آج دفاع اور سلامتی کے موضوع پر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ پڑھ رہا تھا ‘جس میں دفاعی اداروں اور مسلح افواج کے اصل کردار میں ‘زوال اور بدعنوانی کی جائزہ رپورٹیں دیکھ کر پتہ چلا کہ عوام کو اپنے دفاعی اداروں پر اعتماد نہیں ہے۔ اس کے برعکس وقت کے ساتھ ساتھ عدم استحکام کا خطرہ بڑھتا جا رہاہے۔ یہ جملہ قابل غور ہے: ''ہم نے دیکھا ہے کہ بدعنوانی‘ دہشت گردی کی فضا کو جنم دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے‘‘ اور حاصل مطالعہ یہ ہے کہ ''عسکری بدعنوانی نے حقیقی معنوں میں دفاعی اداروں کی قانونی حیثیت کو بہت کمزور کر دیا ہے۔‘‘ اصولی طور پر تو غریب اور چھوٹے ملکوں کو اپنی فوجیں بنانے کی ضرورت ہی نہیں ۔ حکومتیں ‘ دفاع اور سلامتی کے نام پر مسلح افواج رکھتی ضرور ہیں لیکن پھر انہی کے اخراجات تلے دب کر ‘تباہ و برباد بھی ہوتی رہتی ہیں۔ اکثر پڑوسیوں کے ساتھ جنگیں چھیڑ کے‘ ایک دوسرے کو تباہ و برباد کرتے ہیں اور کوئی پڑوسی لڑنے کو تیار نہ ہو‘ تو اندرون ملک ہی اقتدار کی جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ کبھی فوج اقتدار پر قبضہ کر لیتی ہے اور اگر فوجی اقتدار طویل ہو جائے‘ تو پھر ایک اعلیٰ افسر‘ حکمران اعلیٰ افسر کو‘ اقتدار سے ہٹا کر ‘خود اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ گزشتہ صدی کے آخر میں ‘اسلحہ بیچنے والے ملکوں نے ‘جس طرح نام نہاد فوجی بغاوتیں کرائیں اور دنیا پر اپنا غلبہ مکمل کرنے کے لئے حملے کئے ‘ اس کے نتیجے میں ‘ دفاع اور سلامتی کا کاروبار ایک نیا رخ اختیار کر گیا۔ افغانستان اور عراق کی جنگیں ‘نئے دور کا آغاز ثابت ہوئیں۔
دو ملکوں پر تو امریکہ نے براہ راست فوج کشی کر کے‘ ان کے ریاستی ڈھانچے توڑپھوڑ ڈالے۔ مگر اب تو اس کی ضرورت بھی نہیں رہ گئی۔ مسلح فوجی دستے ہی قبائلی دور کے مسلح گروہوں میں بدل گئے اور جس کو جتنے زیادہ مسلح افراد میسر آ گئے‘ اس نے زمین کے کسی ٹکڑے پر کنٹرول قائم کر کے‘ اپنی حکمرانی کا اعلان کر دیا۔ افغانستان جوتاریخ میں کبھی بھی ایک ملک نہیں رہا تھا‘ کے حکمرانوں نے مختلف قبائل کے ساتھ سمجھوتے کر کے‘ کابل کی حکمرانی منوائی اور بادشاہت چلاتے رہے۔ اس ڈھیلے ڈھالے سے ''ملکی انتظام‘‘ کو سوویت افواج کی آمد نے توڑپھوڑ ڈالا۔ امریکی ہتھیاروں اور سرمائے سے مسلح باغیوں نے ‘رسمی سی بادشاہت کو ہوا میں اڑا دیا اور ایک غیرمنظم جنگ شروع ہو گئی۔ جب دونوں فریق لڑتے لڑتے نڈھال ہو گئے‘ تو سوویت یونین نے‘ جس کا اپنا گھر منتشر ہو گیا تھا‘ فوجیں واپس بلا لیں۔ بعد میں ''مجاہدین اسلام‘‘ نے ایک دوسرے کے خلاف جنگ شروع کر دی اور وہ کابل جو حملہ آور سوویت فوجوں کے دور میں ‘ پوری طرح آباد اور پررونق رہا تھا‘ ''مجاہدین اسلام‘‘ نے آپس میں ‘ایک دوسرے کے خلاف اسلحہ استعمال کرتے ہوئے ‘شہر کو کھنڈرات میں بدل دیا۔ ان کھنڈرات پر قبضہ کرنے کے لئے امریکہ نے اپنی فوجیں اتار دیں۔ بہانہ اسامہ بن لادن کا تھا۔ اسامہ بن لادن کیا تھا؟ کس کا ایجنٹ تھا؟ اس کے مقاصد کیا تھے؟ منزل کیا تھی؟ اس کا تو مجھے پتہ نہیں مگر اس کا انجام ایک مفرور ڈاکو جیسا ہوا‘جسے پناہ دینے والے اس کی حفاظت نہ کر سکے اور حملہ آوروں نے رات کے اندھیرے میں‘ اسے پورے خاندان سمیت ہلاک یا گرفتار کر کے ‘قصہ تمام کر دیا۔ یہ ایک بے معنی جنگ چھیڑنے والے شخص کا ذاتی انجام تھا‘ افغانستان کا نہیں۔ افغانستان آج بھی خانہ جنگی میں مبتلا ہے۔ اس کے پاس آج بھی باضابطہ افواج موجود نہیں۔ جن افغانوں کو ابتدائی تربیت کے ساتھ وردیاں پہنا کر‘ فوج کا نام دیا گیا‘ وہ بھی قبائلی سرداروں کے مسلح محافظوں سے زیادہ جنگی مہارت کا مظاہرہ نہیں کر پا رہے۔ پاکستان جیسے بڑے ملک کی بڑی فوج کے سپہ سالار کے تاریخی شعور کا یہ عالم تھا کہ اس نے افغانستان کے نیم تہذیب یافتہ معاشرے میں ٹانگ اڑا کے ‘ہمیں اس بری طرح پھنسایا کہ ہماری جو فوج‘ افغانستان کے مسائل حل کرنے گئی تھی‘ آج اپنے ہی ملک میں دہشت گردوں کے خلاف برسرجنگ ہے اور مستقبل قریب میں اس جنگ کا کوئی انجام نظر نہیں آ رہا۔
طاقت اور عوام کا رشتہ ‘ہمیشہ تلوار اور گردن کا رشتہ رہا ہے۔ پرانے زمانے کے بادشاہ ‘تلوار خود اپنے ہاتھ میں رکھتے تھے اور جب انہوں نے فوجیں رکھنا شروع کیں‘ تو بھی ہر بادشاہ اپنی فوج کو تلوار کی طرح ہی استعمال کرتا تھا۔ جس کسی نے گردن اٹھائی‘ فوج بھیج کے اسے کچل دیا۔ اورنگ زیب عالمگیر مشہور تھے کہ جہاں کوئی بغاوت سر اٹھاتی‘ وہ فوج بھیج کے اسے کچل دیتے۔ بعض بغاوتیں کچلنے کے لئے عالم پناہ نے خود بھی تلوار چلائی۔ سماج جیسے جیسے ترقی کرتے گئے‘ فوج کا کردار بدلتا گیا‘ وہ ملک خوش نصیب ہیں‘ جنہوں نے اقتدار کو افراد کے ہاتھوں سے نکال کر‘ اداروں کے سپرد کر دیا۔ مگر ایسے ملکوں کی تعداد ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ محض علم‘ ترقی اور سائنس ہی فوج کے کردار کو نہیں بدلتے‘ ایک خاص معاشرتی شعور بھی ہوتا ہے‘ جو بڑی مدت کے بعد ترقی کرتا ہوا‘ برطانیہ‘ امریکہ‘ کینیڈا اور سوئٹزرلینڈ جیسے ملکوں میں نظاموں کی بنیاد بنتا ہے۔علم‘ ترقی اور سائنس میں روس بھی کسی سے پیچھے نہیں‘ لیکن روس میںابھی تک‘ اس شعور نے جڑیں نہیں پکڑیں‘ جو مندرجہ بالا ملکوں کے نظام ہائے حکومت کی بنیادوں میں موجود ہے۔ یہ تو میں نے ترقی یافتہ ملکوں کی بات کی۔ مگر ادنیٰ تنظیمی حالت اور غیرمہذب حکمرانوں کے زیرتسلط ملکوں میں تو آج بھی‘ روایتی بادشاہت اور رعیت کا نظام ہی پایا جاتا ہے۔ افریقہ میں ہر سال کسی نہ کسی ملک کے اندر‘ اس کے مظاہرے دیکھنے میں آتے ہیں۔ یہی صورتحال لاطینی امریکہ کی ہے اور آج کے شرق اوسط نے تو سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ داعش اس کا نقطۂ عروج ہے۔ ان دنوں امریکہ ‘ برطانیہ اور بعض دوسرے ملک مل کر کوشش کر رہے ہیں کہ داعش کا خاتمہ کریں‘ لیکن مجھے یوں نظر آ رہا ہے ‘ جیسے یہ سب ایک داعش کو ختم کرتے کرتے ‘کئی داعش پیدا کر بیٹھیں گے۔ جیسے اسامہ بن لادن کو ختم کرتے کرتے‘ امریکہ نے ہر عرب ملک میں کوئی نہ کوئی اسامہ بن لادن پیدا کر لیا ہے۔ ان سب ملکوں کی فوجیں اسی طرح ہیں‘ جیسے بادشاہوں کی افواج ہوا کرتی تھیں۔ ہرچند ان افواج کے پاس جدید دور کا اسلحہ اور جنگی تربیت موجود ہے‘ لیکن ان فوجوں کا عوام کے ساتھ رشتہ وہی پرانا ہے۔ گردن اور تلوار کا رشتہ۔کہیں یہ رشتہ برہنہ حالت میں صاف دکھائی دیتا ہے؛ جیسے عراق‘ شام‘ لبیا‘ افغانستان اور کریمیا وغیرہ۔ یہ وہ خطے ہیں‘ جہاں تلوار بادشاہ کے کنٹرول سے نکل کر‘ کمانڈروں کے ہاتھ میں آ جاتی تھی اور و ہ بغیر کسی نظم و ضبط کے جہاں اور جیسے چاہتے‘ اسے استعمال کرتے۔ دنیا میں بہت سے ملکوں کی بہت سی فوجوں نے‘ پرانے زمانے کے انہی باغیوں کی طرح اپنی تلوار کا استعمال‘ اپنی مرضی سے کرنا شروع کر رکھا ہے۔ بعض خطوں میں ایسے معاشرتی ماحول از سر نوپیدا ہو رہے ہیں‘ جن سے ہم ہزاروں سال پہلے گزر چکے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟
مجھے اس کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ ہمارا تاریخی شعور‘ ابھی نیم پختگی کی حالت میں ہے۔ جہاں یہ پختہ ہوا‘ و ہاں نظام مملکت میں بھی پختگی آ گئی۔ اقتدار ‘طاقتور افراد کے ہاتھوں سے نکل کر اداروں میں منتقل ہو گیا۔ گردنیں کاٹنے کا اختیار ایک فرد کے پاس نہیں رہا۔ اداروں میں بحث مباحثے ہوتے ہیں اور اتفاق رائے حاصل کرنے کے بعد ہی گردنیں کاٹنے کے فیصلے کئے جاتے ہیں‘ مگر انسانی فطرت میں درندگی کا جو عنصر کارفرما ہے‘ وہ اداروں میں بھی ظاہر ہونے سے نہیں رہتا۔ سب سے مضبوط اور منظم ادارہ ‘اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ہے‘ جس میں اصولی طور پر دنیا کے اعلیٰ ترین دماغوں کو ‘اجتماعی فیصلے کرنے کا اختیار حاصل ہے‘ لیکن اکثر مواقع ایسے بھی آئے کہ سلامتی کونسل نے بھی ‘پرانے زمانے کے بادشاہوں کی طرح ‘تلوار کا بے دریغ استعمال کیا‘ جس کی المناک مثالیں فلسطین اور کشمیر میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ کیا انسان کا مہذب ہونے کا خواب کبھی پورا ہو گا؟ موجودہ نسل انسانی میںتو مجھے اس کی کوئی امید نظر نہیں آتی اور جہاں میں رہتا ہوں یعنی پاکستان‘ یہاں کا معاشرہ تو ابھی نیم قبائلی حالت میں ہے۔یہاں تلوار کو گردن تک پہنچنے کے لئے ‘خاص اخلاقی رکاوٹوں کو پار نہیں کرنا پڑتا۔ یہ محض خودفریبی ہے کہ ہم ترقی یافتہ دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ مجھے اس پر اعتبار نہیں۔ تقسیم سے پہلے جسے ہم غلامی کا دور قرار دیتے ہیں‘ میرے نزدیک وہاں تلوار اور گردن کے درمیان قوانین اور ضابطوں کی ‘کئی رکاوٹیں کھڑی تھیں۔ آزادی کے بعد ہم ان رکاروٹوں سے آزاد ہو گئے ہیں۔ اب تلوار کو گردن تک پہنچنے میں ‘خاص رکاوٹوں سے نہیں گزرنا پڑتا۔ تلوار سیدھی گردن پر جاتی ہے۔ابھی کچھ دن پہلے ہم نے مصطفی کانجو کا واقعہ دیکھا۔ کس طرح تلوار گردن کو کاٹتی اور ہماری آنکھوں کے سامنے لہراتی ہوئی گھر چلی گئی؟ اور دوچار دن پہلے ہی ‘ایک ڈی ایس پی کے بیٹے نے ہمارے میڈیا کے ایک ساتھی کی گردن کاٹ کر بتایا کہ اب تلوار دور غلامی سے زیادہ آزادی حاصل کر چکی ہے۔ دور غلامی میں تلوار اور گردن کے راستے میں کچھ رکاوٹیں ہوا کرتی تھیں۔ آزادی کے بعد وہ رکاوٹیں‘ ایک ایک کر کے ہٹتی جا رہی ہیں۔ آزادی‘ گردن کو نہیں‘ تلوار کو ملی ہے۔
آخر میں اپنے جمہوری معاشرے کا ایک لطیفہ پڑھ لیجئے۔ ان دنوں پاکستان میں بلدیاتی انتخابات ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم کے ایک رشتہ دار شیر علی نے ‘ جن کا خاندان باغی ہو کر الیکشن میں حصہ لے رہا ہے ‘اپنا راز کھولتے ہوئے بتایا کہ ''شیرکی کھال کھینچیں گے‘ تو اندر سے گدھا نکلے گا۔‘‘ ہاہاہا۔ مہذب معاشرہ؟ حکمران جماعت کا انتخابی نشان ایک درندہ ہے اور حکمرانی کے امیدوار کا ارادہ‘ درندے کی کھال کھینچنے کا ہے۔ یاد رہے‘ پاکستانی سٹیج کے بیشتر کامیڈین فیصل آباد کے ہیں۔