تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     26-10-2015

دگرگوں ہے جہاں ، تاروں کی گردش تیز ہے ساقی

منظر ایک بارپھر وہی ہے ، اقبالؔ نے دوسری عالمگیر جنگ سے کئی سال قبل جو بیان کیا تھا ؎
دگرگوں ہے جہاں ، تاروں کی گردش تیز ہے ساقی 
دلِ ہر ذرّہ میں غوغائے رستا خیز ہے ساقی 
پاکستان اس عالمگیر خانہ جنگی کے وسط میں واقع ہے ، جو افغانستان کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں پھوٹ پڑی ہے ۔ بھارت میں اس کا آغاز ہو چکا ہے ۔فرقہ پرست بی جے پی اس سے بچنے کی کوئی حکمتِ عملی تشکیل نہیں دے رہی ۔ پاکستان کو ایک دیر پا منصوبہ بندی اور از سرِ نو اپنی ترجیحات طے کرنے کی ضرورت ہے ۔
قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف پاک فوج نے ایک بے مثال جنگ لڑی ہے ۔ ہر ہفتے ہمارے بیس سے پچیس جوان اور افسر اب بھی شہید ہو رہے ہیں ۔ دہشت گرد پسپا ہیں لیکن بلوچستان اور سندھ کے چھوٹے شہروں میں نئے ہدف انہوں نے چن لیے ہیں ۔ یہاں پولیس کی حالت ابتر ہے ۔ بلوچستان میں نیم خواندہ لیویز کا راج ہے ، سیاسی رہنما جن کے محافظ ہیں ۔کراچی پولیس پر عسکری اداروں ، میڈیا اور فعال طبقات کے دبائو سے کچھ بہتری ہوئی ہے ۔ مشتا ق مہر سب سے بڑے شہر کے نئے قابلِ قبول پولیس افسر ہیں ۔ دیہی علاقوں میں صورتِ حال شرمناک ہے ۔ پولیس افسروں کا کام حکومت کے مخالفین کو نکیل ڈالنا یا گھیر گھار کر حکمران جماعت میں شامل کرنا ہے ۔
بلدیاتی الیکشن کے نتائج سامنے آئیں گے تو آشکار ہوگا کہ پی ٹی آئی نے ٹکٹیں جاری کرنے میں مئی 2013ء سے کم حماقتوں کا ارتکاب نہیں کیا۔ شاہ محمود نے معاملہ ان ارکانِ اسمبلی اور عہدیداروں پر چھوڑ دیا ، جن سے ذاتی حمایت کی امید رکھتے ہیں ۔ چوہدری سرور نے بھاگ دوڑ بہت کی مگر وسطی پنجاب اور پوٹھوہار کو ابھی وہ سمجھتے نہیں ۔ جہلم کی فہرست میں نے دیکھی ہے ۔ زیادہ متحرک امیدوار یکسر نظر انداز کر دیے گئے ۔ فیصل آبادہی نہیں ، ہر کہیں لیگی گروپ باہم متصادم ہیں ۔ وہ مگر بچ نکلے گی۔ جیتنے والے اکثر آزاد امیدوار سرکاری دربار کا رخ کریں گے ۔ عمران خان دھاندلی کا شور مچاتے رہ جائیں گے ۔ 
بلدیا تی الیکشن نے دونوں بڑی پارٹیوں کا کھوکھلا پن واشگاف کر دیا ۔ اندیشہ ہے کہ ان میں تلخی اور بڑھے گی ۔ اندیشہ ہے کہ سیاسی میدان میں خلا کچھ اور بڑھے گا، فوج کے سو اجسے پر کرنے والا کوئی نہیں ۔ ۔۔اور اس کے کندھوں پر پہلے ہی بہت بوجھ لادا جا چکا۔ یہ ایک خطرناک صورتِ حال ہے ۔ قبائلی علاقے میں عسکری کامیابیوں کے باوجود سول اداروں کو مستحکم کرنے کی اب تک کوئی کوشش نہیں ۔ سوات میں سپاہ ابھی تک موجود ہے ۔ قبائل کے لیے متبادل نظام وضع کرنے پر غور وخوض تک نہیں۔ انہیں پرانے فرسودہ قوانین کے تحت کام جاری رکھنا ہے ، ایک نیا صوبہ تشکیل دینا ہے یا پختون خوا میں ضم کر نا ہے ۔ اب تک کوئی ایک اجلاس تک نہیں ہوا۔ عسکری کامیابیوں اور ہمارے گرد وپیش کے بگڑے ہوئے حالات نے جو نئے مواقع ارزاں کیے تھے، ان سے فائدہ اٹھانے کی حکمتِ عملی کیوں تشکیل نہیں دی جا رہی ؟ اس سوال کا جواب دینے والا کوئی نہیں ۔ عمران خان اپنے ہوائی گھوڑے کے قدموں تلے نون لیگ کو روند ڈالنا چاہتے ہیں ۔ حساس اور اختیارات کے حریص میاں محمد نوازشریف نے تین عدد وزرا کو یہ ذمہ داری سونپ رکھی ہے کہ عمران خان پر گولہ باری کرتے رہیں ۔ جلسۂ عام میں وہ
کہتے ہیں : میں تو گالیوں کے جواب میں بھی دعا دیتا ہوں ۔ ایک نہیں ، روزانہ تین دعائیں....ایک پرویز رشید ، دوسری دانیا ل عزیز اور تیسری طلال چوہدری کی زبان سے ۔
مقبوضہ کشمیر میں صورتِ حال پاکستان کے حق میں پلٹ گئی ہے ۔ نریندر مودی کا اقتدار جس کا سب سے بڑا محرّک ہے ۔ انہوں نے بھارتی آئین میں دفعہ 370ختم کرنے کا خواب دیکھا تھااور مسلم اقلیت کو دوسرے سے تیسرے درجے کا شہری بنانے کا۔ نفرت کی جو نئی لہر بھار ت میں اٹھی ہے ، وقت گزرنے کے ساتھ وہ بڑھتی جائے گی ۔ اس سے پہلے ایسا کبھی نہ ہوا تھا کہ درجنوں ادیب ، شاعر اور مصور اپنے اعزازات بھارتی حکومت کے منہ پر دے ماریں ۔ نریندر مودی کی اسرار خاموشی یہ کہتی ہے کہ وہ کسی معجزے کی امید میں ہیں ۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ نفرت پھیلانے والی متعصب قوّتیں جب بے لگام ہو جائیں تو مہینوں اور برسوں کا نہیں ، یہ عشروں کا کھیل ہوتاہے ۔ ہم کراچی میں اسے بھگت رہے ہیں۔ برطانوی حکومت سے وزیرِاعظم نواز شریف اور جنرل راحیل شریف کی درخواستوں کے باوجود پولیس کے ہاتھ بندھے نظر آتے ہیں ۔ معاملات ایم آئی سکس دیکھ رہی ہے ، جو اپنے فیصلے پاکستانی سیاست میں انگریزی مفادات کے مطابق صادر کرے گی ۔ بھارت کے لیے قیمت چکانے کا وقت اب آپہنچا۔ جنوب میں متعین ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ بھارتی فوج آئندہ برسوں میں شاید کبھی پاکستانی سرحد پر نہ لائی جا سکے ۔ کشمیرکے بارے میں کچھ عرض کرنے کی ضرورت نہیں ۔
مشرقِ وسطیٰ میں سی آئی اے نے داعش کی پشت پناہی سے خانہ جنگی کا جو دروازہ کھولا، وہ اب برسوں کھلا رہے گا۔ سعودی عرب نے ابتدائی طور پر اس کی امداد کر کے ایک عظیم الشان غلطی کا ارتکاب کیا ۔ کچھ دیر کے لیے ترکوں نے بھی آنکھیں بند کر لیں اور اس کا نتیجہ وہ بھگت رہے ہیں ۔ شام کی صورتِ حال سے صدر پیوٹن نے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ کریمیا پر قبضے سے ان کی مقبولیت اسّی فیصد کو جا پہنچی تھی ۔ پھر اس میں تیزی سے کمی آئی ۔ ایک آخری کوشش انہوں نے یہ کی کہ داعش کے خلاف ایک عالمی محاذ تشکیل دیا جائے، روس کو جس میں برابر کا فریق مان لیا جائے۔ امریکی انکار کے بعد روسیوں میں قومیت کا افتخار جگانے کے لیے شام کا محاذ انہوں نے چنا ہے ۔ روسی طیارے داعش ہی نہیں ، علوی حکومت کے تمام مخالفین پہ بمباری کر رہے ہیں ۔پیوٹن بہت کائیاں قسم کے موقع پرست ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے عدم استحکام میں وہ ایک نئے اور دیر پا عامل کے طور پہ داخل ہوئے ہیں ۔ 
افغانستان میں پاکستانی حکمتِ عملی ناکام ہو گئی ۔ صدر اشرف غنی کے پائوں زمین پر نہیں ۔ افغان فوج کی توڑ پھوڑ کا عمل جاری ہے ۔ قندوز کے واقعات سے ظاہر ہوا کہ کابل کی عمل داری محدود تر ہوتی جار ہی ہے ۔ ہر ماہ ایک ہزار سے زیادہ فوجی اسلحہ سمیت بھاگ نکلتے ہیں ۔ جنگ زدہ ملک میں داعش جڑ پکڑ رہی ہے اور پاکستان میں اس کے نقوشِ قدم اب دکھائی دینے لگے ہیں ۔ افغانستان کی پشتون پٹی ہی نہیں ، شمال کے بارے میں بھی ہمیں نئی حکمتِ عملی اختیار کرنا ہوگی ۔ ترکوں کی مدد سے مختلف گروہوں سے رابطہ ممکن ہے ۔ ہماری اولین ترجیح اب بھی یہی ہونی چاہئیے کہ بھارت افغانستان میں قدم نہ جما نے پائے ۔معتبر ذرائع کی اطلاعات یہ ہیں کہ بھارت خطے میں داعش کا مددگار ہے، اگرچہ آخر کار وہ خود بھی بھگتے گا۔ فی الحال اس کاہدف پاکستان ہے ۔
سعودی عرب کے بزرگ حکمران کی صحت اچھی نہیں ۔ ان کے وارث کا کردار بڑھ گیا ہے ۔ یہ کہنا مگر مشکل ہے کہ شاہی خاندان میں ان کا رسوخ کتنا ہے اور اعلیٰ حکام میں ان کا احترام کس قدر؟ مشرقِ وسطیٰ میں اب اسرائیل ہی واحد مضبوط ملک ہے ۔ کسی وقت بھی وہ مہم جوئی کا مرتکب ہوسکتا ہے ۔ بنی نوعِ انسان کے مستقبل کا فیصلہ کردینے والے اس عظیم معرکے کا وقت شاید قریب آپہنچا ، جو بالاخر برپا ہو کر رہنا ہے ۔ عالمِ اسلام کی نجات کا انحصار اس پر ہے کہ ترکی اورپاکستان خود کو مستحکم رکھ سکیں ۔ 
ایسا لگتاہے کہ آئندہ چند برسوں میں ہماری یہ دنیا یکسر بدل جائے گی کہ کرّہ ء خاک کے اکثر بڑے کھلاڑیوں پہ پاگل پن سوار ہے ۔ آنے والے کل میں ہمارے لیے کیا رکھا ہے ؟ یہ خود ہم پہ منحصر ہے ۔منظر ایک بارپھر وہی ہے ، اقبالؔ نے دوسری عالمگیر جنگ سے کئی سال قبل جو بیان کیا تھا ؎
دگرگوں ہے جہاں ، تاروں کی گردش تیز ہے ساقی 
دلِ ہر ذرّہ میں غوغائے رستا خیز ہے ساقی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved