات کی رفتار کچھوے کی طرح شروع ہو گی تو پھر نتیجہ وہی نکلے گا جو اب تک نکلتا رہا ہے۔جب جنرل مشرف نے اقوام عالم اور بھارت کے سامنے کشمیر کے سات ریجن کی بات کی تھی تو اس سے پہلے ایشیا سٹڈی گروپ، ایشیا سوسائٹی اور امریکی تھنک ٹینک ایک ہی رٹ لگائے رہتے تھے کہ لائن آف کنٹرول کو ہی مستقل بارڈر کی صورت میں قبول کر لیا جائے اور اس طرح کی تجاویز دیتے ہوئے وہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی تمام قرار دادوں کو مذاق میں اڑا دیتے تھے ۔ نائن الیون سے پہلے امریکہ اور مغربی طاقتیں بھارت پر اس دیرینہ مسئلہ کے حوالے سے کسی قسم کا دبائو ڈالنے سے گریز کرنے لگے تھے، لیکن نائن الیون کے فوری بعد دنیا بدل گئی۔ ہماری وزارت خارجہ کے ریکارڈ میں ہو گا کہ ایک وقت میں '' چناب فارمولا‘‘ بھی پیش ہوا تھالیکن یہ اس لئے سرے نہ چڑھ سکا کہ اس طرح جموں اور لداخ کا الحاق پاکستان سے ہوتا تھا، لیکن جو ایجنڈا جنرل مشرف نے سات زونز کی صورت میں بھارت کو پیش کیا اوراس پر بات چیت تقریباً مکمل ہو کر مئی2007ء میں اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کے دورۂ اسلام آباد میں ایک بہترین مشترکہ حل کی جانب جانے والی تھی اور جس پر حریت کانفرنس کے لوگوں نے اپنی مکمل حمایت کی مہر بھی ثبت کر دی تھی لیکن عدلیہ کی آزادی کی آڑ میں پرویز مشرف کے خلاف چلنے والی مہم نے اس معاہدے کو سبو تاژ کر دیا گیا ۔ پاکستان میں انہی معاملات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بھارت کے آرمی چیف نے اپنی حکومت کو وارننگ دی تھی کہ پاکستان کے اس وقت کے حالات کسی بھی سمجھوتے کے حق میں نہیں ، کیونکہ خدشہ ہے کہ جنرل مشرف اپنی گرتی ہوئی کرسی دیکھ کر سرحدوں پر کوئی گڑ بڑ نہ کرا دیں۔ اس باہر تک پھیلے ہوئے کھیل میں وہ سایہ پیش پیش تھا جس نے جنرل مشرف کے حق میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بارے میں اپنا بیان حلفی دینے سے انکار کر دیا تھا۔۔۔
بہت ہی منا سب ہو تا اگر وزیر اعظم نواز شریف جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں اقوام متحدہ کی قرار دادکا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی یاد کرا دیتے کہ''1948ء سے1971ء تک اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کشمیر کے بارے میں 27 قرار دادیں منظور کرا چکی ہے اور سب جانتے ہیں کہ سب سے جھوٹی جمہوریت کا علمبردار بھارت اقوام عالم کی ان قراردادوں سے کیا سلوک کرتا چلا آ رہا ہے ۔