پاکستان میں نیشنل سکیورٹی کونسل کا تصور پہلی بار وائس ایڈمرل ایس ایم احسن نے ایوب خان کے دورِ حکومت کے آخری سال یعنی1968ء میں دیا۔ ان کا خیال تھا کہ اس کونسل میں اعلیٰ فوجی و سول افسروں کی شمولیت کے بعد قومی سلامتی سے متعلق امور پر ہونے والے فیصلوں کا معیار بہترہونے کے ساتھ ساتھ ان پر عملدرآمد کی رفتار بھی تیز ہوجائے گی۔ انہوں نے نیشنل سکیورٹی کونسل سے متعلق اپنے خیالات ہاتھ سے لکھ کر فیلڈ مارشل ایوب خان کے حوالے کر دیے اورایوب خان نے یہ کاغذات اپنے مشیروں کو سونپ دیے تاکہ وہ اس تجویز کا جائزہ لے کر اپنی رائے دے سکیں۔ وائس ایڈمر ل احسن کو جنرل ایوب خان سے خصوصی تعلق کی بنیاد پر بیوروکریسی اور فوج میں غیر معمولی رسوخ حاصل تھا۔ انہوں نے اپنی تجویز کا بھرپور تعاقب کیا اور ہر فیصلہ ساز کو اس کی افادیت پر قائل کرلیا۔ تجویز کی حتمی منظوری کا وقت آنے تک ایوب خان تو رخصت ہوگئے مگر ان کے بعد آنے والے جنرل یحییٰ خان نے بھی اس تصور کی مخالفت نہیں کی اور چند اعلیٰ سول و فوجی افسروں پر مشتمل ایک کونسل بنا کر اپنے بااعتماد ساتھی جنرل غلام عمر کو اس کا سیکرٹری بنا دیا۔ کہنے کو تو یہ پاکستان کی پہلی نیشنل سکیورٹی کونسل تھی لیکن عملی طور پر یہ سرکاری کاغذات سے باہر نکل کر کھلی فضا میں نہیں آسکی۔ اس میں شامل افسروں نے بھی اسے ادارہ بنانے کی کوشش کی نہ یحییٰ خان نے اسے کوئی اہمیت دی۔
یحییٰ خان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کا اقتدار سنبھالا تو ایک بار پھر جی ایچ کیو سے نیشنل سکیورٹی کونسل کا غلغلہ اٹھا لیکن بھٹونے اس کے جواب میں کابینہ کی کمیٹی برائے دفاع بنا کر اس کا راستہ
روک دیا۔ جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کا تختہ الٹ کر ملک پر قبضہ کیا تو1985ء تک انہیں نیشنل سکیورٹی کونسل کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی لیکن 1985ء میں انہیں ایک منتخب حکومت سے پالا پڑا تو انہیں یہ کونسل بھی یاد آگئی اور وہ اسے دستور میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے ایک آئینی ادارہ بنانے کے لیے مرنے مارنے پر تل گئے‘ مگر ان کی یہ آرزو پوری نہ ہوئی اورپارلیمنٹ نے جنرل ضیا کے ہر دباؤ کو نظرانداز کرکے نیشنل سکیورٹی کونسل کو اپنے اختیارات میں مداخلت قراردے کر رد کردیا۔ اس کے بعد نیشنل سکیورٹی کونسل ایسا بے وقعت ادارہ بن گئی جس کی رکنیت اس کے ارکان کو بھی بوجھ محسوس ہونے لگی۔ سیاستدانوں نے اسے فوجی آمریت کا تحفہ قرار دے کر ہمیشہ کے لیے رد کردیا اور ہماری فوج نے اسے سول ملٹری تعلقات کا ایک بنیادی پتھر قرار دے کر سینے سے لگائے رکھا۔ نیشنل سکیورٹی کونسل سیاستدانوں کی چڑ بن گئی اور جیسے ہی کوئی اس موضوع پر بات کرتا، آمریت کا ایجنٹ قرار دے دیا جاتا۔ حتیٰ کہ جنرل جہانگیر کرامت نے جب لاہور میں ہی ایک بااختیار نیشنل سکیورٹی کونسل کی بات کی تو اس وقت کے وزیراعظم محمد نواز شریف نے ان سے استعفیٰ لے کر جنرل پرویز مشرف کو فوج کا سربراہ بنا دیا۔ جب جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کو گھر بھیجا تو نیشنل سکیورٹی کونسل ایک بار پھر وجود میں آگئی۔ انہوں نے اپنے چنیدہ و
پسندیدہ افراد پر مشتمل اس کونسل کے سیکرٹری کو قومی سلامتی کے مشیر کا رتبہ دے دیا ۔ پرویز ی نگاہ نے طارق عزیز کو اس باوقار عہدے کے قابل سمجھا اور ان کے ذریعے سکیورٹی کونسل کو سیاست کے بھاڑ میں جھونک دیا، نتیجہ یہ نکلا کہ کونسل اور ایڈوائزر دونوں بدنامی کی پاتال میں اتر گئے۔ جنرل ضیا کی طرح جنرل مشرف نے بھی اس کونسل کو آئینی ادارہ بنانے کی سر توڑ کوشش کی لیکن سیاستدانوں نے اتفاقِ رائے سے ان کی ہر کوشش ناکام بنا دی، البتہ ایک سادہ قانون کے ذریعے اس کونسل کی تشکیل پر راضی ہوگئے۔ پارلیمنٹ سے قانون بنوا دینے کے باوجود سیاستدانوں نے عدم شرکت کے ذریعے اس کونسل کو بے وقعت کردیا اور بوقتِ ضرورت جنرل پرویز مشرف اپنے قومی سلامتی کے مشیر کے ساتھ گپ شپ کو اس کونسل کا اجلاس تصور کرلیتے۔ مشرف کے ساتھ طارق عزیز رخصت ہوئے تو صدر آصف علی زرداری کی فرمائش پر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے جنرل محمود درانی کو قومی سلامتی کا مشیر مقرر کیا اور پھر ممبئی حملوں کے معاملے میں ان کے ایک بیان کو لے کر انہیں ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔ 2013 ء میں نواز شریف اقتدار میں آئے تو انہوں نے سرتاج عزیز کومشیرِ خارجہ کے ساتھ مشیر برائے قومی سلامتی کا عہدہ دے کر واضح کردیا کہ اس عہدے اور نیشنل سکیورٹی کونسل کے بارے میں ان کا ذہن صاف نہیں۔
اب جنرل (ر) ناصر جنجوعہ جیسے تجربہ کار اور منجھے ہوئے آدمی کو نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر مقررکرنے کا مطلب یہ ہے کہ وزیراعظم نیشنل سکیورٹی کونسل کی اہمیت کو تسلیم کرکے اپنے سابق موقف سے غیر اعلانیہ طور پر رجوع کرچکے ہیں۔ گویا 46 سال سے جی ایچی کیو اورایوانِ وزیراعظم کے درمیان لڑھکتی ہوئی اس کونسل کوسیاسی سرپرستی میسر آگئی ہے۔
ہمارے ملک میں نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اور نیشنل سکیورٹی کونسل کی تاریخ بتاتی ہے کہ عملی طور پر یہ دونوں ادارے کبھی بھی غیر سنجیدہ مشق سے زیادہ اہم نہیں رہے۔ یہ فیصلہ تو وقت نے کرنا ہے کہ جنرل جنجوعہ کی تقرری بھی فوج اورحکومت کے درمیان نصف صدی سے جاری مذاق ہے یا ایک اہم سنگِ میل لیکن یہ طے ہے کہ جنرل جنجوعہ ملک کے ان چند لوگوں میں سے ایک ہیں جنہیں بیک وقت وزیراعظم اور چیف آف آرمی سٹاف کا اعتماد حاصل ہے۔ میری معلومات کے مطابق کمانڈر سدرن کمان کے طور پر ان کی دی ہوئی بریفنگز نے وزیراعظم کو ہمیشہ متاثر کیا، جن میں وہ بلوچستان میں طاقت اور مذاکرات کے استعمال سے حاصل کردہ نتائج بیان کرتے رہے ہیں۔ اس عہدے پر ان کا تقرر درحقیقت ان کی اسی متوازن حکمت عملی کی کامیابی کا اعتراف ہے۔ جنرل صاحب نے بلوچستان کی آگ جن جَتنوں سے بجھائی ہے اس کے بارے میں کم لوگ جانتے ہیں، لیکن اب انہیں جی ایچ کیو اور سیاسی حکومت کے درمیان بندھے ہوئے رسے پر چلتے ہوئے اپنا توازن برقرار رکھنے کا چیلنج درپیش ہے، جس میںان کی کامیابی کے امکانات روشن ہیں ۔
جنرل جنجوعہ کو سب سے پہلے تو یہ ثابت کرنا ہے کہ پاکستان میں نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر کا عہدہ واقعی کچھ معنی رکھتا ہے اور ریاستی ڈھانچے میں اس کی بات غور سے سنی جاتی ہے۔ جہاں تک ان کے کام کا تعلق ہے تو کچھ بھی کرنے سے پہلے انہیں وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کے مزاج، وزارت خارجہ کی بے عملی ، وزارت خزانہ کی جز رسی اور سول اداروں کی بے مثل کاہلی سے نمٹنا ہے۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ابھی صرف پاکستان مسلم لیگ ن نے نیشنل سکیورٹی کے بارے میں اپنے تصورات جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے، ہمارا نظام ابھی اس تبدیلی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، اس میں انہیں اپنی گنجائش خود بنانا ہوگی۔ وہ کامیاب رہے تو پاکستان میں قومی سلامتی کے بہت سے الجھے ہوئے مسائل حل ہوجائیں گے اور نیشنل سکیورٹی کونسل ایک باقاعدہ ادارے کی صورت اختیار کرلے گی۔ خدانخواستہ ناکام رہے تو قومی سلامتی کے نظام کو مربوط کرنے کا خیال، خیال ہی رہے گا۔