اکبر حسین نے زیادتی کی۔ وہ قومی رضاکار تھا مگر اس نے پولیس کی وردی پہنی‘ عورت ذات پر ہاتھ اُٹھایا‘ سرعام تذلیل کی اور اپنی حدود سے تجاوز کیا مگر قصور ریحانہ بی بی کا بھی ہے‘ جس نے عادت کے مطابق یا حالات سے تنگ آ کر واردات کی‘ بالکل بھول گئی کہ یہ پاکستان ہے اور یہاں چھوٹے موٹے چور کے ساتھ صرف پولیس‘ قانون اور عدالتیں ہی نہیں عام شہری‘ نجی سکیورٹی گارڈ حتیٰ کہ قومی رضاکار بھی سختی سے پیش آتے ہیں۔ سرعام زدوکوب کرنے سے جھجھکتے ہیں‘ نہ توہین و تذلیل سے باز آتے ہیں۔
خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ خاتون کو چوری کی عادت کیوں پڑی‘ پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ عادی چور ہے اور اس کے خلاف دو مقدمات پہلے سے درج ہیں۔ یقیناً ایسا ہی ہو گا۔ اس معاشرے میں جہاں چوری ڈکیتی اور دیگر جرائم پر طاقتوروں کی اجارہ داری ہے اور ان کا یہ پیدائشی حق تسلیم کر لیا گیا ہے کہ وہ کسی کمزور کے زرعی و رہائشی رقبے پر قبضہ کر لیں‘ کسی یتیم یا بیوہ کا مکان اور دکان جعلسازی سے ہتھیا لیں‘ بینک لوٹ لیں یا قومی خزانے پر ہاتھ صاف کریں وہاں کسی غریب‘ کمزور اور نادار عورت کو یہ جرأت کیسے ہوئی کہ وہ چوری کا پیشہ اختیار کرے اور دو مقدمات درج ہونے کے بعد تھانے میں گرفتاری دینے کے بجائے وارداتیں کرتی پھرے۔
غربت و افلاس‘ بھوک اور مجبوری کسی کو چوری کا جواز فراہم کرتی ہے نہ عورت ہونے کی بنا پر کسی کو جرم کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ یہ اسلامی تعلیمات کی نفی اور شرف انسانیت کی توہین ہے۔ اس معاشرے میں ہزاروں نہیں لاکھوں غریب‘ نادار بلکہ معذور مرد و خواتین نامساعد حالات میں محنت مشقت کرتے اور اپنے بچوں کو رزق حلال کھلاتے ہیں۔ ریلوے سٹیشن‘ بس اڈوں اور مارکیٹوں میں خمیدہ کمر بوڑھے ریڑھیاں گھسیٹتے‘ بھاری بوجھ اٹھاتے اور دوسروں کی جھڑکیاں سہتے نظر آتے ہیں۔ کسی کے آگے ہاتھ پھیلاتے نہ چوری چکاری کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ یہ اُن کی خوددارطبیعت گوارا نہیں کرتی۔
مگر معاشرے کے رول ماڈل یہ غیرت مند اور خوددار بوڑھے نہیں‘ گھروں میں برتن مانجھ کر دو وقت کی روکھی سوکھی کا بندوبست کرنے والی خواتین بھی نہیں بلکہ وہ چور اُچکے ہیں جو پارلیمنٹ کے رکن اور وزیر‘ مشیر بن جائیں تو لوٹ مار کے ریکارڈ قائم کرتے ہیں‘ بیوروکریسی میں ہوں تو قومی خزانے کو شیر مادر سمجھتے ہیں اور صنعت و تجارت کے شعبے میں آکر لوگوں کی کمائی اور قومی وسائل پر ڈھٹائی سے ڈاکہ مارتے ہیں‘ کبھی شرماتے نہیں۔ یہ جو موجودہ اور سابق حکومتوں کے مالی سکینڈل روزانہ منظر عام پر آ رہے ہیں۔ ایک ایک واردات میں پانچ دس ارب روپے پر ہاتھ صاف کیا گیا ہے کسی بھوکے‘ ضرورت مند اور حالات سے مجبور شخص یا گروہ کی کارستانی نہیں‘ تونگر عادی چوروں‘ ڈکیتوں اور حرام خوروں کے کارنامے ہیں جو جرم ضرورت کے تحت نہیں‘ فیشن کے طور پر کرتے ہیں۔ معلوم نہیں ریحانہ بی بی کا رول ماڈل کون ہے؟ کوئی خاتون رکن اسمبلی‘ مرد وزیر یا بینکوں کے اربوں روپے ہڑپ کرنے والا کوئی تاجر‘ صنعت کار اور جاگیردار و زمیندار۔
ریحانہ بی بی نے جو کیا‘ ہرگز قابل ستائش نہیں۔ جرم جرم ہے کوئی غریب کرے یا امیر‘ دونوں مستوجب سزا ہیں۔ اس بے چاری کا اصل قصور یہ نہیں کہ اُسے محنت مزدوری کرنے کے بجائے لوگوں کے پرس‘ موبائل اور دکانوں سے شیمپو‘ واشنگ پائوڈر‘ لپ سٹک چرانے کی عادت ہے بلکہ اس کا ضرورت مند‘ کمزور اور بے وسیلہ ہونا سنگین جرم ہے۔ کمزور اس قدر کہ قومی رضاکار نے بھی اس کی پٹائی کر ڈالی‘ وہ ہاتھ نہ روک پائی۔ چوری اگر جرم ہے تو پھر جن لوگوں نے اب تک سرکاری اختیار‘ دھونس دھاندلی اور اثر و رسوخ کے زور پر ریلوے‘ سٹیل ملز‘ سرکاری بینکوں‘ این آئی سی ایل اور دیگر اداروں کو کنگال کیا۔ میگا پروجیکٹس سے اربوں روپے جیب میں ڈالے اور بیت المال کو بخشا نہ زکوٰۃ فنڈ میں گھپلوں سے باز آئے‘ سیلاب زدگان اور زلزلہ متاثرین کے لیے آنے والے امدادی ساز و سامان میں خُرد برد سے بھی باز نہیں آئے۔ ان سے کوئی باز پرس کیوں نہیں کرتا اور اصغر خان کیس کے مطابق جن لوگوں نے پورا الیکشن چرایا‘ مہران بینک ڈبو دیا اور قومی اداروں کی لوٹ سیل لگائی‘ انہیں کوئی کیوں نہیں پوچھتا؟
حالت یہ ہے کہ صولت مرزا نے ایک اعترافی بیان دیا تو اس کی گونج پورے ملک بلکہ پوری دنیا میں سنائی دی۔‘ ایم کیو ایم کے کئی کارکن گرفتار ہو گئے مگر ایسا ہی بیان نوید کمانڈو نے دیا تو انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب فرماتے ہیں کہ ایک سزا یافتہ شخص کے بیان کی کوئی اہمیت نہیں۔ کیا چودھری شیر علی کے بیان کی بھی نہیں؟ سوال یہ نہیں کہ نوید کمانڈو نے سچ بولا یا جھوٹ؟
ایک صوبائی وزیر رانا ثناء اللہ محض اس بنا پر گردن زدنی نہیں کہ نوید کمانڈو نے سزا ملنے کے بعد اپنے جرائم کا بوجھ اس کے سر ڈالنے کی سعی کی‘ عام خیال یہی ہے کہ اگر رانا ثناء اللہ واقعی جرائم پیشہ افراد کے سرپرست ہوتے اور قاتلوں کے سرغنہ تو میاں شہباز شریف انہیں وزارت سے دور رکھتے‘ مگر صولت مرزا کے بیان سے ملتا جلتا بیان آنے کے بعد کیا حکومت اور پولیس کی کوئی قانونی و اخلاقی ذمہ داری بھی ہے یا نہیں؟ کیا آئی جی کو اس قدر جلد کلین چٹ دینے کی ضرورت تھی؟ جبکہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے بھی شامل تفتیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
جو بات ریحانہ بی بی کو سمجھ نہیں آئی اور اکبر حسین کو بھی نہیں‘ وہ یہ ہے کہ اس ملک میں معمولی چوری‘ راہزنی اور ہیرپھیر جرم ہے۔ بینک سے دس بیس ہزار روپے کے فراڈ یا نادہندگی پر آدمی پکڑا جاتا ہے مگر کوئی رکن اسمبلی کسی معزز سکول ٹیچر کی سرعام پٹائی کر دے‘ جیسی شاہجہاں منگیریو نے کی‘ کسی میگا پروجیکٹ سے اربوں روپے خُرد برد کر لیے جائیں‘ سعودی عرب کے حکمران شاہ سعود بن عبدالعزیز کی طرف سے دیئے گئے اربوں روپے مالیت کے نادر و نایاب تحائف کوڑیوں کے بھائو بیچ دیئے جائیں اور برطانیہ و امریکہ میں موجود سرکاری اثاثے بیچنے کے لیے بے تابی دیکھنے کے قابل ہو تو یہ کوئی جرم نہیں بلکہ روزمرہ کا معمول ہے اور جمہوریت کا حسن۔
اگر یہی واردات طاقتور اور بارسوخ خاندان کی خاتون یا لاڈلے نے کی ہوتی تو کسی سکیورٹی گارڈ‘ قومی رضاکار یا پولیس اہلکار تو درکنار پولیس افسر کی یہ مجال نہ تھی کہ وہ پوچھ بھی سکتا۔ دو دن قبل سابق وفاقی وزیر کا صاحبزادہ عدم ثبوت کی بنا پر جس طرح قتل کے مقدمے میں عدالت سے بری ہوا‘ وہ یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ یہاں غریب اور امیر‘ کمزور اور طاقتور اور باوسیلہ و بے وسیلہ کے لیے الگ الگ قوانین ہیں‘ جدا جدا ضابطے اور یہاں قانون کے سامنے وہ جوابدہ ہے جو قانون کو اپنے پائوں تلے روندنے کی سکت نہیں رکھتا‘ سینکڑوں اور ہزاروں کی چوری جرم ہے‘ بڑی چوری فیشن ہے لہٰذا ناقابل معافی۔ صرف ناقابل معافی ہی نہیں‘ قابل فخر۔ ریحانہ بی بی کو یہ بات سمجھ آ جاتی تو وہ قومی رضاکار اکبر حسین سے تھپڑ نہ کھاتی بلکہ اسے پورے عزت و احترام سے پولیس گھر چھوڑ آتی اور اکبر حسین بھی اگر معمولی قومی رضاکار ہوتا تو تھانے یا جیل کا مُنہ نہ دیکھتا ع
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
لوگ ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں کہ معاشرے میں بگاڑ‘ فساد اور ہیجان کیوں بڑھ رہا ہے؟ جہاں جیلوں اور ٹکٹکیوں کے مستحق اعلیٰ ایوانوں میں براجمان اور شریف لوگ عزت‘ جان اور مال بچاتے پھرتے ہوں‘ وہاں اس کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے ع
حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں