تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     26-10-2015

گوجرانوالہ سے کویت تک

گوجرانوالہ کے بارے میں بہت کچھ مشہور ہے۔ مثلاً یہ کہ وہاں کے لوگ کھانے پینے کے بہت شوقین ہیں۔ زندہ دلی بھی اپنی مثال آپ ہے۔ ان میں طاقت اور جی داری والوں کی بھی کمی نہیں۔ گوجرانوالہ نے پہلوان بھی دیئے ہیں اور فنکار بھی۔ منور ظریف مرحوم کا تعلق گوجرانوالہ سے تھا۔ اور ہمارے ''حسبِ حال‘‘ والے سہیل احمد بھی خیر سے گوجرانوالہ ہی کے ہیں مگر گزشتہ دنوں ایک ایسا ناہنجار قسم کا واقعہ رونما ہوا جس نے گوجرانوالہ کی ساکھ کو مجروح کو کرنے کی کوشش کی! 
چینلز پر خبر چلی کہ مقامی عدالت کے بخشی خانے کی سکیورٹی پر مامور سب انسپکٹر امجد فاروق ڈیوٹی پر تھا کہ اہلیہ محترمہ نے چھاپا مارکر اسے گرفتار کرنے یعنی اس کی گردن اپنے دستِ مبارک کے شکنجے میں کسنے کی کوشش کی۔ امجد فاروق وردی میں تھا مگر وردی کا رعب اوروں کے لیے ہوگا، اہلیہ کے لیے نہیں۔ جس چیز کو روز ہی دیکھا جائے اس کا کیا رعب؟ ع 
قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا 
اہلیہ کی آمد پر امجد فاروق کا ردعمل وہی تھا جو عدالت کے بیلف کی طرف سے تھانے کے لاک اپ پر چھاپا مارے جانے پر وہاں تعینات اہلکاروں کا ہوا کرتا ہے! یعنی ہڑبونگ سی مچ گئی اور امجد فاروق نے شریکِ حیات کو دیکھتے ہی اپنی حیات بچانے کی خاطر بھاگنا شروع کردیا۔ یہ قوم کیا چاہتی ہے؟ تماشے! بس، چند ہی لمحوں پر سڑک پر اچھا خاصا تماشا کھڑا ہوگیا۔ عدالت کے بخشی خانے کی سکیورٹی کے انچارج کی سڑک پر ایسی ''پیشی‘‘ ہوئی کہ وہاں موجود سبھی لوگوں نے یہ کارروائی دیکھی اور جی بھر کے محظوظ ہوئے۔ کسی نے کچھ خرچ نہیں کیا تھا مگر پیسے وصول ہوگئے! 
ہوم پولیس اسٹیشن کی ایس ایچ او یعنی بیگم صاحبہ شوہرِ نامدار کی گردن ناپنے کے موڈ میں تھیں اور بظاہر تیاری کے ساتھ گھر سے
چلی تھیں۔ ان کا جوش و جذبہ دیکھ کر امجد فاروق کو یقیناً اپنی پاسنگ آؤٹ پریڈ یاد آگئی ہوگی! بات یہ تھی کہ امجد فاروق نے کئی دن سے بیگم صاحبہ کو درشن نہیں دیئے تھے۔ مزید یہ کہ گھر کا ماہانہ خرچ دینا بھی کئی ماہ سے ترک کر رکھا ہے۔ ایسے میں اگر بیگم صاحبہ اُسے لائن حاضر کرنے کا منصوبہ نہ بناتیں تو اور کیا کرتیں! 
امجد فاروق کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے دو گھر ہیں۔ جی ہاں، ایک گھر تو ٹھیک سے چلتا نہیں اور دوسری بیوی بھی کر رکھی ہے۔ اب الجھن یہ ہے کہ ایک گھر نہ بھی جائیں تو دوسرے گھر تو جانا ہی پڑتا ہے۔ یعنی روز یہ کیفیت ہوتی ہے کہ ع 
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا! 
بیوی نمبر ون کا کہنا ہے کہ دوسری شادی کے واقع ہوجانے سے اس کی حیثیت واقعی ثانوی ہوگئی ہے۔ بیوی نمبر ون کے ''پنجۂ استبداد‘‘ سے اپنی گردن بچانے کے لیے امجد فاروق نے جس طور دوڑ لگائی اور جُل دینے میں جس طرح کامیابی حاصل کی وہ تماشا وہاں موجود لوگوں اور چینلز کی بدولت ملک بھر کے لوگوں نے جی بھر کے دیکھا اور دل کھول کر سراہا۔ 
ہمارے حلقۂ احباب میں جس نے بھی ٹی وی پر ایک سب انسپکٹر کو بیوی سے بچنے کے لیے بھاگتے ہوئے دیکھا اس نے بڑی لعن طعن کی۔ کسی کا کہنا تھا کہ ایک مرد کو یوں بھاگنا زیب نہیں دیتا۔ کوئی اس خیال کا حامل تھا کہ امجد فاروق نے مردوں کی ناک کٹوادی، ساری عزت خاک میں ملادی۔ ہم نے جب عزت کی صراحت چاہی تو بعض احباب ناراض ہوگئے! 
لوگوں کی سمجھ میں کچھ آتا تو ہے نہیں، بس طنز کرنے لگتے ہیں۔ ہم نے احباب سے پوچھا کچھ اندازہ بھی ہے کہ ایسی حالت میں انسان بھاگ کھڑا نہ ہو تو اور کیا کرے۔ انسان بھاگے گا نہیں تو کیا کرے گا جب اسے معلوم ہو کہ اگر دھر لیے گئے تو سمجھ لیجیے جان سے گئے! بپھری ہوئی بیوی اگر سڑک پر شوہر کے پیچھے بھاگ رہی ہو تو کیا کر گزرے، دنیا کا کوئی بھی میکینزم یہ بات پورے یقین سے نہیں بتاسکتا! امجد فاروق نے وہی کیا جو ایسی حالت میں کسی بھی عقل مند انسان کو کرنا چاہیے۔ دیکھنے والوں کو تو صرف تبصرے جھاڑنا آتا ہے، قبر کا حال تو مردہ ہی جانتا ہے! 
مرزا تنقید بیگ نے ٹی وی اسکرین پر جب ایک باوردی سب انسپکٹر کو بیوی سے بچنے کی کوشش میں مصروف دیکھا تو ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگئے۔ ان کے پاس ہنسنے کا جواز بھی تھا۔ کسی بھی واقعے کے رونما ہونے سے جب یادیں تازہ ہوجائیں تو انسان کھل کر ہنس ہی سکتا ہے! جس سانحے سے امجد فاروق کا سامنا ہوا ویسے سانحے مرزا پر کئی بار گزر چکے ہیں! ہم نے انہیں بارہا مشورہ دیا ہے کہ ایسے تمام سانحات پر مشتمل ''سوانح‘‘ لکھ ڈالیں مگر ہر بار ہنس دامن بچا جاتے ہیں! 
ہنسی قابو میں آئی تو مرزا نے کہا : ''ان صاحب نے ثابت کردیا کہ یہ پولیس کے محض پے رول پر نہیں ہیں بلکہ باضابطہ پیشہ ورانہ تربیت بھی حاصل کی ہے۔ اِنہوں نے کیا عمدگی سے بھاگ کر بیوی سے جان بچائی ہے۔ ہم تو یہی کہیں گے شالا نظر نا لگے!‘‘ 
مرزا کی بات ہمارے حلق سے نہیں اتری۔ ہم نے عرض کیا کہ اس میں پولیس کی تربیت والی کون سی بات تھی؟ اِس طور بھاگنا تو مجرموں کا طریق ہے۔ 
مرزا بولے : ''یہی تو ہے غور کرنے اور سمجھنے والی بات۔ پولیس والی تربیت تو شروع میں دی جاتی ہے، اور وہ بھی چند ماہ۔ اس کے بعد تو پولیس والے زندگی بھر مجرموں ہی سے تربیت پاتے رہتے ہیں! رات دن مجرم بھاگتے رہتے ہیں اور پولیس ان کے تعاقب میں رہتی ہے۔ اور یہ بھی اچھا ہے کہ مجرم ہاتھ نہیں آتے۔ اگر ہر تعاقب میں پولیس کامیاب ہوجائے تو پھر اس کے پاس کرنے کو کیا رہ جائے گا! یہ خان صاحب والا معاملہ ہے۔‘‘ 
خان صاحب؟ ہم نے حیران ہوکر پوچھا کیا عمران خان؟ مرزا نے جواب دیا : ''نہیں نہیں، دنیا میں اور بھی خان صاحب۔ ہم تو ان خان صاحب کا ذکر کر رہے ہیں جو انگور بیچ رہے تھے۔ ٹھیلے پر انگوروں کے گچھے دھرے تھے۔ ایک بڑی سی کار رکھی۔ ایک صاحب کار سے نکلے اور خان صاحب سے انگور کا نرخ پوچھا۔ انہوں نے بتایا ڈیڑھ سو روپے کلو۔ کار والے صاحب نے پوچھا یہ سارے انگور کتنے ہوں گے۔ خان صاحب نے جائزہ لے کر بتایا یہی کوئی 70 کلو ہوں گے۔ ان صاحب نے 70 کلو کے حساب سے رقم گنی اور خان صاحب کی طرف بڑھائی۔ انہوں نے حیران ہوکر پوچھا یہ کیا۔ وہ صاحب بولے سارے انگور کار کی ڈِکی میں رکھ دو۔ خان صاحب نے جھڑکتے ہوئے کہا جاؤ جاؤ۔ ان صاحب نے حیران ہوکر پوچھا کیا مطلب۔ خان صاحب بولے اگر یہ سب انگور ام تم کو بیچ دے گا تو باقی دن ام کیا کرے گا!‘‘ 
گوجرانوالہ جیسا ہی ایک واقعہ کویت میں بھی رونما ہوا ہے۔ وہاں ایک صاحب اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ شاپنگ مال میں گھوم رہے تھے کہ بیوی نے دیکھ لیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھی کہ یہ منظر دیکھ کر وہ اُن صاحب کی سِٹّی گم ہوجاتی اور وہ لڑکھڑا کر گر پڑتے۔ مگر اُن سے قبل بیوی کی حالت غیر ہوگئی اور وہ بے ہوش ہوکر گر پڑی۔ یہ منظر دیکھ کر وہ صاحب بھاگ کھڑے ہوئے۔ سوشل میڈیا پر لوگوں نے بہت لعن طعن کی ہے کہ مرد ایسے نہیں ہوتے، بے ہوش بیوی کو یوں بے یار و مددگار چھوڑ کر فرار نہیں ہو جانا چاہیے تھا وغیرہ وغیرہ۔ 
مرزا کہتے ہیں : ''معاملہ گوجرانوالہ کا ہو یا کویت سِٹی کا، حقیقت ہر جگہ ایک سی ہے۔ کویت والے صاحب کو بھی اندازہ ہوگا کہ بے ہوش ہوکر گرنے والی بیوی جب ہوش میں آئے گی تو اُن کے ہوش ٹھکانے لگاکر دم لے گی! ایسے خطرات کی بُو سُونگھنے کی صلاحیت قدرت نے ہر مرد کو ودیعت کی ہے۔‘‘ 
ہم مرزا کو جس قدر جانتے ہیں اُس کی روشنی میں اُن کی اس بات کو سَر بہ سَر درست تسلیم کرنا ہی پڑا! مرزا کی طرح ہم بھی اس بات یقین رکھتے ہیں کہ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے سے بچنے کی کوشش ہر شادی شدہ مرد کا فرض ہے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved