تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     29-10-2015

مجبورِ محض

''انسان کے کندھوں پربہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے‘‘ میں نے کہا ۔ بے ساختہ وہ ہنس پڑا ۔ ایک زمانہ تھا کہ مشرق و مغرب کی سائنسی برادری میں اس کا طوطی بولتا تھالیکن اب عمر بڑھنے کے ساتھ وہ خبطی سا ہوتا جا رہا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے استہزائی تاثرات نظر انداز کرتے ہوئے ، میں بولتا رہا۔ ''جنوبی برّاعظم انٹارکٹکا میں برف کے پہاڑ پگھل رہے ہیں ۔ دراڑیں اس نوعیت کی ہیں کہ جلد یا بدیر انہیں زمیں بوس ہو کر رہنا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی سمندروں کی سطح بارہ سے سولہ فٹ بلند ہوگی ۔ ‘‘
''اس کے بعد کیا ہوگا؟ ‘‘اس نے مزے لے لے کر پوچھا۔ میں افسوس بھری نظروں سے اسے دیکھتا رہا۔ پھر یہ کہا''جزائر اور ساحلی شہر ڈوب جائیں گے۔ یہ بات بہت خطرناک ہے کہ انڈونیشیا اور فلپائن جیسے بہت سے ممالک جزائر ہی پر آباد ہیں۔ دنیا بھر کی آب و ہوا بدلتی جار ہی ہے ۔ موسمی تغیرات اب شدید سے شدید تر ہیں اور اس کا سبب اس کرّہ ٔخاک پہ انسانی سرگرمی ہے ۔ گھروں ، کارخانوں اور گاڑیوں میں آدمی کوئلہ، تیل اور گیس جلا رہا ہے ۔ جنگلات ناپید ہیں ۔ درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے ۔قدرت کی طرف سے زمین کی فضا میں گیسوں کا غلاف بڑے توازن سے پیدا کیا گیا تھا۔ اب ان گیسوں کا تناسب بگڑ رہا ہے ۔ ‘‘
''اچھا؟‘‘ اس نے بڑے تعجب سے کہا''یہ کب سے ہو رہا ہے؟‘‘ ''تمہیں یہ سب پہلے سے معلوم ہے پروفیسر‘‘ میں نے دانت پیس کر کہا ''چالیس برس تک اسی پر تم تحقیق کرتے رہے ہو۔ اگلے ماہ دنیا بھرکی سائنسی برادری سان فرانسسکو میں جمع ہو رہی ہے ۔ سات ارب انسانوں میں اور کوئی نہیں ، اس موضوع پر جوایسا عبور رکھتا ہو ۔ تمہیں رہنمائی کرنا ہوگی ۔ ‘‘
'' ہمیں ماضی میں جانا ہوگا ۔ دیکھناہوگا کہ آدمی وہ میں تبدیلی کب آئی ، جب کرّۂ ارض کو متاثر کرنے والی سرگرمیوں کا اس نے آغا زکیا ــ‘‘ پہلی بار اس نے سنجیدگی سے کہا ۔ کچھ دیر وہ سوچتا رہا اور پھر یہ کہا''پتھر کے قدیم ترین اوزار افریقی ملک ایتھوپیا سے ملے ہیں ، 26لاکھ سال قدیم۔ یہ دوسرے جانوروں پہ انسانی برتری کا آغاز تھا۔ اٹھارہ لاکھ سال پہلے آدمی نے آگ دریافت کی ۔ اس نے کھانا پکانا شروع کیا۔ یہی آگ اب گھروں ،کارخانوں اور گاڑی کے انجن میں دہکتی اور توانائی کی ضروریات پوری کرتی ہے ۔ رفتہ رفتہ بنیادی ضروریات سے آدمی اوپر اٹھا ۔ ایک لاکھ سال پہلے اس میں اخلاقی برتری کی جھلک نظر آتی ہے ،جب فلسطین میں اپنے مردے وہ دفنانے لگتاہے ۔‘‘ 
میں خاموشی سے اسے سنتا رہا۔ اب وہ گہرائی میں مسئلے کا جائزہ لے رہا تھا ۔ اپنے خبطی پن سے وہ باہر نکل آیا تھااور مجھے یقین تھا کہ اب بہرحال ایک حل وہ تجویز کرے گا۔ ''36ہزار سال قبل قدیم ترین انسانی لباس کا سراغ ملا ہے ۔ مردے دفنانا ، لباس پہننا، اس سب سے کیا ظاہرہوتاہے ؟ ‘‘اس نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا اور پھر خود ہی جواب دیا'' مذہب نازل ہو چکا تھا۔ اس کے بعد آدمی تیزی سے آگے بڑھتا رہا۔ 28ہزار سال پہلے اس نے رسّی بنا نا سیکھی ۔ یہ بھی ایک قسم کا اوزار ہے ۔ 16ہزار سال پہلے چین میں برتن استعمال ہو رہے تھے ۔ بارہ ہزار سال پہلے میسو پوٹیمیا(موجودہ عراق) میں زراعت کا آغاز ہوا۔ دس ہزا رسال پہلے ہمیں مٹی کی اینٹیں ملتی ہیں ۔ 
یہی وہ زمانہ ہے ، جب لبنان، شام اور دجلہ و فرات کے درمیانی علاقے میں بڑے شہر بسنے لگتے ہیں۔پانچ ہزار قبلِ مسیح میں آدمی تحریر لکھنے لگتاہے ۔ وہ چپو بناتا اور سمندری تسخیر کا آغاز کرتاہے ۔3500قبلِ مسیح میں آگ کے بعد کرّ ہ ٔارض پہ دوسری بڑی انسانی ایجاد، پہیہ منظرِ عام پر آتی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ہم نے تانبے کی صورت میں ایک مفید دھات دریافت کی ۔ اسے استعمال کرنا سیکھا۔ ‘‘
میری نظر میں یہ ساری تفصیل غیر ضروری تھی ۔ میں اسے ٹوکنا بھی نہیں چاہتا تھا، مبادا وہ کسی اور ذہنی رو میں بہک جائے ؛لہٰذا چپ چاپ میں سنتا رہا۔ ''1500قبلِ مسیح میں چین اور لبنان میں سکّے رائج ہوئے۔یوں کاروبار اور تجارت نے ایک نئی شکل اختیار کی ۔ 1200قبلِ مسیح میں مصر میں تلوار ایجاد ہوئی تو انسانی عسکری تاریخ ایک موڑ مڑ گئی ۔ 750قبلِ مسیح میں لینز ایجاد ہوا تو کائنات میں انسانی تحقیق کا ایک نیاباب شروع ہوا۔ 600قبلِ مسیح میں ہمیں بحری جنگی جہازملتے ہیں ۔ جہاں تک توانائی کا تعلق ہے ، 650قبلِ مسیح میں ہوائی چکی ایجاد ہو چکی تھی ۔ انسان توانائی کی ایک شکل کو دوسری ، مفید صورت میں بدلنے لگا تھا۔ پانچ سو قبلِ مسیح میں چینی لوہے سے عمدہ اوزار تیار کر رہے تھے ۔ دوسو قبلِ مسیح میں کاغذ ایجاد ہوا ۔ یوں تحریری شکل میں علمی کاوشیں پھلنے پھولنے لگی۔ بنی نوع انسان اب زیادہ تیزی سے سیکھنے سکھانے لگا۔ یہ چوتھی صدی عیسوی تھی ، پہلی بار جب ہم نے تیل کے کنویں کھودے ۔ نویں صدی میں بارود ایجاد ہواتو انسانی جنگی تاریخ میں یہ ایک او ر فیصلہ کن موڑ تھا۔ اسی طرح تیرھویں صدی میں راکٹ ایک اور بڑی ایجاد تھی ۔ پندرھویں صدی میں پرنٹنگ پریس شاید وہ سب سے بڑی ایجاد تھی ، جس نے دنیا کے مختلف حصوں میں آدمی کو اپنی تحقیق دوسروں تک پہنچانے میں مدد دی ۔ اسی طرح سترھویں صدی میں گیلی لیو گیلی لی نے دور بین ایجاد کی تو کائنات میں انسانی تحقیق میں یہ ایک بڑا فیصلہ کن قدم تھا۔ اٹھارویں صدی میں فریج ایجاد ہوا۔ آدمی خوراک ذخیرہ کرنے لگا۔ اسی وقت بھاپ سے چلنے والا پہلا انجن بنا۔ آدمی تیزی سے سفر کرنے لگا۔ عالمی سیاست اور جنگی صلاحیت میں یہ ایک بڑی پیش رفت تھی ۔ اسی دوران ٹیلی گراف ایجاد ہو ا تو ڈیٹا برق رفتاری سے ایک سے دوسری جگہ منتقل ہونے لگا، آج انٹرنیٹ کی شکل میں ہم جس کی سب سے تیز ترین شکل دیکھتے ہیں ۔ انیسویں صدی کے آغاز میں بیٹری ایجاد ہوئی تو ہم توانائی ذخیرہ کرنے لگے۔ تبھی جدید انجن ایجاد ہوا ، آج جس میں تیل اور گیس جلتے اور کرّۂ ارض کا درجہ ء حرارت بڑھا رہے ہیں ۔ ‘‘
''پروفیسر‘‘ میں نے بے چارگی سے کہا''کرّۂ ارض کا درجہ ء حرارت بڑھ رہا ہے ۔ انسان کو کیا کرنا چاہیے؟ ‘‘۔ ''درجہ ء حرارت بڑھتا گھٹتا رہا ہے ‘‘اس نے خود کلامی کے انداز میں کہا ''آتش فشاں پھٹتے رہے ہیں ۔ برفانی دور گزرے ہیں ۔ آسمان سے دم دار ستارے گرتے رہے ہیں ۔ پانچ بڑے ہلاکت خیز دور 
(Mass Extinctions)گزرے ہیں ، جب کرّ ہ ء ارض پہ زیادہ تر جاندار نسلیں ہمیشہ کے لیے مٹ گئیں ۔ بمشکل تمام زندگی ختم ہوتے ہوتے بچی۔ یہ وہ ادوار تھے ، آدمی جب گھٹنوں چلتا تھا۔ انسان نے توچند لاکھ سال پہلے ہوش سنبھالا ہے میرے بچّے ‘‘اس نے مسکرا کر کہا ''کرّ ہ ارض اپنی کوکھ میں ساڑھے تین ارب سال سے زندگی پال رہی ہے ۔ یہ بڑی ذمہ داری کا احساس ایک مصنوعی تفاخر ہے۔‘‘ 
''انسان مجبورِ محض ہے ۔‘‘اس نے بڑی شان سے کہا '' اس کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ۔ ـ‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved