ابھی ابھی انکشافات سے بھرپور کچھ نئی سرکاری دستاویزات ہاتھ لگی ہیں۔
باقی چھوڑ دیں صرف رحمن ملک کے کارناموں کی اتنی طویل فہرست ان دستاویزات میں موجود ہے‘ بندہ حیران ہوجاتا ہے ۔ اب تو حیران ہونا بھی چھوڑ دیا ہے۔ صحافی کو ویسے بھی قصائی کی طرح بے رحم ہونا چاہیے۔ اگر وہ رونا دھونا شروع کر دے گا تو پھر اپنا کام خاک کرے گا۔ لیکن ہم بھی گوشت پوست کے بنے انسان ہیں۔ اثر تو ہوتا ہے۔
1956ء میں سعودی ولی عہد نے پاکستان کے آخری گورنر جنرل سکندر مرزا کو دو قیمتی نوادرات‘ ایک خنجر اور ایک تلوار‘ تحفے میں دیے۔ تقریباً ساٹھ برس یہ تحائف توشہ خانے میں موجودرہے۔ سکندر مرزا، جنرل ایوب، جنرل یحییٰ ، بھٹو، جنرل ضیاء، جونیجو، مصطفیٰ جتوئی، بلخ شیر مزاری، فاروق لغاری، غلام اسحاق خان، بینظیر بھٹو، جنرل مشرف، شوکت عزیز، جمالی، شجاعت حسین، زرداری، یوسف رضاگیلانی، راجہ پرویز اشرف تک کسی کی نظر ان نودارت پر نہ پڑی۔ اچانک نواز شریف کے تیسرے دور میں حکومت کو خیال آیا کہ اتنا قیمتی مال یہاں کیا کر رہا ہے۔ کسی نے کہا‘ میوزیم میں رکھ دیتے ہیں۔ فرمایا گیا‘ نہیں اسے بیچ دو۔ رولز کے تحت صرف سرکاری افسران ہی خرید سکتے ہیں ۔ ویسے بھی جس چیز کو نوادارت کا درجہ ملا ہوا ہو اسے نہیں بیچا جا سکتا‘ لیکن کابینہ ڈویژن نے 4 اپریل 2014ء کو خنجر بیس لاکھ روپے اور تلوار ایک کروڑ روپے میں نامعلوم سرکاری افسران کو بیچ دیے ۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون اتنے امیر سرکاری افسر ہیں جنہوں نے ایک کروڑ بیس لاکھ روپے کے یہ قیمتی نوادارت خریدلئے؟ ان کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئے ؟ اس کا ایک ہی جواب ہے کہ ان سرکاری افسروں کو فرنٹ مین کے طور پر استعمال کیا گیا‘ نوادارت کسی اور کو چاہئیں تھے۔ قیمت انہوں نے ادا کی اور لوٹ کر گھر لے گئے ۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ ہم نے ان بے کار نوادارت سے ایک کروڑ بیس لاکھ روپے کما لیے ہیں۔ اب ذرا دیکھتے ہیں یہ پیسے ہمارے کن کاموں پر خرچ ہوتے ہیں۔
رحمن ملک کے پرائیویٹ سیکرٹری جاوید اقبال راجہ کو نیشنل کرائسس مینجمنٹ سیل کے سربراہ بریگیڈئیر اقبال لودھی نے سیکرٹ فنڈ سے ایک کروڑ نقد دیئے۔ سیکرٹری داخلہ کے پرائیویٹ سیکرٹری کو بھی اسی فنڈ سے چونتیس لاکھ روپے کیش ادا کیا گیا۔ رحمن ملک نے دو برسوں میں دو کروڑ روپے بیرونی ملکوں کے دوروں پر خرچ کیے۔ انہوں نے اپنے ساتھ گیارہ سرکاری گاڑیاں رکھی ہوئی تھیں‘ جن کا پٹرول کا خرچہ دو برسوں میں باون لاکھ روپے تھا۔ جاوید اقبال راجہ نے دو گاڑیاں رکھی ہوئی تھیں جن میں تین لاکھ روپے کا پٹرول خرچ ہوا۔ نیشنل کرائسس مینجمنٹ سیل کے افسران کی گاڑیوں میں کل ایک کروڑ ساٹھ لاکھ روپے پٹرول پر خرچ ہوئے۔ اس دوران سیل کے انچارج نے خود سیکرٹ فنڈ سے ستائیس کروڑ روپے نکلوائے۔ باقی رقم کا جوحشر کیا گیا وہ اپنی جگہ کہانی ہے لیکن موصوف نے راولپنڈی کے ایک جیولر سے بارہ لاکھ روپے کے سونے کے زیوارت بھی اس سیکرٹ فنڈ سے خریدے۔اس دوران جاوید اقبال لودھی کا کنٹریکٹ ختم ہوا تو وزیراعظم گیلانی کی منظوری کے بغیر رحمن ملک نے اسے خود ہی توسیع دے دی کیونکہ وہ انہیں مال سپلائی کر رہے تھے۔ ان کی گاڑیوں، پٹرول، بیرون ملک کے دوروں اور دیگر اخراجات کے لیے رقوم سیکرٹ فنڈ سے ادا ہو رہی تھیں۔ اس دوران جب وہ سرکار کی نوکری نہیں کر رہے تھے بلکہ رحمن ملک کی کر رہے تھے کیونکہ ان کے کنٹریکٹ میں گیلانی صاحب نے توسیع نہیں کی تھی‘ بریگیڈیئر جاوید لودھی نے اٹھائیس کروڑ روپے کی رقومات نکلوائیں اور خرچ کیں۔اب کسی کو پتہ نہیں ہے کہ بارہ لاکھ روپے کے زیورات جو سیکرٹ فنڈ سے خریدے گئے‘ وہ کسے پیش کیے گئے۔ اس خوبصورت انسان کو یہ تحفہ عوام کی جیبوں سے کس مغل شہزادے نے پیش کیا۔ کیا کسی سے کوئی پوچھ گچھ ہوگی؟
دو سال کے اسی عرصے میں اسلام آباد کے ہوٹلوں کو اٹھاون لاکھ روپے کی ادائیگی کی گئی ۔ وزارت کے افسران اور اہلکار صرف دو سالوں میں اٹھاون لاکھ روپے کے کھانے کھا گئے اور یہ سب کچھ سیکرٹ فنڈ سے ہورہا تھا ۔ وزارت داخلہ کے استعمال کے لیے صرف اسلام آباد میں 94گاڑیاں لی گئیں۔ جب سرکاری گاڑیاں کم پڑ گئیں تو 23 گاڑیاں کرائے پر لے کر افسران کو دی گئیں اور ہر ماہ سیکرٹ فنڈ سے ان کا کرایہ ادا ہوتا رہا۔ ان کے پٹرول پر صرف دو برسوں میںچالیس لاکھ روپے کاخرچہ ہوا۔ ان سب اخراجات کی منظوری بریگیڈئیرجاوید لودھی دیتے رہے تھے حالانکہ ان کے پاس اپنی تعیناتی کا کوئی قانونی خط تک نہیں تھا لیکن وہ رحمن ملک کے زبانی احکامات پر کام کر رہے تھے۔
دوسری طرف جاوید اقبال راجہ کو ایک کروڑ دس لاکھ روپے کی ادائیگی کی گئی کہ انہوں نے کسی '' سورس‘‘ کو ادا کرنے ہیں۔ اب آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ راجہ صاحب کا سورس کون ہوسکتا ہے؟ جسے انہوں مبینہ طور پر سیکرٹ فنڈ سے ادائیگی کی۔ اب راجہ صاحب ہی ''سورس‘‘ بتا سکتے ہیں کہ وہ کون شہزادہ تھا جسے انہوں نے ایک کروڑ دس لاکھ روپے ادا کیے۔یہ ادائیگی ملک صاحب کے حکم پر کی گئی۔جب بھی پیسوں کی ضرورت پڑی سیکرٹ فنڈ سے رقم نکال کر جاوید اقبال راجہ کو دی گئی کہ رحمن ملک کا حکم ہے اور پھر وہ نقد رقم کہاں گئی کسی کو کچھ پتہ نہیں ۔اب کس میں جرأت ہے کہ وہ جاوید اقبال راجہ سے پوچھے کہ اس نے کس سورس کو اتنی بھاری رقم وزیر کے کہنے پر ادا کی،کی بھی یا نہیں یا پھرسب گول مال ہے۔
رحمن ملک نے 2011ء میں اپنے سٹاف کے ساتھ ملکی و بیرونی سفر پر چالیس لاکھ روپے خرچ کیے۔ اگلے سال اچانک بیرونِ ملک دوروں کی تعداد بڑھ گئی جن پر ایک سال میں تقریباً چار کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ صرف رحمن ملک نے لندن کے دوروں پر‘ جہاں ان کا اپنا گھر اور کاروبار ہے ایک کروڑ چونسٹھ لاکھ روپے خرچ کیے۔ کراچی جانے پر ان کے چوبیس لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ ان کے سٹاف افسر محمد علی شاہ کے بیرون ملک اور ملکی دوروں پر پچاس لاکھ خرچ ہوئے۔ رحمن ملک کے پی ایس عبدالحمید اعوان کے بیرون ملک دورں پر 35 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ شرطیہ کہتا ہوں جس طرح رحمن ملک یہ رقومات خرچ کررہے تھے‘ ایسا مغل شہزادے خواب میںبھی نہیں سوچ سکتے تھے۔
اب آتے ہیں وزارت خزانہ کی طرف، جس کا کام تھا کہ وہ ان اخراجات کا حساب کتاب رکھتی کیونکہ پاکستان ہر سال پانچ ارب ڈالر کا قرضہ لے رہا ہے۔ پچھلے برس کی بات ہے۔ وزارت خزانہ کا ایک وفد اسحاق ڈار کی خدمت میں پیش ہوا۔ کہا گیا‘ عرض ہو۔ ادب سے لکھنؤی انداز میں شستہ اردو اور نفیس لہجے میں عرض کیا گیا کہ حضور کی شان بلند ہو، ہم بے چارے سب غریب افسران، وزارت خزانہ میں دن رات بجٹ تیار کرتے رہے ہیں۔ ہم سب نے بہت محنت کی ہے۔ ہمیں اضافی مشاہرہ ادا کیا جائے۔ اسحاق ڈار نے یہ پوچھنے کی بجائے کہ تمہیں تو اس کی باقاعدہ تنخواہ ملتی ہے، بس مسکرائے اور بولے: بس اتنی سی بات‘ کتنے پیسے چاہئیں۔ عرض کیا گیا: دو سالوں کے لیے چودہ کروڑ روپے بنتے ہیں۔مغلوں کے تخت پر براجمان نے فرمایا‘ منظور۔سب نے نعرے لگائے۔ حضور کا اقبال بلند ہو۔ بعض کورنش بھی بجا لائے۔ان نعروں کی گونج میں ایک آواز ابھری‘ ایک اور بھی عرضی ہے۔ بادشاہ سلامت بولے۔ عرضی پیش کی جائے۔ انتہائی ادب سے عرضی پیش کی گئی اور جھک کرعرض کیا: ان مشاہروں کے چیکوں پر خود بخود ٹیکس کٹ جائے گا اور ہر ایک کے مشاہرہ سے ٹیکس کٹا تو پھر حضور کی اس مہربانی کی آدھی سے بھی کم نوازش ہم تک پہنچے گی؛ لہٰذا اگر مشاہرہ پر لگنے والے ٹیکس قومی خزانے سے ادا کیے جائیںتو سب کی زندگیاں سدھر جائیں گی۔ حضور کے اقبال اور خاندان کی ترقی کے لیے دن رات دعائیں ہوں گی۔ فوراً عرضی مان لی گئی اور یوں مشاہرہ کے ساتھ ساتھ اس پر عائد انکم ٹیکس کی ادائیگی بھی عوام کے پیسوں سے کی گئی۔ کسی نے سرگوشی کی کہ حضور یہ سب غیرقانونی ہورہا ہے کیونکہ قانون کے تحت مشاہرہ صرف جوائنٹ سیکرٹری تک کے افسران کو مل سکتا ہے‘ یہاں تو بائیسویں گریڈ کے سیکرٹری تک بھی لے رہے ہیں۔ رانا اسد امین ایم پی ون گریڈ میں ہیں، انہیں بھی مل رہا ہے۔ کل اٹھائیس افسران لے رہے ہیں جنہیں یہ نہیں مل سکتا۔ سب نے اسے ڈانٹ دیا کہ پاگل ہو‘ کیا تمہیں نہیں مل رہا ؟
یوں سب نے مل کر قومی خزانہ کو چودہ کروڑ کا چونا لگایا ۔ کل اٹھائیس افسران نے پیسے لیے جو وہ قانونی طور پر نہیں لے سکتے تھے۔
کیا خیال ہے، آج کے لیے اتنا کافی نہیں ہے؟ اب آپ پانی پی لیں۔ باقی یار زندہ صحبت باقی ....!