تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     31-10-2015

اب دال گلے گی کیا؟

بھارت میں ارہر کی دال کی قیمتیں آسمان پر چڑھے ‘کئی ہفتے ہوگئے ۔دوسوروپیہ کلوکی دال کھانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔پچیس تیس کروڑ کی مڈل کلاس کے لوگوں کو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا لیکن سو کروڑ دیہاتی ‘غریب محروم طبقے کے لوگ کیا کریں؟دال ہی ان کا سہارا ہے ۔ دووقت دال روٹی مل جائے ‘پس یہی کافی ہے ‘ان کے لئے!لیکن دیکھئے ڈیڑھ سال میں ان کے لئے کتنے اچھے دن آ گئے ہیں ؟روٹی تو ہے لیکن اس کو کھائیں کس کے ساتھ ؟دال نہ سہی ‘پیاز کے ساتھ کھائیں لیکن پیاز بھی ساٹھ سے ستر روپیہ کلو بکتا رہا ۔دال تو کھانی پڑتی ہے‘ سوکھی روٹی گلے سے نیچے کیسے اترے؟یہ دال آج کل دال نہیں رہ گئی ہے۔وہ دال کا پانی بن گئی ہے۔ کروڑوں لوگ دال کے پانی سے گزارا کر رہے ہیں ۔
سرکار کو اب ہوش آیا ہے ۔وہ دال باہر سے منگوا رہی ہے اور دال کے جمع خوروں کے خلاف چھاپے بھی مار رہی ہے ۔ایک دن میں حکومت نے 6000 ٹن دال اپنے ہاتھ میں کر لی لیکن جس ملک میں آج لاکھوں ٹن دال کی کمی ہے ‘اس میں کچھ ہزار ٹن دال نکلوانے سے پورا کیسے پڑے گا ؟یہ اچھی خبر ہے کہ سرکاری دکانوں پر اب دال 120 یا130 روپیہ کلو مل سکے گی۔سرکار کو سال بھر پہلے سے پتا تھا کہ دال کی پیداوارکتنی کم ہوگی لیکن اسے فرصت کہاں؟اس کے لیڈر بنڈیاں بدل بدل کر بنڈل مارنے میں لگے رہے ۔پرچار کی بھوک نے انہیں اپنے ہی نشے میں محو کر رکھا ہے ۔ لوگ بھوک مریں تو مریں‘ انہیں کیا ؟
اگر سرکار کا سچ مچ دبدبہ ہوتا تو جمع خوروں کی ہڈیوں میں کپکپی دوڑ جاتی !دال مہنگی ہوتی ہی نہیں ۔اب بھی سخت کارروائی ہو تو لاکھوں ٹن دال ایک دن میں باہر آ سکتی ہے ۔سرکار کے پاس کو ئی پالیسی ہوتی تو وہ دال والوں کی دال گلنے ہی نہیں دیتی ۔ملک کے کروڑوں لوگوں کو وہ ایک دو ماہ تک ارہر کی دال کھانے سے منع کرنے کو کہتی ۔خود صدر اور وزیر اعظم یہ دال نہ کھانے کا اعلان کرتے تو ان کی دیکھا دیکھی کروڑوں لوگ دال خریدنا اور کھانا بند کر دیتے تو جمع خوروں کے ہوش ٹھکانے لگ جاتے‘لیکن لیڈروں کو کیا فرق پڑتا ہے؟دو سو روپیہ کلو کیا دوہزار روپیہ کلو بکے تو بھی انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ 
مودی یہ موقع کیوں چُوک گئے ؟
وزیر اعظم نریندر مودی نے اس بار'من کی بات ‘کہتے ہوئے تین چار اہم معاملات پر بھی اظہار خیال کردیا۔ایک تو چھوٹی سرکاری نوکریوں میں سے انٹرویوختم کیا جائے گا ۔دوسرا‘لوگ اپنا سونا بینکوںمیں جمع کر سکیں گے ‘اس پر انہیں سود ملتا رہے گا ۔تیسری بات ‘انہوں نے لوگوں سے اعضا کے عطیوں کی اپیل کی۔ان کی چوتھی بات خالص سیاست ہے ۔لندن میں ڈاکٹر امبیڈکر کے ہائوس کا افتتاح کرنے کی۔اگر چوتھی بات کو ہم سیاسی لٹکے بازی مان کر چھوڑ دیں تو بھی باقی تین باتیں غور کرنے لائق ہیں ۔جس بھی نوکر شاہ نے وزیر اعظم کو یہ باتیں سجھائی ہیں ‘وہ مبارک باد کا حقدار ہے ۔
بھارت سرکار کی نوکریوں میں ہر سال لاکھوں لوگوں کی بھرتی ہوتی ہے ۔سب سے زیادہ بھرتی نچلے عہدوںپر ہوتی ہے ۔یہ عہدے گزیٹڈ افسروں کے ہوتے ہیں ۔لکھنے کے امتحان کے ساتھ ساتھ انٹرویوبھی ہوتا ہے۔آپ کی قابلیت کتنی بھی ہواور لکھنے کا امتحان بھی ٹھیک ٹھاک ہو گیا ہو لیکن ا نٹرویو میں آپ اٹک گئے تو آپ کی بھرتی رک سکتی ہے ۔انٹرویو کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس میں زبردست من مانی اور بد عنوانی ہوتی ہے۔دلال لوگوں سے کافی پیسے وصول کرتے ہیں ‘نوکری دلانے کے نام پر ۔نوکری ملے یا نہ ملے ‘انہیں پیسے تو دینے ہی پڑتے ہیں۔ اس کے علاوہ جان پہچان ‘رشتے داری ‘قومیت ‘اور مذہب جیسے عوامل بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔اب یکم جنوری 2016 ء سے انٹرویو کی روایت ختم ہو جائے گی تو یہ بڑا کام ہوگا ۔
دوسری بات یقینا کسی نوکر شاہ کے دماغ کی پیدوار ہے ‘ کیونکہ مودی کوتو اس کا ہندی یا گجراتی نام بھی پتا نہیں ہے۔'گولڈ مونے ٹائیزیشن‘یعنی سونے پر بیاج !اپنا سونا آپ بینک میں جمع 
کریں اور اس کی جتنی بھی قیمت ہو ‘اس پر بیاج ملے گا ۔ہو سکتا ہے اس سے اربوں روپیہ کا سونا بینکوں میں جمع ہو جائے ‘جس کا فائدہ سرکار سرمایہ کاری کر کے اٹھا سکتی ہے‘ لیکن اس میں دو اڑچنیں ہیں ۔ ایک تو ملک کا زیادہ ترسونا زیورات کی صورت میں ہے ‘جسے بینک نہیں لے گا۔دوسرا‘لوگ اپنا کچا سونا بینکوں میں جمع کرا کے خود کو کالے دھن کا گنہگار کہلوانا پسند نہیں کریں گے۔ اس معاملے میں سرکار کو ڈھیل ضرور دینا ہو گی ۔اگر یہ تجویز کامیاب ہو گئی توملک کا سویا ہوا سونا جاگ اٹھے گا۔ اعضا کے عطیات کی اپیل بہت اچھی ہے اور حسب حال بھی ۔وزیراعظم اس کے لئے مبارک کے حقدار ہیں‘ لیکن وہ موقع چوک گئے ۔اس کی شروعات انہیں خود کرنا چاہیے تھی ۔اس کا جادوئی اثر سارے ملک پر ہوتا ۔لاکھوں لوگ ان کی دیکھا دیکھی اپنے اعضا عطیے میں دینے کا اعلان کردیتے ۔اس طرح مودی سچ مچ کے لیڈر بن جاتے ۔ابھی وہ صرف وزیر اعظم ہیں ۔ ان کی پہلی دو باتیں وزیر اعظم کی ہیں اور تیسری بات سیاست دان کی ہے ۔لیڈروہ ہوتا ہے ‘جو اپنے کردار سے مثال پیش کرے ۔
ارون شوری کی کھری کھری
بی جے پی کے سابق وزیر اور مشہور صحافی ارون شوری نے ایک کتاب کے افتتاح کے وقت جو بات کہی وہ ملک میں چرچا کا مضمون بنی ہوئی ہے ۔ارون شوری کو پکا بھاجپائی مانا جاتا ہے۔وہ ایک مفکر صحافی ہیں۔ ان کے ردعمل بنیادی اور بے خوف ہوتے ہیں۔انہوں نے کہہ دیا کہ اب لوگ من موہن کو دوبارہ یاد کرنے لگے ہیں ۔ موجودہ سرکار اور من موہن سرکار میں کیا فرق ہے ؟اتنا ہی فرق ہے کہ مودی گائے برابر من موہن یا من موہن گائے برابر مودی یعنی صرف گائے کے کاٹے جانے کے مدعہ کے علاوہ نئی سرکار اور پرانی سرکار میں کوئی فرق نہیں ہے ۔انہوں نے نریندر مودی کی سرکار کو سب سے کمزور سرکار بتایا ۔انہوں نے کہا کہ دفتر وزارت عظمیٰ میں سینٹرلائیز ہو گیا ہے‘ لیکن وہ کمزور ہے ۔وہ کوئی فیصلہ ہی نہیں کر پاتا ۔اٹل جی کی سرکار میں برجیش مشرا اورایل کے جھا جیسے تجربہ کار اور تیز طرار لوگ دفتر وزارت عظمیٰ کو چلاتے تھے۔اب بھی لوگ خوب کام کر رہے ہیں‘اور مشغول دکھائی پڑ رہے ہیں‘ لیکن نتیجے کے نام پر صفر ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ یہ چلتے چلتے سو جاتا ہے ۔شوری نے یہ بھی کہا کہ وزیر اعظم سے جو بھی ملتا ہے ‘وہ چکنی چپڑی باتیں کرتا ہے‘ان کو کوئی کھری کھری نہیں کہتا ۔وزیراعظم لوگوں کو ناراض کرنے میں بڑے ماہر ہیں ۔ انہیں کیاپتا نہیں کہ اگر دلی اور ممبئی کے درمیان صنعتی برآمدہ بنانا ہے تو اس پر پانچ وزرائے اعلیٰ کا متفق ہونا ضروری ہوگا۔
ممکن ہے یہ سب باتیں شوری نے اس لئے بھی کہہ دی ہوں کہ اس پروگرام میں خود من موہن ناظرین کے بیچ بیٹھے تھے‘لیکن ارون شوری جیسے اچھے انسان سے یہ امیدنہیں کی جاتی ہے کہ محض اس ایک وجہ سے وہ بہک گئے ہوں گے ۔ارون شوری نے من موہن کی خوشامد میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔انہیں جو ٹھیک لگا ‘وہ انہوں نے کہا۔ شوری کی بات کا برا مانے گی تو یہ سرکار اپنا ہی نقصان کرے گی ۔ابھی تو پھسلن پر ڈیڑھ سال ہی بیتا ہے۔ سنبھلنے کا یہ درست وقت ہے ۔اگر ہمارے سبھی کچھ جاننے والے اور سب سے طاقتوروزیراعظم ٹی وی چینلوں اور اخباروں میں سرخیاں بٹورنے کی بجائے کچھ ٹھوس کام کریں تو وہ حقیقت میںملک اور خود کا اچھا کریں گے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved