تحریر : ڈاکٹر لال خان تاریخ اشاعت     27-10-2015

’’گریٹ گیم‘‘ کی بڑھتی بربادیاں

کھلا راز ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کو امریکیوں نے ''پاک امریکہ تعلقات‘‘ کی بہتری کے لئے نہیں بلکہ افغانستان میں اپنی کمزور پوزیشن کے پیش نظر 'مدعو‘ کیا تھا۔ باقی ایشوز امریکیوں کے لئے ثانوی حیثیت کے حامل تھے۔ میاں صاحب یہاں سے چٹھی لے کے گئے اور وہاں سے لے آئے۔ جوڑ جب برابری کا نہ ہو تو ایجنڈا طاقتور طے کرتے ہیں اور فیصلہ بھی وہی سناتے ہیں۔ جاری کیا گیا مشترکہ اعلامیہ بھی سفارتکاری کی روایتی عیاری پر مبنی محسوس ہوتا ہے جس میں پاکستان یا خطے کے عوام کے لئے کچھ نہ تھا۔ متن کچھ یوں مرتب کیا گیا تھا کہ حکمرانوں کا پردہ رہ جائے اور عوام بھی آسرا لگا سکیں۔ 
قندوز میں گزشتہ دنوں طالبان کا قبضہ اور امریکہ کی بنائی ہوئی 'افغان قومی فوج‘ کی نازک صورتحال اس نامرادی کی غماز ہے‘ جس سے عراق سمیت دوسرے خطوں میں امریکی سامراج دوچار ہے۔ 28 ستمبر کو افغانستان کے ''جمہوری صدر‘‘ اشرف غنی کے اقتدار کی پہلی سالگرہ تھی۔ اسی روز قندوز پر طالبان کا قبضہ اس حکومت کی اصل کیفیت کو واضح کرتا ہے۔ قندوز تین لاکھ کی آبادی پر مشتمل شہر ہے‘ جس کے ذریعے تاجکستان سے صدیوں سے تجارت ہو رہی ہے۔ پچھلے 14 سال میں یہ سب سے اہم شہر ہے‘ جس پر طالبان نے قبضہ کیا ہے۔ طالبان کے نئے کمانڈر ملا اختر منصور کی ساکھ اس کارروائی سے بہتر ہوئی‘ جس نے موجودہ افغان ریاستی مشینری اور فوجی انٹیلی جنس پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ ''بیرونی‘‘ جنگجوئوں کے افغانستان میں داخلے کا سلسلہ بھی جاری ہے اور اس طرح کی کارروائیوں میں ان کا کردار کلیدی قرار دیا جا رہا ہے۔ 
ایک بنیادی حقیقت یہ کھل کر سامنے آئی ہے کہ 14 سال کی جارحیت اور قبضے کے بعد بھی اس جنگ کا پلڑا امریکہ اور اس کی کٹھ پتلی افغان حکومت کے خلاف ہی بھاری ہے۔ پچھلے سات ماہ میں 4700 افغان سرکاری فوجی ہلاک اور 7800 زخمی ہو چکے ہیں۔ بھگوڑے ہو جانے والوں کے اعداد و شمار شائع ہی نہیں کئے جاتے‘ لیکن ان کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ افغان ریاست بری طرح بدعنوانی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ خانہ جنگی اور تشدد اتنا بڑھ گیا ہے کہ یورپ اور دوسرے ممالک میں ہجرت کرنے والوں میں شام کے بعد سب سے زیادہ مہاجرین افغانستان سے ہیں۔ 
قندوز سے طالبان کو اگرچہ نکال دیا گیا ہے‘ لیکن اس حملے کے بعد افغانستان میں امریکی فوجوں کے کمانڈر جنرل جان کیمبل کے کہنے پر اوباما نے مزید فوجیوںکا انخلا روک دیا ہے۔ 9200 امریکی فوجی اب بھی افغانستان میں موجود ہیں۔ جنگی طیارے اس کے علاوہ ہیں۔ اس قیام کا اختتام کب ہو گا، کوئی نہیں بتا سکتا۔ اشرف غنی اور دوسرے افغان حکمران اور امریکی سامراج کے کئی نمائندے کبھی پس پردہ تو کبھی کھل کر طالبان کی اس کارروائی کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دے رہے ہیں۔
پاکستان اور امریکہ ''دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں 2001ء سے ''اتحادی‘‘ ہونے کے دعویدار ہیں‘ لیکن اس دوران الزامات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ پاکستان کی افغانستان میں مداخلت کا شور وہ مچا رہے ہیں جنہوں نے یہ سارا کھیل خود شروع کروایا تھا۔ تب ثور انقلاب کو کچلنے کے لئے جہادی ''فریڈم فائٹر‘‘ تھے اور پاکستانی حکمرانوں کو ان کی تیاری پر خوب شاباش اور انعام ملا کرتا تھا۔ سی آئی اے کی تاریخ کے سب سے بڑے خفیہ
آپریشن سائیکلون کا بنیادی مقصد ہی بنیاد پرستوں کو پروان چڑھانا تھا۔ کشت و خون کا یہ کھیل امریکی سامراج نے ''روسی مداخلت کے رد عمل‘‘ میں نہیں بلکہ افغانستان میں روسی فوجوں کی آمد سے چھ ماہ قبل ہی شروع کر دیا تھا۔ 28 اپریل 1978ء کو سرمایہ داری، جاگیرداری اور پسماندگی کے خلاف افغانستان میں برپا ہونے والے ثور انقلاب کا پیشگی علم بھی ماسکو کو نہ تھا۔ دسمبر 1979ء تک یہ انقلابی حکومت نہ صرف ماسکو کے اثر و رسوخ سے مبرا تھی‘ بلکہ اس کی بہت سی پالیسیاں اس وقت کے سوویت یونین پر براجمان سٹالنسٹ افسر شاہی کو ناپسند تھیں۔ 29 دسمبر 1979ء کو جب روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو انہوں نے سب سے پہلے کسی جہادی کو نہیں بلکہ انقلابی حکومت کے سربراہ حفیظ اللہ امین کو قتل کیا (آپریشن سٹارم 333) جو کٹر کمیونسٹ تھے۔ 
ثور انقلاب کے بعد بے زمین کسانوں میں جاگیروں کی تقسیم، جنسی برابری، ملک گیر خواندگی مہم، انفراسٹرکچر کی تعمیر، ریاستی ملکیت میں صنعت کاری کا آغاز اور سود خور خوانین کی جکڑ کو توڑنے جیسے انقلابی اقدامات افغانستان کے پسماندہ سماج میں کئے گئے‘ جو امریکی سامراج کے مفادات کے لئے زہر قاتل کا درجہ رکھتے تھے۔ یہ انقلاب پورے جنوب ایشیا کے محنت کش عوام کے لئے مشعل راہ بن کر سرمایہ داری اور سامراجیت کو چیلنج کر رہا تھا جسے آغاز میں ہی کچلنے کے لئے امریکیوں نے جہاد شروع کروایا۔ یوں افغانستان میں سامراجی جارحیت 14 نہیں بلکہ 38 سال سے ہی بالواسطہ یا براہ راست طور پر جاری ہے‘ جس نے پاکستان کے معاشرے کو بھی دہشت گردی، کالے دھن کی حاکمیت اور خلفشار میں پھنسا دیا ہے۔ 
وزیر اعظم نواز شریف نے واشنگٹن میں اپنی آخری پریس کانفرنس میں دو اہم باتیں کہیں۔ ایک تو انہوں نے افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو ''خون کا رشتہ‘‘ قرار دیا۔ ساتھ ہی نحیف سے انداز میں افغانستان میں امن مذاکرات کے لئے طالبان کے خلاف کارروائیوں کو بند کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ یہ ایسا ''خون کا رشتہ‘‘ ہے کہ انگریز سامراج نے 1893ء میں ڈیورنڈ لائن کا جو زخم پشتونوں کو تقسیم کرنے کے لئے لگایا تھا اسے پاکستان کے حکمران خندق اور کاریز کھود کر اور بھی گہرا کر رہے ہیں۔ دوسری جانب پاکستانی طالبان سے کچھ عرصہ قبل ہی کئے گئے ''مذاکرات‘‘ سے بھی ان حکمرانوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے۔ 
''طالبان‘‘ سے بہت سے ''مذاکرات‘‘ ماضی قریب میں ہوئے ہیں جو شروع ہونے سے قبل ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ ایسے کتنے ہی معاہدے طے پاتے ہی ٹوٹتے رہے ہیں۔ ''طالبان‘‘ کیا ایک یکجا تنظیمی اکائی کے طور پر کوئی وجود رکھتے ہیں؟ پاکستان میں اگر خود کو ''طالبان‘‘ کہنے والے درجنوں گروہ ہیں تو کمی افغانستان میں بھی نہیں ہے۔ کالے دھن پر پلنے والے یہ گروہ اور ان کے ریاستی و غیر ریاستی، ملکی و غیر ملکی آقا کوئی مقدس جنگ نہیں لڑ رہے ہیں بلکہ مالیاتی مفادات ہیں جو ان کی وفاداری کا تعین کرتے ہیں۔ اربوں ڈالر پر مشتمل منشیات اور دوسرے دھندوں کے کالے دھن کی بندر بانٹ ہی دوستوں یا دشمنوں کا تعین کرتی ہے اور خونریزی میں اتار چڑھائو آتے رہتے ہیں۔ جب تک منڈی، منافع اور لوٹ مار پر مبنی یہ نظام قائم رہے گا، یہ جنگیں اور خانہ جنگیاں چلتی رہیں گی۔ پہلے یہ ''گریٹ گیم‘‘ بڑی سیدھی ہوتی تھی لیکن آج بہت سے نئے کھلاڑی بھی اس میں شامل ہو چکے ہیں۔ 
افغانستان میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری چین کی ہے۔ روس، بھارت اور ایران کی اپنی اپنی مداخلت ہے۔ امریکہ اور پاکستان تو اس گیم کے پرانے کھلاڑی ہیں۔ لیکن گزشتہ چار دہائیوں کے دوران ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف کے عوام نے سامراج کی وحشت، ریاستوں کا جبر اور بنیاد پرستوں کی بربریت کے زخم کھائے ہیں۔ سرمایہ داری کی اس آگ میں پک کر جوان ہونے والی نسل بخوبی جانتی ہے کہ حکمران طبقے کا ہر روپ، نظریہ اور فرد اسی ذلت اور محرومی کا نمائندہ ہے۔ ان تلخیوں سے جو نتائج انہوں نے لاشعوری طور پر اخذ کئے ہیں وہ اپنا شعوری اظہار جلد نہ کہ بدیر کریں گے۔ ثور انقلاب کا ادھورا سفر پھر سے شروع ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved