تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     31-10-2015

حب الوطنی

سدھندراکلکرنی پاکستان آرہے ہیں۔یہ وہی ہیں جنہوں نے ہندو انتہا پسندی کے خلاف آواز اٹھائی اور خورشید قصوری صاحب کی میزبانی کی۔ان کا مقدمہ ہے کہ قائد اعظم اور گاندھی جی کے افکارامن کے لیے ،پاکستان اور بھارت کی راہنمائی کر سکتے ہیں۔وہ قائد کے مزار پر حاضری دینے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ایک پاکستانی کی نظر میں،ان کے لیے عزت ہے۔کیا ایک عام بھارتی شہری جو ہندو بھی ہے،انہیں اسی نظر سے دیکھتا ہے؟یہ حب الوطنی کیا ہوتی ہے؟کیا فی نفسہ یہ خیر وشر کا کوئی پیمانہ ہے؟
اقبال نے فرمایا ہے:
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے 
یہ بات نیشنلزم کی رد میں کہی گئی جسے ان کے عہد میں قومیت اور اجتماعیت کی اساس مانا جارہا تھا۔ان کے خیال میں ،ایک مسلمان کے لیے اجتماعیت کی اساس نظریہ ہے۔وہ اس حوالے سے مذہب اور وطن کو متضاد بلکہ متصادم سمجھتے تھے:
جو پیرہن اس کا ہے،وہ مذہب کا کفن ہے
تو کیا کسی کاحق پر ہونا،اس کی مذہبی شناخت سے طے کیا جائے گا؟اگر ایک وطن نظریے کی بنیاد پر وجود میں آتاہے تو کیااس کے ساتھ وفاداری کے لیے یہ کافی ہے ؟کیا یہ شناخت خود حق و باطل کا پیمانہ ہے؟اگر پاکستان میں کوئی آد می یہ کہتا ہے کہ وہ مذہب کو ریاست کی بنیاد ماننے پر آمادہ نہیں یا فلاں معاملے میں ریاست کے کردار کو درست نہیں سمجھتا تو کیا اس کی حب الوطنی مشکوک ہے؟کسی نزاعی معاملے میں اگر وہ اپنی ریاست کے مؤقف کو غلط کہتا ہے تو کیا وہ غیر محبِ وطن ہے؟فرض کیجیے کہ کوئی پاکستانی بھارت میں یہ کہتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں مسلح جدو جہداس کے خیال میں درست نہیںتو کیااس کی رائے کو محض ایک سیاسی موقف سمجھتے ہوئے،اس کی حب الوطنی پر کو ئی سوال اٹھانا چاہیے؟
میں اس بات کو مزید آگے بڑھاتا ہوں۔ایک سعودی یا ایرانی شہری ،اگر شام میں اپنے ملک کے کردار پر نقد کرتااور اسے درست نہیں کہتا توکیا اسے محبِ وطن نہیں سمجھا جائے گا؟باکسرمحمد علی نے جب ویت نام میں امریکی اقدام کو غلط کہا تو کیا اس لمحے وہ محبِ وطن نہیں تھا؟نوم چومسکی جب امریکہ کو ایک بدقماش(rogue)ملک سمجھتے ہیں توکیا وہ محبِ وطن نہیں ہوتے؛ ہمارے وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ وہ پہلے مسلمان اور پھر پاکستانی ہیں۔یہ جملہ کیا حب الوطنی کے خلاف سمجھا جا ئے گا؟میں ان سوالات پر غور کرتا ہوں کیونکہ آئے دن مجھے اْن کا سامنا رہتاہے۔لوگ دوسروں کے بارے میں اسی حوالے سے رائے قائم کرتے اور ان پر کوئی نہ کوئی لیبل چسپاں کر تے رہتے ہیں۔کیا مجھے ان سے اتفاق کر نا چاہیے ؟
میرا خیال ہے کہ ہر سوچنے سمجھنے والے آدمی کوان سوالات کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔خاص طور پر جب وہ ٹی وی ٹاک شوز میں پاکستان اور بھارت کے اہلِ دانش کو اپنے اپنے ملک کا مقدمہ لڑتے دیکھتا ہوگا۔ان سولات کا دائرہ صرف وطن تک محدود نہیں ہے۔یہ ہم مذہبوں سے متعلق بھی اٹھتے ہیں۔کیا مسلمان ہونے کا مطلب یہ ہے کہ میں ہر جگہ اہلِ اسلام کاساتھ دوں؟کیا مسیحی ہونے کے لیے لازم ہے کہ مسیحیت سے وابستہ افراد کی بات کو ہمیشہ درست کہا جا ئے؟میرا خیال ہے کہ ان سوالات کا تعلق ہمارے ورلڈ ویوسے ہے۔دوسرے لفظوں میں خیر و شر کے باب میں ہمار ے ماخذ سے ہے۔ہم اس باب میں الہامی روایت کو حجت مانتے ہیں یا اس کی بنیاد ہمارے مشاہدے اور تجربے پر ہے؟
کیااس کا ماخذ ہمارااجتماعی مفاد ہے ؟مثال کے طور پر میں ایک بر طانوی یا امریکی شہری ہوں۔میرے ملک نے محض سنی سنائی بات پر عراق پر حملہ کردیا۔لاکھوں انسان مار دیے اور دنیا کو تہہ و بالا کردیا۔بارہ سال بعد میرا اس وقت کا حکمران اعتراف کرتا ہے کہ یہ غلط ہوا۔تاہم اس سے میرے ملک کو فائدہ پہنچا۔میرے حکمران نے کسی دوسرے ملک کے وسائل پر قبضہ کر کے،اپنے ملک کو خوشحال بنا دیا۔ میرے ملک کا عام شہری زیادہ محفوظ ہوگیا۔کیا یہ بات میرے اطمینان کے لیے کافی ہونی چاہیے ،قطع نظر اس کے کہ اس کے لیے کتنے بے گناہ مار ڈالے گئے؟کیاکسی موقف کو اختیار کر نے کے لیے داخلی اطمینان کی کوئی اہمیت ہے؟یہ ضمیر کیا ہوتاہے جو ہمیں روک ٹوک کرتاہے؟یہ سب انسانوں میں ایک یامختلف طرح سے بروئے کارآتا ہے؟ کبھی کبھی ہم اجتماعی ضمیر کا ذکر بھی سنتے ہیں۔یہ کیا ہو تا ہے؟
میں الہامی روایت پر یقین رکھتا ہوں۔میرے تصورِ خرو شر کی بنیاداس الہام پر ہے جو اللہ کے رسول لے کر آتے ہیں۔میرے نزدیک آج دنیا میں اس کا سب سے مستند ماخذ سیدنا محمد ﷺ کی ذات ِ مبارکہ ہے۔ان کی معرفت ،الہام کی جو روایت مجھ تک پہنچی ہے،وہ قرآن مجید ہے یا انبیا ء کاوہ ورثہ، جسے آپﷺ نے اپنی تجدید،تصویب اور اضافے کے ساتھ انسانوں تک پہنچا دیا۔اسے ہم سنت کہتے ہیں۔آپﷺ سے پہلے سیدنا ابراہیم ؑنے اس روایت کی تجدید فرمائی اور اپنی سند کے ساتھ اسے آگے بڑھایا۔سید نا محمدﷺ نے بتایا کہ وہ اسی ملتِ ابراہیمی کا تسلسل ہیں۔آپ چونکہ اس الہامی روایت کی آخری کڑی ہیں ،اس لیے اب آپ ہی روایت کا تنہا مستند ماخذ اورسندہیں۔میں چونکہ آپﷺ کو الہامی روایت میں حجت سمجھتا ہوں،اس لیے خیرو شر کو بھی آپ کے دیے ہوئے دین سے اخذ کرتا ہوں۔
یہ روایت مجھے سکھاتی ہے کہ انسان کے خالق نے خیر وشر کو انسان میں الہام کردیا ہے۔یہ شعوراس کے وجودمیں ایسے ہی سمو دیا گیاہے جیسے دیکھنے یا سوچنے کی صلاحیت اس کی بناوٹ کا حصہ(inbuilt) ہے۔اس شعور کی تائید انسان کی عقل کرتی ہے۔اس کی یاد دہانی پیغمبروں کے ذریعے کرائی جاتی ہے۔اسی شعور کو ہم ضمیر بھی کہتے ہیں اور یہ سب انسانوں میں ایک طرح کا ہوتا ہے۔اس سے میں نے یہ بھی جانا ہے کہ دنیا کی کوئی وابستگی خیر اور شر کا تعین نہیں کرتی۔نہ وطن نہ مذہب۔نہ رشتہ نہ زبان۔الہامی روایت جسے خیر کہتی ہے، اسے خیر مانا جائے گا، چاہے اس کا صدور کسی ملک کے شہری یا کسی مذہب کے ماننے والے سے ہو۔یہی معاملہ شر کا ہے۔مثال کے طور پر یہ روایت مجھے بتاتی ہے کہ انسانی جان کی قدرو قیمت کیا ہے۔ایک انسان کی جان لینا گویا پوری انسانیت کی جان لینا ہے۔یہ فعل قابلِ مذمت و تعزیر ہے۔ یہ بات غیر اہم ہے کہ قاتل کا تعلق کس مذہب سے ہے۔جھوٹ بولنا اور دھوکہ دینا، اس روایت میں قابلِ قبول نہیں۔اب اگر یہ فعل میرا ملک سفارت کاری کے نام پر روا رکھتا ہے تو میں اسے قبول نہیں کر سکتا۔حب الوطنی کا یہ مفہوم میرے لیے قابلِ قبول نہیں کہ میں ریاست کے مفاد کے لیے اپنے خیرو شر کے پیمانے کو ایک طرف رکھ دوں۔
تاہم یہ معاملہ وہاں ہوتاہے جہاں خیر و شر کے باب میں کوئی سوال اٹھتا ہے۔جہاں ایسانہیں، وہاں ایک ہی اصول ہے:وطن سے محبت اور اس کی عصبیت فطری ہے، جیسے والدین سے یا بچوں سے محبت۔ملک کی ترقی کی خواہش اور اس کی حفاظت کے لیے جان تک دینے کے لیے آ مادگی بھی اسی شعور کا حصہ ہے جو مجھے الہام کیا گیا ہے۔تاہم جہاں حق کی تائید میں والدین اور بچوں کی محبت اور مفاد کومانع نہیں ہونا چاہیے وہاںو طن کی محبت اور مفاد کو بھی حائل نہیں ہو نا چاہیے۔ میرے دل میں کلکرنی صاحب کے لیے عزت ہے۔انہوں نے اپنے ضمیر کی آوازکو سنا اور اس پر لبیک کہا۔وہ سیاہ رو ہوکر بھی سرخ رو ہوئے۔تاہم قائد اعظم اور گاندھی جی کے افکارایک ساتھ کیسے امن کی اساس بن سکتے ہیں،کلکرنی جی کا یہ مقدمہ ایک بحث کا متقاضی ہے جسے کسی دوسرے کالم کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved