تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     30-10-2015

موت اور زندگی کے درمیان لرزتا ہوا سوا منٹ!

اور اب، دس سال کے بعد پھر زمین اُسی ہولناکی سے لرز اٹھی۔ وہی مہینہ، وہی موسم، جس میں دس برس پیشتر زلزلے کی قیامت خیزی نے شہر کے شہر قبرستان میں بدل دیئے تھے ؎
خواب کو مرتے ہوئے، خاک میں ڈھلتے دیکھا
شہر کا شہر کسی آگ میں جلتے دیکھا
تباہی کے وہ مناظر ناقابل فراموش، ناقابل بیان ہیں۔ ابھی تو دس برس پہلے لگنے والے زخم مندمل نہ ہوئے تھے، ابھی تو اس سانحے کے آنسو خشک نہ ہوئے تھے کہ ایک بار پھر میرے وطن میں ویسی ہی قیامت آ گئی۔ سوموار کی دوپہر، شاید 2 بج کر 10 منٹ ہوئے تھے۔ زندگی اپنے معمول کے مطابق رواں دواں تھی ، اچانک ہمارے پائوں کے نیچے سے زمین یوں لرزنے لگی، کہ زندگی لرز کر رہ گئی۔
زندگی اور موت کے درمیان لرزتا ہوا وہ سوا منٹ سوا صدی کے برابر تھا۔ گزرنے میں ہی نہ آتا تھا۔ یہ لمحہ قدرت کے سامنے انسان کی بے بسی کا مظہر اور زندگی کی بے ثباتی کا استعارہ تھا۔ اس ایک لمحے میں نہ کسی کو اپنے عہدے یاد رہے، نہ بینک بیلنس، نہ جائیدادیں، نہ زندگی کے عیش و آرام۔ کروڑوں کے گھر چھوڑ کر، ہر شخص جان بچانے کو کھلے آسمان تلے نکل آیا۔ اگلے لمحے کی کسی کو خبر نہ تھی۔ اور جب وہ سوا منٹ گزر گیا تو ہر جگہ ملی جلی کیفیات تھیں۔ خوف، شکرانہ، توبہ استغفار اور کہیں تباہی، موت، گھر کے ملبے کا ڈھیر اور اس گھر کے اندر بستے سارے خواب بھی اس ملبے پر بے تعبیر پڑے ہوئے، ان کے لیے بھی ایک عبرت، ایک سبق دے
رہے تھے جو اس بڑی تباہی میں محفوظ رہے۔ زلزلے کا مرکز زمین سے دور ہونے کے سبب 2005ء کے زلزلے کے مقابلے میں بہت کم تباہی ہوئی۔ ہمیں اس پر خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے اور بے شک اپنے رب سے توبہ استغفار کر کے اس کو یاد کرنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے ''اگر تم پر اللہ کا عذاب آ جائے یا قیامت آ دھمکے تو کیا تم اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے؟‘‘ تو اس ایک لمحے میں بھی بندگان خدا، اپنے خالق کو یاد کرتے ہوئے اپنے گھروں، دفتروں، دکانوں سے باہر نکل آئے۔ دہشت گردی ہو یا قدرتی آفات، خیبرپختونخوا سب سے زیادہ نقصان اٹھاتا ہے۔ اور اس بار بھی زلزلے نے اسی صوبے میں تباہی مچائی۔ خیبرپختونخوا کے چھوٹے چھوٹے پسماندہ شہروں اور قصبوں میں، کچے مکانات ڈھے گئے اور وہ شہری جو پہلے ہی زندگی کی ضروری سہولتوں اور آسائش سے عاری زندگی گزار رہے تھے، اب بے درو دیوار گھروں کے ملبے پر بیٹھے اس فکر میں غلطاں ہیں کہ وہ اپنے گھروں کو کیسے تعمیر کریں کہ وہ پہلے ہی افلاس زدہ اور تہی دست تھے، اور اب زلزلے سے مزید تباہ حال ہو کر امداد کے منتظر ہیں۔ زلزلے کے بعد کی صورت حال یہ ہے کہ ایک جانب ہر چینل دوسرے پر بازی لے جانے کے لیے ایسی رپورٹ نشر کر رہا ہے کہ جہاں کوئی
نہیں پہنچا وہاں فلاں چینل پہنچ گیا وغیرہ وغیرہ، دوسری جانب آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز آتی ہے کہ ہزاروں خیمے، ہزاروں ٹن ادویات متاثرین میں تقسیم کی گئیں۔ ادھر حکومت بھی امدادی پیکیج کا اعلان کر چکی ہے۔ کچھ خدمت خلق پر کام کرنے والی تنظیمیں بھی میدان میں ہیں، مگر پھر بھی لوگ شکوہ کناں ہیں کہ ہمارے پاس کوئی نہیں آیا۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہمارے یہاں ریسکیو اور ری ہیبلیئیشن یعنی بچائو اور بحالی، کا نظام انتہائی غیر منظم اور غیر مربوط ہے۔ قومی سطح کے دو ادارے ایرا اور این ڈی ایم اے کام کر رہے ہیں جو 2005ء کے زلزلے کے بعد اس نظریے سے قائم کئے گئے تھے کہ قدرتی آفت کی صورت میں ایک مؤثر میکانزم وجود میں آ سکے، مگر اب صورت حال دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ڈیزاسٹر سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے یہ دو ادارے بھی خیر سے دوسرے ملکی اداروں سے مختلف نہیں ہیں۔ 
جاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے، جو زلزلے کے حوالے سے انتہائی خطرناک فالٹ لائن پر موجود ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ زلزلے جاپانیوں نے ہی دیکھے ہیں، مگر جاپان میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ پر سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ بلین آف ڈالرز لگا کر جاپان کی تمام عمارتوں کو نئے طریقے سے تعمیر کیا گیا ہے۔ گھروں، دفتروں، پلازوں اور آسمان کو چھوتی عمارتوں کو زلزلہ پروف بنانے کے لیے اس میں ایسی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے کہ عمارتیں زلزلے کے جھٹکے کے ساتھ لچکدار انداز میں move کرتی ہیں اور اس ٹیکنالوجی کی وجہ سے زلزلہ پروف عمارتیں زلزلے کے 8.9 میگنی چیوڈ کے جھٹکے بھی اپنے اندر جذب کر سکتی ہیں۔ مارچ 2011ء میں جاپان میں زلزلہ آیا جس کی شدت ریکٹر سکیل پر 9.0۔8.9 تک تھی مگر ٹوکیو کی کوئی عمارت بھی ملبے کا ڈھیر نہ بنی جس کی وجہ یہ ٹیکنالوجی ہے۔ وہاں گھریلو عورتوں سے لے کر سکول کے بچوں تک کو ایمرجنسی ڈیزاسٹر کی تربیت دی جاتی ہے۔ ہر گھر میں انتہائی حساس زلزلہ الارم لگے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد وہاں ریسکیو کا انتہائی منظم اور شاندار مربوط نظام موجود ہے۔ زلزلہ ایسی قدرتی آفت ہے کہ جس کی پیشین گوئی نہیں کی جا سکتی۔ انسان بساط بھر اس کے نقصانات سے بچنے کی تدبیر ہی کر سکتا ہے۔ جاپان کو دیکھیں اور اپنے وطن میں زلزلے کے بعد کی تباہی دیکھیں، افسوس ہوتا ہے۔ ہمارا حال تو یہ ہے کہ جو کچھ ہم سے ہو سکے ہم وہ بھی ڈھنگ سے نہیں کر پاتے۔ آج اگر پاک فوج بحالی کے کام میں ہراول دستہ نہ ہوتی تو شاید صورت حال اس سے بھی مایوس کن ہوتی۔ دس برس پیشتر زلزلہ متاثرین جس تباہی اور عذاب سے گزرے، اس حوالے سے ایک نظم کہی تھی، اس کے آخری دو بند آج ایک بار پھر دہرائے دیتی ہوں۔
اے شریک درد...ذرا دل کی آنکھ سے دیکھ تو... ابھی میرے شہرِ تباہ میں... وہی رزم گاہ جمی ہوئی... ابھی مرگ و زیست ہے دوبدو... ابھی غم کی کُہر ہے چارسو... ابھی کم نصیبی کی یخ ہوا... یہاں سرپٹختی ہے کوبکو... وہ جوبے گھری کا عذاب تھا... ابھی دیکھ شہرِ تباہ میں ہے جما ہوا... وہ جو ساعتیں تھیں قیامتوں میں ڈھلی ہوئی... انہیں ساعتوں کے ملال کا... کوئی ایک ماتمی اشک ہے... سرِدِشت چشم رکا ہوا... 
اے شریکِ درد... میرے بین سے ابھی گونج بھرتی ہوائیں ہیں... مری سسکیوں کو پناہ دے... میری بے نوائی کو چاہیے... کسی خوش سماعت کا حوصلہ... مجھے آسرے کی امان دے... مجھے اپنے خیمۂ جاں میں رکھ...وہ جو میرے درد کو بانٹنے کا تھا سلسلہ... اسے اپنی صبح ومسا میں رکھ، اُسے طول دے... 
اے شریک درد ٹھہر ذرا... مرے چارہ گر تو پلٹ ذرا!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved