امریکہ سے ہمارے تعلقات نئی
بلندیوں کو چھونے لگے: نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''امریکہ سے ہمارے تعلقات نئی بلندیوں کو چھونے لگے‘‘ اور کسی لمبی سیڑھی کے بغیر ان کا صحیح اندازہ نہیں لگایا جا سکتا جس کے لیے تھوک کے حساب سے سیڑھیوں کی تیاری شروع کردی گئی ہے جس میں زیادہ تر سریے کا استعمال ہوگا تاکہ امریکہ سے تعلقات لوہے کی طرح پائیدار ہو سکیں بلکہ امریکہ میں بھی ایسی سیڑھیاں تیار کی جا رہی ہیں‘ کیونکہ ان کے بغیر امریکیوں کو بھی ان تعلقات کی ان بلندیوں کا صحیح اندازہ نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ''میں نے امریکہ کو بھارت کی طرف سے پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کی کوششوں سے آگاہ کیا‘‘ اگرچہ اوباما صاحب اس سے پہلے ہی باخبر تھے لیکن میں نے ڈومور پر عمل کرتے ہوئے انہیں مزید آگاہ کردیا جس پر وہ حیران بھی ہوئے کیونکہ میری اکثر باتوں پر انہوں نے حیرت کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ''اوباما نے یقین دلایا ہے کہ وہ بھارت پر مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے زور دیں گے‘‘ کہ آخر ماننا نہ ماننا تو بھارت ہی کا مسئلہ ہے‘ اس لیے مذاکرات کا ڈھونگ رچانے میں ہرج ہی کیا ہے۔ آپ اگلے روز واشنگٹن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
پاکستان احتجاجی سیاست کا
متحمل نہیں ہو سکتا: شہبازشریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''پاکستان احتجاجی سیاست کا متحمل نہیں ہو سکتا‘‘ اور جو کچھ ہم اتنے عرصے سے کر رہے ہیں‘ اس پر احتجاج کرنے کا کوئی فائدہ بھی نہیں کیونکہ ہم مستقل مزاج لوگ ہیں‘ نیز یہ کہ احتجاج کر کر کے سیاستدانوں اور عوام نے ہمارا کیا بگاڑ لیا ہے‘اللہ تعالیٰ کا فرمان یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح کے لوگ ہوں گے ان پر حکمران بھی انہیں کی طرح کے مسلط کیے جائیں گے۔ اس لیے اسے رضائے الٰہی سمجھ کر خاموشی اور صبراختیار کر لینا چاہیے کیونکہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے بلکہ شکر کرنے والوں کے ساتھ بھی ہے‘ لیکن افسوس کہ ان لوگوں کو اپنی عاقبت کی ذرا بھی فکر نہیں ہے اور ان کی ساری توجہ دنیا کے مال پر ہے‘ حالانکہ سب کچھ یہیں پڑا رہ جائے گا‘ جبکہ ہم بھی سب کچھ یہیں چھوڑ جانے کے لیے اکٹھا کر رہے ہیں تاکہ بعد میں عوام کے کام آئے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک اجلاس سے خطاب کے بعد پارٹی وفد سے گفتگو کر رہے تھے۔
عنبرین صلاح الدین اور سجاد بلوچ کی شاعری
کچھ عرصہ پہلے نوبیاہتا جوڑا عنبرین صلاح الدین اور سجاد بلوچ ملنے کے لیے آئے تھے جن کی شاعری سے آپ کے کام و دہن کی ضیافت کا وعدہ کیا تھا‘ سو پورا کر رہا ہوں:
ہم
کہکشائوں سے دامن چھڑا کر ستارے...لپکتی ہوئی‘ ٹوٹ کر پھر سے جڑتی ہوئی... روشنی کی لکیروں سے اُلٹے لٹک کر... ہماری کہانی کی وسعت میں‘ گھیرائو میں‘ جھومتے ہیں... ہماری کہانی وہ وادی ہے جس میں... مہکتے ہوئے پھول... اپنی قبائوں میں... تاروں کی رنگین روشن نگاہوں سے قوسیں بناتے ہیں... رنگوں کی پریاں بلاتے ہیں... وادی کے دامن سے اٹھتے ہوئے... ان سنہری پہاڑوں کی یہ دودھیا چوٹیاں... سات رنگوں کے ساتوں کناروں کو جوڑے ہوئے ہیں... یہیں وقت کی ساری اُلجھی کہانی سلجھتی ہے... قسمت کے سارے اُلٹتے نشاں بھید پاتے ہیں... دنیا کا ہر ایک جھگڑا نمٹتا ہے... ہم دونوں ہنستے ہیں... روتے ہیں اور گنگناتے ہیں... غالبؔ کو پڑھتے ہیں... مذہب‘ سیاست‘ روایت سے پہروں اُلجھتے ہیں... اس سامراجی نظام ِمعیشت میں جلتی ہوئی... زندگی پر سُلگتے ہیں... سب کچھ بدل دینے کے خواب تکتے ہیں... ہاتھوں سے تکیوں پہ‘ نظموں کے‘ لفظوں کے... انبار دھرتے ہیں... غزلوں سے پیکر بناتے ہیں... آنکھوں سے ہونٹوں تلک اور ہونٹوں سے ہاتھوں تلک آتے جاتے ہیں... باتیں بناتے ہیں... لڑتے ہیں... ملنے کی تدبیر کرتے ہیں... تھک کر کہانی کو پہلو میں رکھ کر وہیں لیٹ جاتے ہیں... وادی کے دل میں‘ جہاں... کہکشائوں سے دامن چھڑا کر ستارے...لپکتی ہوئی‘ ٹوٹ کر پھر سے جُڑتی ہوئی... روشنی کی لکیروں سے اُلٹے لٹک کر... ہماری کہانی کی وسعت میں‘ گھیرائو میں جھومتے ہیں... ہمیں زندہ رہنے کا رستہ بتاتے ہیں... اور ڈوب جاتے ہیں!
کہانی نہیں تھی
ہر اک رات سے آخری اور پہلے پڑائو میں تیری سنائی ہوئی ہر کہانی پڑی ہے... کہانی سے سانسیں بندھی ہیں... کہانی میں جنگل‘ سمندر‘ پہاڑ اور صحرا بھرے ہیں... کسی دوسری آنکھ میں تیرے لفظوں کے بوجھل بہائو کے دھندلے کنارے جڑے ہیں... یہی دھنداک رات کو دوسری رات سے... اور راتوں کو آنکھوں سے... آنکھوں کو سانسوں سے... سانسیں کہانی کو جوڑے ہوئے تھیں... کہانی میں کتنے الائو جلے... اور تجھے کتنی روشن جبینوں کا نقشہ بنانا پڑا... اب کہاں یاد تجھ کو... ترے سامنے سے بھلا کتنے منظر سرکتے گئے... اور کتنے رُکے...یہ مجھے کب خبر تھی... تجھے تو کہانی بنانی تھی... جس میں بہادر نڈر شاہزادے...سفر سے سرافراز لوٹیں... تو ان میں سے ہر ایک کو شاہزادی ملے... سلطنت اور ہیرے جواہر ملیں... مگر تو یہ بھولی ہوئی تھی... کہانی کا حصہ تو تھی... پر کہانی کی رانی نہیں تھی... کہیں شہرزاد! اس جہاں میں کسی نے کہانی تری یوں سنائی نہیں تھی...!
(عنبرین صلاح الدین)
دریدہ ایسے ہوئے عمر بھر سلے نہیں ہم
یہ کیا ہوا کہ تجھے مل کے بھی ملے نہیں ہم
گلاب تھے کسی صحرا مزاج موسم کے
تمہارے خواب کے اطراف میں کھلے نہیں ہم
یہ کیا ہوا تجھے‘ تو تو پہاڑ جیسا تھا
ہمیں بھی دیکھ جڑوں سے ذرا ہلے نہیں ہم
ملے ہیں ورثے میں کچھ خواب کچھ جلے خیمے
کسی محل کی روایت کے سلسلے نہیں ہم
زمیں کی تہہ میں کہیں دور دفن ہوگئے تھے
تمہارے عہد خرابات میں ملے نہیں ہم
٭
شبِ وصل بھی گئے رتجگوں کے حساب رہ میں کھڑے رہے
مرے خواب نیند کی سرحدوں پہ شکستہ حال پڑے رہے
میں تھا ایک غم کے بہائو میں‘ تھا کنارِ عمر کٹائو میں
مرے سب عزیز اسی لیے ذرا مجھ سے دور کھڑے رہے
وہ عجیب خوف کی رات تھی‘ وہ عجیب رات کی گھات تھی
کہ چراغ حجرۂ خواب میں سبھی سانس روکے پڑے رہے
میں زمیں کی رہ سے پھسل کے پل میں فلک سے آگے نکل گیا
جو کھلے تھے پھول کھلے رہے‘ جو جڑے تھے تارے جڑے رہے
میں پکارتا رہا اس کنارے پہ کوئی شہر ابد نہیں
مرے رفتگاں مگر اک جنون میں اپنی ضد پہ اڑے رہے
(سجاد بلوچ)
آج کا مقطع
بین جب سے بجا رہا ہوں ظفرؔ
میرے چاروں طرف ہے کیا کیا بھینس