تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     28-10-2015

ساٹھ سیکنڈز

کیا اگلی مرتبہ ہمیں زلزلے کی تصویریں اور ویڈیو بنانے اور شیئر کرنے کا موقع ملے گا‘ یہ سوال کل سے زیرگردش ہے۔ 
اگر خدانخواستہ آئندہ زلزلہ اس سے بڑا ہوا‘ اگر اس کا مرکز افغانستان کی بجائے پاکستان کی سرزمین ہوئی‘ اگر اس کی گہرائی ایک سو ستر کلومیٹر کی بجائے ایک کلومیٹر ہوئی‘ اگر یہ 8.1کی بجائے 9.1ریکٹر سکیل کا زلزلہ ہوا‘ اگر یہ دن کی روشنی کی بجائے رات کے اندھیرے میں آیا‘ تو کیا ہو گا؟ یہ بھی سوچیں کہ یکایک ہم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر باہر کیوں بھاگے تھے؟ ہمارے گھر‘ بلندوبالا عمارتیں جھولے کی طرح جھول رہی تھیں تو ہر کسی کے منہ پر بے اختیار کلمہ طیبہ کیسے آ گیا؟ کیسا وقت تھا وہ‘ جب گھر چھوڑتے وقت کسی کو قیمتی سامان بھی یاد نہ آیا ‘ وہ موبائل فون جس سے سارا سارا دن ہم کھیلتے ہیں‘ وہ ہیرے جواہرات جو ہم نے گھر کی تجوریوں میں بند کر رکھے ہیں‘ ہمیں وہ ساتھ لانے کا وقت کیوں نہ ملا؟ دیوار پر لگی وہ ایل سی ڈیز جن پر ہم ہائی ڈیفینیشن ویڈیوز لا لا کر دیکھتے ہیں‘ کل وہ کاغذ کی طرح زمین پر کیوں آ گریں؟ کل ہمیں سوائے اپنی جان کے‘ کسی اور چیز کی پروا کیوںنہ تھی اور یہ جان آخر ہم کب تک بچا پائیں گے؟ 
دس برس قبل کے زلزلے کی بات ہے۔ ایک خاندان زلزلے سے بچنے کے لئے گھر سے باہر نکل آیا‘ سب لوگ سڑک کی ایک جانب دیوار کے ساتھ بیٹھ گئے۔ زلزلے سے گھر تو نہ گرا لیکن کھلے میدان میں جس دیوار کے سائے میں وہ بیٹھے تھے‘ وہ دیوار اُن پر آن گری۔ کل بھی وہی منظر تھا۔لوگ بلندو بالا عمارتوں‘ گھروں اور 
دکانوں سے کیڑے مکوڑوں کی طرح باہر نکل رہے تھے۔ کسی نے کیا خوب کہا: جس تیزی سے آج یہ گھروں سے باہر آ رہے ہیں‘ اگر اذان کی آواز سن کر مسجدوں کی طرف بھاگیں تو شاید یہ زلزلے آئیں ہی نہ۔ بعض اتنا ڈر گئے کہ انہیں گھر کے اندر واپس جانے سے خوف آتا رہا۔ زلزلہ تو زمین کٹنے اور پھٹنے کا نام ہے تو کھلی جگہ ہو یا عمارت‘ خطرہ تو سب جگہ ہے۔ ایک خاتون کتنی دیر باہر اپنے ایک بچے کو تلاش کرتی رہی۔ اس کے دو بچے تھے۔ایک اس کے ساتھ باہر آ گیا تھا لیکن چھوٹا سویا ہوا تھا۔ زلزلے اور موت کا خوف اتنا تھا کہ ماں اپنے نونہال کو ساتھ لانا بھول گئی تھی۔ایک قیامت یہ تھی۔ ایک قیامت وہ ہے جس روز یہی ماں اپنے بیٹے کو اور یہی بیٹا اپنی ماں کو نہیں پہچانے گا۔ کوئی کسی سے اپنی نیکی شیئر نہیں کرے گا ۔یہ دنیا کا جاہ و جلال‘ سب کچھ ساٹھ سیکنڈ کے زلزلے کے سامنے انتہائی حقیر دکھائی دیا۔ ایسے میں کچھ لوگ زلزلے کا مقابلہ کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ کہاں تک؟ بتاتے ہیں فلاں ملک میں عمارتیں ایسی بنائی جا رہی ہیں کہ جھولتی رہتی ہیں‘ گرتی نہیں۔ ایسی عمارتیں ضرور بنانی چاہئیں لیکن ان سے کوئی پوچھے کہ بھائی وہ بھی تو ایک خاص ریکٹر سکیل کے زلزلے تک کھڑی رہ سکتی ہیں‘ اگر اس سے بھی بڑا جھٹکا لگ گیا تو؟ کیا پورا ملک اور پوری دنیا اُدھیڑ کر دوبارہ بنائیں گے؟ اس بات کی کیا 
گارنٹی ہے کہ ہمیں یہ سب کرنے کی مہلت ملے گی؟ دوبارہ بناتے بناتے اگر زور کا جھٹکا لگ گیا تو بنانے والے بھی گئے اور رہنے والے بھی۔ تو پھر کیا کرنا چاہیے۔ کیا ہم سابق زلزلوں کی طرح اسے بھی بھول جائیں۔ ہم اسے زمین کی پلیٹوں کی گردش کا نام دے کر دل کو تسلی دے لیں؟ زلزلے کی وجوہ بتانے والے ''ماہرین‘‘ ہمیں یہ کیوں نہیں بتاتے کہ یہ پلیٹیں کس کے حکم سے سرکتی ہیں۔ ہم پلیٹوں کے سرکنے کو تو نہیں روک سکتے لیکن انہیں سرکانے والے سے تورجوع کرسکتے ہیں۔ ہم برسوں سے زلزلے دیکھتے آ رہے ہیں لیکن ہمیں معلوم ہی نہیں کہ خدا ہم سے چاہتا کیا ہے۔ ہم اس دنیا میں کیوں آئے تھے‘کیا کرنے لگے اور ہمیں کہاں جانا ہے۔ آخر وہ کون سا گناہ ہے جو زمین پر ہونا باقی رہ گیا ہے۔ جب عذاب آتا ہے تو وہ بھی نہیں بخشے جاتے جو خود تو عبادتوں اور سجدوں میں پڑے رہتے ہیں لیکن دوسروں کو اس کی ترغیب نہیں دیتے۔ جب زمین پھٹ جائے گی اور اپنا بوجھ اُگل دے گی تو سب کا کیا دھرا سامنے آ جائے گا۔ کیا ہم اتنے بھولے ہیں کہ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ ہمارے دائیں بائیں‘ آگے پیچھے کیا ہو رہا ہے۔ ہم اور ہماری اولادیں کس ڈگر پر چل رہی ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ کہیں ہم خدا کو ناراض کرنے کا سب سے بڑا گناہ تو نہیں کر رہے۔ جب اللہ خود فرماتا ہے کہ میں سب گناہ معاف کر دوں گا سوائے شرک کے تو پھر ہم کیا کر رہے ہیں۔ کل وہی لوگ جو مزاروں میں مدفون بزرگوں سے مدد مانگتے‘ انہیں مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے تھے‘ وہ بھی ان سے مدد مانگنے کی بجائے اللہ اللہ کرتے باہر کو بھاگ رہے تھے۔ 
یہ ساٹھ سیکنڈ ہمیں صرف یہ بتانے نہیں آئے کہ اپنی دیواریں مضبوط کر لو‘ بلکہ یہ بتانے آئے کہ اپنے ایمان‘ اپنے عقیدے اور دین کے ساتھ اپنے تعلق کو بھی مضبوط کر لو۔ یہ سمجھانے آئے کہ تم نے ایک دن مرنا بھی ہے۔ زلزلے سے بچ جائو گے تو ہارٹ اٹیک‘ ڈینگی‘ ایکسیڈنٹ یا کسی اور حادثے کا شکار ہو جائو گے۔ کچھ نہ بھی ہوا تو ساٹھ‘ ستر یا اسی برس جی لو گے اور اس کے بعد؟ یہ ساٹھ سیکنڈ صرف یہ سمجھانے آئے کہ جہاں تم نے ہمیشہ رہنا ہے ذرا دیکھو کہ وہاں کے لئے تم نے کیا تیاری کر رکھی ہے۔ نجانے اگلا زلزلہ ‘ اگلا امتحان کتنا بڑا ہو‘ اس سے پہلے ہی کیوںنہ دیکھ لیں کہ کیا ہم اس امتحان میں کامیاب ہو جائیں گے جس کی تیاری کے لئے دنیا میں آئے تھے۔ ہم دیکھیں کہ اگر ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرتے ہیں‘ اگر اللہ کو بھی مشکل کشا سمجھتے ہیں اور کسی اور سے بھی مدد مانگتے ہیں توایسا کرنا چھوڑ دیں کہ یہ گناہ قابل معافی نہیں‘ اگر ہم حقوق اللہ ادا کرنے میں غفلت سے کام لے رہے ہیں تو اسے ترک کر دیں‘ اگر زکوٰۃ نہیں دیتے تو دینا شروع کر دیں‘ حج کی استطاعت رکھتے ہیں اور نہیں کیا تو ارادہ کر لیں‘ اگر روزے بقایا ہیں تو رکھنا شروع کر دیں‘ اگر کسی کے لئے دل میں بغض ‘حسد اور کینہ رکھتے ہیں تو اسے ختم کر دیں‘ اگر کسی کا حق مارا ہے تو اسے اس کا حق لوٹا دیں‘ اگر کسی یتیم‘ کسی بیوہ کی وراثت پہ ڈاکہ ڈالا ہے تو اسے اس کی وراثت لوٹا دیں‘ اگر جھوٹ بولتے ہیں‘ ریاکاری کرتے ہیں‘ مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے‘ یتیموں کو دھکے دیتے ہیں تو ایسا کرنا چھوڑ دیں کہ یہ زلزلہ‘ یہ آفات اور موت کے یہ جھٹکے ہمیں یہی یاد دلانے آتے ہیں۔ 
زلزلے کے یہ ساٹھ سیکنڈہمیں سمجھا گئے کہ اگر ہم یہ سب نہیں کرتے تو پھر ہم جتنے مرضی مضبوط قلعے بنا لیں‘ جدید بلڈنگ کوڈز پر جتنی چاہے عمارتیں کھڑی کر لیں‘ جب تک ہم اپنے ایمان کو مضبوط نہیں کریں گے‘ جب تک اسے اپنے دین خالص کے ستون سے سہارا نہیں دیں گے اور جب تک اس کی بنیادوں میں اخلاص ‘ رواداری اور تقویٰ کا کنکریٹ نہیں ڈالیں گے‘ تب تک ان مضبوط قلعوں اور جدید بلڈنگ کوڈز والی عمارتوںکا کوئی فائدہ نہیں ہو گا اور تب تک ہم ہر معمولی سرسراہٹ پر یونہی خوف کے مارے گھروں سے باہر بھاگتے رہیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved