تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     31-10-2015

موت کا ڈر کیسے ختم کیا جائے؟

گھاس گھٹنوں سے اوپر تک آ رہی تھی۔ کانٹے تھے اور ایسے کہ کپڑوں سے چمٹ چمٹ جاتے تھے۔ پورا قبرستان چھپا ہوا تھا۔ جن قبروں کو میں تلاش کر رہا تھا، اندازے سے ان کے قرب و جوار میں پہنچا مگر کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا ؎
وہ گھاس اگی ہے کہ کتبے بھی چھپ گئے اظہار
نہ جانے آرزوئیں اپنی دفن کی تھیں کہاں
ایک زمانہ تھا کہ ہر قصبے ہر بستی کے قبرستان میں ایک کچی کوٹھڑی بنی ہوتی تھی۔ اس میں چوکیدار رہتا تھا، جسے راکھا کہا جاتا تھا۔ وہ قبرستان کو صاف رکھتا تھا۔ جھاڑیاںکاٹتا تھا، جھاڑ جھنکاڑ ہٹاتا تھا۔ بوسیدہ قبروں کو درست کرتا تھا۔ فصل اترتی تو گائوں کا ہر گھر اسے معاوضہ ادا کرتا۔ اب نقدی کا زمانہ آ گیا ہے۔ بجلی کے بلوں نے کسان کو کنگال کرکے رکھ دیا ہے۔ رہی سہی کسر موبائل فون نے پوری کر دی۔ کریڈٹ کے نام پر آہستہ آہستہ اس کی جیب خالی ہو جاتی ہے۔ اس حال میں راکھے کو کون ادائیگی کرے۔ نتیجہ یہ ہے کہ قبرستان جنگل بن گئے ہیں۔ اب درختوں پر رنگین کپڑے لٹکانے اور دیے جلانے کا رواج بھی نہیں رہا۔ جب لوگ پیدل چلتے تھے یا دوسری بستیوں میں جانے کے لئے گھوڑوں، گدھوں، اونٹوں کو استعمال کرتے تھے، تو قبرستانوں کے بیچ میں سے گزر ہوتا تھا۔
السلام علیکم یا اہل القبور! کی آوازیں آتی تھیں۔ موت، زندگی کا، روزمرہ کا، حصہ لگتی تھی۔ لوگ موت کو یاد رکھتے تھے۔ بے ایمانی، خیانت اور جھوٹ پر دل آتا تو فوراً احساس ہو جاتا کہ کل مرنا ہے اور جواب دینا ہے۔ ان دنوں قدرت بھی جھوٹ اور بے ایمانی کا حساب جیسے اسی وقت چکا دیتی تھی۔ ایک دوست نے واقعہ سنایا کہ ایک سائیکل سوار کی کسی نے منت کی کہ مجھے تھوڑی دور تک ساتھ بٹھا لو۔ اس نے بٹھا لیا۔ رخصت ہونے لگا تو لفٹ لینے والے نے سائیکل کی ملکیت کا دعویٰ کر دیا۔ سائیکل والا حیران کہ یہ کیا ہو گیا۔ اس نے کہا کہ خدا کا خوف کرو!
ابھی تو تم نے میری منت کی تھی کہ میں تمہیں بٹھا لوں۔ جھگڑا بڑھا۔ لوگ اکٹھے ہو گئے۔ ایک بزرگ نے فیصلہ کیا کہ ملکیت کا دعویٰ کرنے والا خدا کی اور قرآن پاک کی قسم اٹھائے۔ جھوٹے دعویدار نے فوراً قسم اٹھا لی۔ اصل مالک دم بخود رہ گیا اور چپ چاپ سائیکل اس کے حوالے کر دی۔ مگر قصہ یہاں ختم نہیں ہوا۔ راوی کہتا ہے کہ جعلی مالک سڑک پر سائیکل چلاتا جا رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ سامنے سے آنے والی بس سیدھی اس کی طرف آ رہی ہے۔ وہ اتر کر کچے پر آ گیا اور پھر سڑک سے دور ہٹتا چلا گیا مگر بس اس کے پیچھے پیچھے آئی یہاں تک کہ اسے نیچے دے کر مار ڈالا۔ ڈرائیور سے پوچھ گچھ ہوئی تو بے بسی سے جواب دیا کہ اس نے بس کو کنٹرول کرنے کی بہت کوشش کی لیکن نہ کر سکا۔ بس یہ دیکھا کہ بس نیچے، کچے پر اتری، پھر آگے بڑھی اور ایک کتے کو کچل ڈالا۔ اب معلوم نہیں یہ واقعہ ہے یا روایت! مگر ایک واقعہ 2005ء کے زلزلے کے بعد بھی پڑھا۔ شمالی علاقے میں جہاں اموات زیادہ ہوئیں، ایک بس مسافروں سے بھری جا رہی تھی۔ اچانک بس میں سانپ نظر آیا۔ جس آدمی کی جھولی میں سانپ تھا، اس نے ہمت کرکے اسے کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔ سانپ ایک موٹر سائیکل سوار پر گرا جو وہیں ڈھیر ہو گیا۔ بس روکی گئی۔ موٹر سائیکل سوار کے سامان میں سے ایک کٹا ہوا بازو برآمد ہوا، جس نے طلائی چوڑیاں پہنی ہوئی تھیں!
موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ تو کیا یہ سزا ہے؟ طبعی موت کو سزا نہیں کہا جا سکتا! نیک نے بھی مرنا ہے اور بد نے بھی مرنا ہے۔ انسان پر موت کا ڈر ہمیشہ غالب رہا ہے! مگر غور کیا جائے تو موت سے ڈرنا ایک غیر منطقی عمل ہے جس کا کوئی جواز نہیں۔ انسان کا جسم بے جان ہو جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ خود انسان بھی ختم ہو گیا ہے۔ سانپ کینچلی بدلتا ہے مگر ختم نہیں ہوتا۔ جس جسم کے ساتھ ہم دنیا میں آتے ہیں، وہ تو یوں بھی ساتھ نہیں دیتا۔ ناخن، بال، کھال، سب کچھ تبدیل ہو جاتا ہے اور مسلسل تبدیل ہوتا رہتا ہے؛ تاہم موت کا ڈر دور کرنے کے لئے ایک مثال پر غور کرنا چاہیے۔ اگر ایک شخص کی ایک انگلی کٹ جائے تو اس کی ذات پھر بھی سلامت ہے۔ پھر اس کی ایک اور انگلی کٹ جائے۔ پھر ایک ہاتھ، پھر دونوں ہاتھ، پھر دونوں بازو! وہ پھر بھی موجود ہے! اب فرض کیجیے کہ اس کی دونوں ٹانگیں بھی اس سے الگ ہو گئیں۔ جسم کا زیادہ حصہ چلا گیا مگر وہ انسان خود، یعنی اس کی ذات پوری کی پوری سلامت ہے۔ وہ اب بھی ''میں‘‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے! بالکل اسی طرح، اگر اس کا باقی ماندہ جسم بھی ختم ہو جائے تو وہ خود اس کے باوجود، سلامت رہے گا۔
فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا
ترے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے
موت کا ڈر انسان کو چار حوالوں سے لاحق ہوتا ہے۔ پہلا اس وجہ سے کہ وہ سمجھتا ہے زندگی ختم ہو جائے گی اور اس کی ذات معدوم ہو جائے گی۔ دوسرا یہ کہ موت کے وقت درد، کرب یا تکلیف ہو گی۔ تیسرا یہ ڈر کہ موت کے بعد اس پر کیا بیتے گی اور چوتھا یہ کہ اس کے بعد اس کے بچوں، بیوی اور اس کے پیاروں کا کیا بنے گا؟ اگر ٹھنڈے دل سے تجزیہ کیا جائے اور عقل اور منطق کو بروئے کار لایا جائے تو ڈرنے کی یہ چاروں وجوہ درست نہیں اور ان کی بنیاد پر ڈرنے کا جواز نہیں بنتا۔
پہلا اس لئے کہ جیسا کہ اوپر کی مثال سے واضح ہوا‘ موت اس کی ذات کو ختم نہیں کر سکتی۔ وہ فقط اس کی ذات اور جسم کو الگ الگ کر دیتی ہے۔ وہ موت کے بعد بھی موجود ہے‘ یہ اور بات ہے کہ اب وہ جسم کا اور جسم کے اعضا کا محتاج نہیں۔ دوسرا اس لئے کہ جسمانی درد موت کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا ہے۔ درد کا تعلق جسم سے ہے۔ جب انسان کا تعلق جسم سے ختم ہو جائے تو درد کا احساس بھی نہیں رہتا۔ وہ کار کے حادثے میں مرے، یا ہوائی جہاز گرنے سے یا زلزلے سے، یا ڈوبنے سے، یا بستر پر لیٹے ہوئے، درد صرف اسی وقت تک ہے جب تک جسم سے اس کا ربط باقی ہے۔ تیسرا اس لئے کہ موت کے بعد جو کچھ اس پر بیتے گی، اس کا دارومدار اس کی اپنی کارکردگی پر ہے۔ اسے ایسے کاموں سے اجتناب کرنا چاہیے جن کی وجہ سے مرنے کے بعد پکڑ ہو سکتی ہے۔ خاص طور پر دوسرے لوگوں سے ناانصافی نہیں کرنی چاہیے۔ کسی کا حق نہیں مارنا چاہیے۔ اگر کوئی عالم دین بتاتا ہے کہ حج کرنے سے اس کے سارے گناہ معاف ہو گئے ہیں تو اس عالم دین سے صاف صاف پوچھنا چاہیے کہ کیا حقوق العباد بھی معاف ہو گئے ہیں ؟کیونکہ ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ آخرت میں صرف وہ انسان ہی معاف کر سکے گا جس کا حق مارا گیا ہے۔ اگر کسی کی زمین ہڑپ کر لی، یا اس کی رقم مار لی، یا کسی کا جوان بیٹا قتل کرکے اسے زندگی بھر کے عذاب میں مبتلا کر دیا تو کیا حج سے یہ سارے گناہ معاف ہوگئے؟ یہ باتیں کسی ثقہ عالم سے پوچھ لینی چاہئیں۔ پھر اگر حج ناجائز مال سے ادا کیا تو اس کا کیا بنے گا؟ اگر فٹ پاتھ پر ناجائز قبضہ کرکے دکان چلاتا رہا اور لوگوں کی آمدورفت میں رکاوٹ بنا رہا یا اپنی دکان کے سامنے سٹال لگوا کر اس کا کرایہ وصول کرتا رہا جبکہ وہ زمین اس کی نہیں تھی‘ حکومت کی تھی اور یوں گویا عوام کی تھی، تو کیا ایسی آمدنی سے حج یا دیگر عبادات قبول ہوں گی؟ اگر زندگی میں وہ ان تمام برائیوں سے بچتا رہا تو اسے امید کرنی چاہیے کہ موت کے بعد اس کے ساتھ اچھا معاملہ ہو گا۔ چوتھا اس لئے کہ اس کے بیوی بچوں اور لواحقین کی خیروعافیت اس کی زندگی میں بھی پروردگار عالم کے ہاتھ میں ہے۔ اس کائنات کو جو ہستی اپنے حساب سے اور تدبیر اور تدبر سے چلا رہی ہے، اس کے پس ماندگان بھی اسی کا حصہ ہیں۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ بہت سے افراد اپنی زندگی میں اپنے بچوں پر پوری توجہ دیتے ہیں مگر نتیجہ خوشگوار نہیں نکلتا۔ رہا ان سے جدائی کا ڈر، تو اس ڈر کا فائدہ کچھ نہیں اس لئے کہ یہ ہونا ہی ہے۔
انسان کی یہ خواہش (خواہ وہ اس کا اظہار کرے یا نہ کرے) کہ ہمیشہ زندہ رہے، خود غرضی کی آئینہ دار ہے! اگر ایسا ہوتا تو خود اس کی پیدائش کی باری ہی نہ آتی۔ سوچیے، اگر گزشتہ ساری صدیوں کے دوران پیدا ہونے والے لوگ نہ مرتے، تو اس وقت زمین پر کیا گزر رہی ہوتی۔ اگر سارے سمندر سوکھ جاتے تب بھی جگہ کم پڑ جاتی اور شایدکھڑا ہونے کی گنجائش بھی نہ ہوتی۔
اوراگر لمبی عمر کی خواہش ہے تو یہ سوچنا چاہیے کہ کیا انسان اس سے لطف اندوز ہو سکے گا؟ بڑھاپے میں قویٰ مضمحل ہو جاتے ہیں۔ حواس خمسہ کمزور پڑ جاتے ہیں۔ کھانے کا مزا نہ سیروتفریح ممکن! ہر معاملے میں دوسروں پر انحصار اور دوسروں کی احتیاج! پھر ایک وقت وہ بھی آتا ہے کہ خود بیوی بچے اس آزمائش سے تنگ آ جاتے ہیں اور انسان پکار اٹھتا ہے: ؎ 
تھک جاتے ہیں جاں نثار سارے
بیمار کو تو سنبھالتا ہے
اسی لئے عقل مند مشورہ دیتے ہیں کہ عمر کی طوالت کی نہیں، عمر میں برکت کی خواہش کرو!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved