زلزلہ متاثرین تک امداد نہ پہنچنے
پر دُکھ ہے: نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''زلزلہ متاثرین تک امداد نہ پہنچنے پر دُکھ ہے‘‘اور یہ دُکھ مجھے اس وقت پہنچایا گیا ہے جب ابھی اوباما صاحب سے ملاقات کی سرشاری بھی نہیں اتری تھی اور اگر قدرت زلزلہ کوئی دس دن بعد بھیج دیتی تو اس کا کیا بگڑتا تھا‘ اللہ تعالیٰ کو اپنے نیک بندوں کے جذبات کا کچھ تو خیال رکھنا چاہیے؛ چنانچہ میں دُکھ کا اظہار ہی کر سکتا ہوں‘ جبکہ متاثرین کو برف اور سرد ہوائوں سے لُطف اندوز ہونا چاہیے کہ اس نعمت کا مزہ سیاح ہی بتا سکتے ہیں اور میرے خلاف نعرے لگانے والے یہ بتائیں کہ کیا یہ زلزلہ میں نے بھیجا ہے؟ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''متاثرین کو دوبارہ آباد کریں گے‘‘ اگرچہ 2005ء والے زلزلہ متاثرین دوبارہ آباد ہونے کا ابھی خواب ہی دیکھ رہے ہیں۔ لیکن مطمئن رہیں کہ یہ سب اللہ میاں کے کام ہیں‘ بندہ بشر کیا کر سکتا ہے‘ جبکہ میں نے فوری طور پر اظہار افسوس بھی کردیا ہے اور متاثرین کو آباد کرنے کے سلسلے میں لفظ ''گے‘‘ کا جو استعمال کیا گیا ہے‘ اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
دہشت گردی اور توانائی بحران کا خاتمہ
ہماری اولین ترجیح ہے: شہبازشریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''دہشت گردی اور توانائی بحران کا خاتمہ ہماری اولین ترجیح ہے‘‘ جبکہ ہماری ہر ترجیح ماشاء اللہ اولین ہی ہوتی ہے اور اب تو ان کی تعداد اس قدر بڑھ گئی ہے کہ ان کو شمار کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے‘ لیکن گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان ترجیحات کی تعداد کا صحیح اندازہ لگانا بھی ہماری اولین ترجیح قرار پا چکی ہے‘ اس لیے معترضیں کے منہ اب بند ہو جانے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ ''نیشنل ایکشن پلان پر موثر عمل درآمد سے دہشت گردی کی کمرتوڑ دی گئی‘‘ اگرچہ یہ پلان بھی اللہ توکل ہی چل رہا ہے کیونکہ اس سلسلے میں ابھی کئی بنیادی کام کرنا باقی ہیں‘ جبکہ ان کاموں کو بھی اولین ترجیحات میں شامل کرلیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف بھرپور کارروائی جاری ہے‘‘ البتہ کالعدم تنظیمیں ابھی تک اسی طرح موجیں مان رہی ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے نام ہی بدل لیے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی رسی خود ہی دراز کی ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے کاموں میں دخل دینے والے ہم کون ہوتے ہیں؟ آپ اگلے روز لاہور میں ترکی کے قومی دن کے موقع پر خطاب کررہے تھے۔
ایم کیو ایم سے ناراض ہوں‘ انہوں
نے ثالث بنایا مگر قدر نہیں کی: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''ایم کیو ایم والوں سے ناراض ہوں‘ انہوں نے ثالث بنایا لیکن قدر نہیں کی‘‘ جبکہ میں نے ان کا کام بالکل مفت میں کرنا تھا حالانکہ مفت تو باپ کا کام بھی نہیں کرنا چاہیے کہ حق الخدمت ہر شخص کا حق ہے اور مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خُشک ہونے سے پہلے ادا کرنی چاہیے‘ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ساری قوم کو مفت بری کی عادت پڑ چکی ہے‘ اس لیے اگر وہ میری ناراضی دور کرنا چاہتے ہیں تو اس کا نسخہ حکومت سے پوچھ سکتے ہیں جو میری ناراضیاں دور کرتی رہتی ہے‘ کیونکہ ہر آدمی کے ساتھ پیٹ تو لگا ہوتا ہے اور میرا پیٹ اگر قدرے بڑا ہے تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ میری ورزش کافی عرصے سے چھٹی ہوئی ہے کیونکہ ضروری اور مفید کاموں سے فرصت ہی نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ ''ایم کیو ایم والوں کو ثالث کی قدر اور حیثیت معلوم نہیں‘‘ حالانکہ میری قدر اور حیثیت تو حکومت سمیت سب کو معلوم ہے لیکن کوئی بات نہیں‘ بروزِحشر ان کا دامن گیر ہوں گا‘ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کر رہے تھے۔
یک طرفہ...؟
آصف علی زرداری‘ سید خورشید احمد شاہ اور بیرسٹر اعتزاز احسن سمیت پی پی پی کے جملہ اکابرین اس پر سراپا احتجاج ہیں کہ احتساب صرف پیپلزپارٹی کا ہو رہا ہے اور حکمران پارٹی کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ اعتزاز احسن نے اپنے تازہ بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ ایف آئی اے اور نیب کو میاں نوازشریف کے اثاثوں کی بھی خبر لینی چاہیے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ حضرات یہ نہیں کہتے کہ ان کا احتساب غلط ہو رہا ہے بلکہ ان کا سارا زور اس بات پر ہے کہ حکمران پارٹی کو بھی اس میں شامل کرکے کم از کم حساب تو برابر رکھا جائے۔ اگرچہ اس ترجیحی سلوک کی کچھ مثالیں سطح پر نظر بھی آئی ہیں‘ مثلاً آج کل نیب والوں کا سابق سربراہ اوقاف آصف ہاشمی پر انٹ بھخا ہوا ہے۔ پہلے تو ان کی کرپشن کی کہانیاں بیان کی گئیں اور جب کچھ نہ ملا تو اب من پسند لوگوں کو نوکریاں دینے کے مسئلے کی چھان بین کی جا رہی ہے؛ چنانچہ اگر تو انہوں نے گیلانی اینڈ کمپنی اور سندھ حکومت کی طرح پیسے لے کر یہ نوکریاں بانٹی ہیں تو ضرور کارروائی کریں ورنہ بصورت دیگر تو یہ کوئی ایسا جرم نہیں ہے کہ اپنے جاننے والے مستحق چند لوگوں کو نوکریاں دے دی جائیں‘ جبکہ سابق اور موجودہ حکومت نے بالخصوص اقرباء پروری کا ایک باقاعدہ ریکارڈ قائم کر رکھا ہے۔ آصف ہاشمی ایک کھاتے پیتے گھرانے کے چشم و چراغ ہیں اور جو لوگ انہیں قریب سے جانتے ہیں اُنہیں خوب معلوم ہے کہ وہ ایک صاف شفاف آدمی ہیں۔
اور اب ابرار احمد کی یہ خوبصورت نظم:
ایسا بھی کیا
نہیں کچھ نہیں‘ خیر ہے... ایسا ہوتا ہے... آنکھیں مناظر سے ہٹتی ہیں... مرکز بدلتی ہیں... اور رات دن... جاگتی جو رہی ہیں... انہیں نیند گھیرے میں لیتی ہے... معدوم ہوتی ہوئی روشنی... پھر کسے کھینچتی ہے؟... کسی کو بھی دکھتا نہیں... کیا ہوا تھا کبھی... کیا رہا تھا کبھی... مناظر کا کیا ہے... ابھی سامنے ہیں... ابھی اوٹ میں ہیں... تسلسل ہے‘ جس کی کڑی ٹوٹتی ہے... تو ہم چوٹ کھا کر پلٹتے ہیں... اپنی طرف... اور مٹی کی تاریکیوں میں بھٹکتے ہیں... جب... اور آنکھیں چمکتی... نئی زندگی سے نمی جوڑتی... آگے بڑھتی ہیں... جن میں دبی مضطرب آگ ہو... منزلوں کے ہیولے ہوں چاروں طرف... ان کو بڑھنا تو ہے... آگے جانا تو ہے...تو پھر یُوں کرو...اپنی گزری مسافت کے رستے گنو... یاد کرکے انہیں... جو درختوں کی صورت‘ تمہارے لیے... راستوں میں رہے... اور ڈھونڈو وہ آنکھیں... کہ تم جن کے خوابوں کی اُنگلی پکڑ کر... یہاں تک چلے... خواب ہونے لگے۔... بیتی راتوں کا اک بے نہایت قرینہ ہے... اندر ہی اندر ... بہت دور تک سے... نیند میں خوش خرامی کرو... خود کلامی کرو... خیر ہے‘ ایسا ہوتا ہے... ہوتا رہے گا... تو پھر... ٹھیک ہے یار... ایسا بھی کیا ہے۔!
آج کا مطلع
اُس کو آنکھوں میں گھر بنا دیا ہے
اور‘ بارِ دگر بنا دیا ہے