پیر کے روز زلزلے (شدت8.1)نے پورے ملک کو ہلا دیا۔2005ء کا تباہ کن زلزلہ ہر پیر و جواں کو یاد آیا جس کی شدت تو 7.6رچر سکیل تھی مگر تباہی اس قدر زیادہ کہ پاکستان کے دو خوبصورت شہر مظفر آباد اور بالا کوٹ صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور73 ہزار انسان لقمہ اجل بنے۔زخمیوں کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تھی۔
2005ء کے زلزلہ کی تباہ کاریاں ہم نے مظفر آباد‘ باغ‘ بالا کوٹ اور اردگرد کے قصبات و دیہات میں خود جا کر دیکھیں ۔ برادران عزیز ‘ تنویر قیصر شاہد‘ مظہر برلاس اور عامر ہاشم خاکوانی کے ساتھ زلزلہ زدہ علاقوں میں جانے اور متاثرہ خاندانوں کی ہوشربا داستانیں سننے کے بعد ہفتوں تک سکون کی نیند کم آئی۔ آج بھی بعض مناظر اور واقعات کو یاد کر کے کلیجہ مُنہ کو آتا ہے۔
ایک پلازے کا ستون جس کی زد میں دس گیارہ سالہ بچی آ گئی‘ بھاری بھرکم لینٹر کی زد میں اس کا ایک بازو آیا ‘جسم کا باقی حصہ ستون کی زد سے باہر رہا۔ چونکہ سارا شہر ہی تباہی کی زد میں تھا اور فوجی چھائونی بھی محفوظ نہ رہی تھی اس لیے ستون ہٹانے کے لیے کسی قسم کی مشینری دستیاب نہ تھی‘ بچے کھچے افراد نے لینٹر ہٹانے کے لیے پورا زور لگایا مگر بھاری بھرکم ستون کو ہٹانا ناممکن ۔ معصوم بچی کی چیخیں دل کو دہلا دینے والی تھیں‘ بچی جب ہوش میں آتی چیختی کہ بازو کاٹ کر مجھے بچا لو مگر کسی کی ہمت نہیں پڑتی تھی۔ کوئی ڈاکٹر نہ ہسپتال کہ اگر بچانے کی غرض سے کوئی جی کڑا کر کے اس کا بازو کاٹ بھی دے تو بچی کی تکلیف کم ہونے اور زندہ بچ جانے کی اُمید کی جا سکے۔ ساری رات بچی چیختی چلاتی زندگی کی بھیک مانگتی رہی مگر کسی کی پیش نہ گئی‘ کبھی بیہوش اور کبھی ہوش میں آتی رہی‘ بالآخر دوسری صبح اسی حال میں دم توڑ گئی۔
زلزلے کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم سردار سکندر حیات نے اپنی بے بسی کا اظہار یہ کہہ کر کیا تھا کہ ''میں قبرستان کا وزیر اعظم ہوں‘‘ زلزلے میں وسیع پیمانے پرتباہی اور ہلاکتوں کی اطلاع سب سے پہلے جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد مرحوم نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران دی اور جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد دس ہزار سے زائدبتائی تو سرکاری بنچوں پر بیٹھے ارکان نے خوب مذاق اڑایا۔ وزیر اطلاعات شیخ رشید ان میں پیش پیش تھے مگر بالآخر قاضی صاحب کی اطلاع درست ثابت ہوئی کیونکہ انہیں مظفر آباد میں موجود حزب المجاہدین کے کمانڈر سید صلاح الدین نے آگاہ کیا تھا جبکہ سرکار کا مواصلاتی نظام تباہ ہو چکا تھا اور اگلے چوبیس گھنٹے مواصلاتی نظام بحال کرنے میں لگے۔
2005ء میں پاکستانی قوم کی فیاضی‘ ہمدردی‘ انسان دوستی اور جذبۂ ایثار و قربانی نے پوری دنیا کو حیران کر دیا۔ جونہی قوم کو زلزلے کی تباہ کاریوں کا علم ہوا کراچی سے مظفر آباد اور بالا کوٹ تک اشیائے خورو نوش‘ خیموں‘ کمبلوںاور انسانی استعمال کی دیگر اشیاء سے لدے ٹرکوں‘ ٹرالوں کی قطاریں لگ گئیں۔ ہر شہر اور قصبے میں امدادی کیمپ قائم ہوئے‘ہر ٹرک‘ ٹرالے ‘ موٹر کار‘ موٹر سائیکل اور صحت مند شہری کا رخ ان تباہ حال شہروں کی طرف تھا اور وہ متاثرین کی دل کھول کر مدد کے لیے بے تاب۔یوں لگتا تھا ملک کی ہر سڑک مظفر آباد اور بالا کوٹ کو جاتی ہے۔
بعض مقامات پر جرائم پیشہ عناصر نے امدادی کارکنوں کو تنگ کیا اور ایثار پیشہ لوگوں کی دل شکنی کا باعث بھی بنے مگر بحیثیت مجموعی اس انسانی بھائی چارے اور اسلامی اخوت کو احسان مندی کے جذبے سے سراہا گیا۔ 1947ء اور 1965ء کی یادیں تازہ ہو گئیں جب ہر رنگ و نسل‘مذہب و مسلک کے پاکستانی ایسے ہی جذبے سے سرشار اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک تھے۔ مذہبی و مسلکی تقسیم باقی رہی نہ لسانی‘ نسلی‘ علاقائی اور صوبائی ؎
نے افغانیم و نے ترک و تتاریم
چمن زادیم و از یک شاخساریم
تمیز رنگ و بو بر ما حرام است
کہ ما پروردۂ یک نوبہاریم
اس سفر میں یہ تجربہ بھی ہوا کہ کس طرح انسان اچانک شاہ سے گدا ہو کر رہ جاتا ہے۔ ایسے ایسے تونگر لوگ ملے کہ جن کا لکھ لٹ ہونا ضرب المثل تھا۔ محل نما گھر‘ گاڑیوں کا فلیٹ‘ نوکر چاکر اور دنیا کی ہر سہولت میسر‘ مگر 8بجکر 39منٹ پر زلزلہ آیا تو چند منٹوں میں سب نابود‘ جان بچ گئی سو غنیمت‘ انہیں بھی ہاتھ پھیلانے کی احتیاج تھی اور چند دن پہلے کی جاہ وحشمت محض قصۂ ماضی۔
جس بھی زندہ بچ جانے والے واقف سرکاری افسر‘ صحافی‘ تاجر اور سیاستدان سے ملاقات ہوئی ایک الگ اور اندوہناک داستان سننے کو ملی‘ افسردگی میں اضافہ ہوا۔ کئی پرانے دوست تو نہ ملے کہ اللہ کو پیارے ہو چکے تھے ‘کسی جاننے والے نے ان کے خاندان پر بیتی صبح الم کا ذکر ضرور کیا۔
زلزلہ کے بعد پتہ چلا کہ صرف مظفر آباد اور بالاکوٹ ہی نہیں اسلام آباد بھی فالٹ لائن پر واقع ہے‘ لہٰذا یہ تینوں شہر نئی جگہوں پر آباد کئے جائیں گے۔ بلند بانگ د عوے ہوئے۔ متاثرین کی آباد کاری اور نئے شہروں کی منصوبہ بندی کے لیے ایک ادارہ وجود میں آیا۔ اسلام آباد میں بین الاقوامی اداروں نے اربوں ڈالر عطیات کا وعدہ کیا مگر وہ دن اور آج کا دن کوئی نیا مظفر آباد بس سکا نہ اسلام آباد کی منتقلی کا منصوبہ پروان چڑھا ۔نیو بالا کوٹ کے حوالے سے بھی وقتاً فوقتاً صدائے احتجاج بلند ہوتی ہے مگر اس پر کان کوئی نہیں دھرتا۔اسلام آباد بدستور فالٹ لائن پر واقع ہے اور ماہرین اس وقت سے ڈرتے ہیں جب خدانخواستہ کوئی حادثہ رونما ہو اور پھر ہم بحیثیت قوم پچھتاوے کی دیرینہ عادت کے مطابق اپنے منصوبہ سازوں اور نئے شہروں کی آباد کاری کے لیے مختص فنڈز کو دیگر مدات میں خرچ کرنے والے حکمرانوں کو لعنت ملامت کرتے نظر آئیں۔
ہم مسلمان ہیں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ زلزلے‘ طوفان اور دیگر حادثات ہمیں خواب غفلت سے جگانے اور اپنی کوتاہیوں ‘ غلطیوں ‘ کمزوریوں اور گناہوں کا جائزہ لے کر سدھرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔2005ء کے زلزلے سے ہم نے کیا سبق سیکھا؟مزید لوٹ مار‘ بے تدبیری اور سرکشی! 2005ء کے چند سال بعد مظفر آباد جانے کا موقع ملا تو وہی پرانے رنگ ڈھنگ نظر آئے ‘کسی کو یاد ہی نہ تھا کہ یہاں قیامت گزر چکی ہے۔ زیادہ سے زیادہ کسی نے اگر ذکر کیا تو یہ کہ حکومت نے ہماری مدد نہیں کی ‘صرف ترکی اور سعودی عرب نے مہربانی کی۔حالانکہ ترکی اور سعودی عرب کے علاوہ دیگر دوست ممالک کی مدد اور توجہ سے شہر و دیہات کا نقشہ بدل چکا تھا اور پرانے گھروندوں کی جگہ نوتعمیر خوبصورت گھر‘ کئی منزلہ پلازے‘ جہازی سائز سڑکیں اور نئی ماڈل کی گاڑیاں یہ بتانے کے لیے کافی تھے کہ نئی جگہ نیا شہر نہیں بسا مگر متاثرین اچھی طرح بس چکے ہیں اور گلہ شکوہ ناشکری کے سوا کچھ نہیں۔
اس زلزلے کی گہرائی کی بناء پر تباہی کا تناسب کم رہنے کی امید ہے۔ خدا پاکستان اور افغانستان کے عوام کو تباہی کاریوں سے محفوظ رکھے مگر ہمیں بحیثیت انسان اور مسلمان سوچنا ضرور چاہیے کہ کہیں یہ ہم سب کے لیے خدائی وارننگ تو نہیں۔ قوانین فطرت کی مسلسل پامالی قدرت کے لیے ناقابل برداشت تو نہیں ہو گئی اور ہم قدرتی انتباہ پر کان نہ دھر کر کہیں مسلسل نافرمانی کے مرتکب تو نہیں ہو رہے۔جھٹکا‘ قومی سطح پر اگر ہمیں سنبھلنے کی توفیق دے تو غنیمت ہے۔ دعا یہ کرنی چاہیے کہ ؎
رحم کر اپنے نہ آئین کرم کو بھول جا
ہم تجھے بھولے ہیں لیکن تو نہ ہم کو بھول جا
اک نظر ہو جائے آقا!اب ہمارے حال پر
ڈال دے پردے ہماری شامت اعمال پر
خلق کے راندے ہوئے دنیا کے ٹھکرائے ہوئے
آئے ہیں اب ترے در پر ہاتھ پھیلائے ہوئے
خوار ہیں بدکار ہیں ڈوبے ہوئے ذلت میں ہیں
کچھ بھی ہیں لیکن تیرے محبوبؐ کی اُمت میں ہیں