تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     31-10-2015

آیاتِ الٰہی

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ''ہم عنقریب ان کواَطرافِ عالم میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے اورخود اُن کی اپنی ذات میں حتیٰ کہ اُن پرواضح ہوجائے گا کہ یہ قرآن حق ہے ،کیا اُن کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ آپ کا رب ہرچیز پر گواہ ہے، سنو!بیشک اُن کو اپنے رب کے حضور حاضر ہونے کے بارے میں شک ہے ،سنو!بیشک وہ ہر چیز پر محیط ہے ‘‘(حمٓ السجدہ:53-54)قرآن مجید کی اِن آیاتِ مبارکہ سے واضح ہواکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کائنات کے اِس تکوینی نظام میں اپنی آیات اپنے بندوں کو دکھاتارہتاہے اور انسان کا وجود بجائے خود اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک شاہکار ہے ،اِسی لیے قرآن نے انسان کے اپنے وجود کے اندر آیات کو ''اَنفُس‘‘ سے تعبیر کیا اور انسانی وجود سے باہر کی آیات کو'' آفاق‘‘ سے تعبیر کیا۔آیت کے معنیٰ نشانی اور علامت کے ہیں، یعنی کائنات میں پھیلی ہوئی یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ کی بے پایاں قدرت کی دلیل ہیں ۔اِسی لیے آیاتِ تذکیر بھی ہیں ،آیاتِ وعدووعید بھی ہیں اورآیاتِ تنبیہات بھی ہیں ۔اِن آیاتِ تنبیہات میں سے ایک زلزلہ ہے ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے : '' اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرتے رہاکرو ،بیشک قیامت کا زلزلہ بہت سنگین چیز ہے ،جس دن تم اس کو دیکھوگے ،ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو فراموش کردے گی اور ہر حاملہ کا حمل ساقط ہوجائے گا اور لوگ تم کو مدہوش نظر آئیں گے ،حالانکہ وہ مدہوش نہیں ہوںگے ،لیکن اللہ کا عذاب بہت سخت ہے‘‘، (الحج:1-2)
سورۃ الزلزال میں ارشاد فرمایا: '' جب زمین شدت سے ہلادی جائے گی اور زمین اپنا تمام بوجھ باہر نکال دے گی اورانسان کہے گا : اسے کیاہوا ،اُس دن زمین (اپنے سینے میں مستور ) تمام خبریں بیان کردے گی ،اُس دن لوگ گروہ درگروہ نکلیں گے تاکہ انہیں اُن کے اَعمال دکھا دیئے جائیں ،سو جو ذرہ بھر نیکی کرے گا ،وہ اُس کا صلہ دیکھ لے گا اورجو ذرہ بھر برائی کرے گا، وہ اُن کا نتیجہ دیکھ لے گا‘‘(الزِّلزَال:1-8)
الغرض زلزلہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کی عظیم نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے اور قیامت بھی ایک عظیم بھونچال کی صورت میں آئے گی ،سو زلزلے کے موقع پر قیامت کی یاد کو اپنے ذہنوں میں تازہ کرنا چاہیے ۔ماہرینِ ارضیات زلزلے کا مطالعہ تکوینی اسباب کے تحت کرتے ہیں کہ زمین کی ساخت اور ترکیب میں کون سے ایسے عوامل اور محرکات ہیں جن کے رونماہونے کے سبب زمین کا توازن بگڑ جاتاہے اور زلزلہ آتاہے ۔آج سائنس نے کافی ترقی کرلی ہے اور زمین کے بھونچال اور اِرتعاش کو ناپنے کے لیے ایک آلہ اور سائنسی معیار ایجاد کرلیاگیاہے ، جسے ریکٹر سکیل کہتے ہیں۔ زلزلے کی شدّت کو ناپنے کا یہ آلہ یا فارمولا ڈاکٹر چارلس ایف ریکٹر نے کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں طویل تحقیق کے بعد ایجاد کیا اور پھریہ پیمانہ اُنہی کے نام سے منسوب ہوا اور تاحال زلزلہ پیمائی کے لیے یہی معیاری پیمانہ سمجھاجاتاہے ۔یہ آلہ ریاضی کی ایک ذیلی شاخ ''لوگارتھم‘‘کے اصولوں پر کام کرتاہے ، جس میں زمین کے دس دفعہ کے ارتعاش کو چھ گنا جاتاہے ۔ ساڑھے تین منٹ دورانیے اور سات سے اوپر پیمائش والے زلزلے کو تباہ کن قرار دیاجاتاہے ۔ زلزلے کا آغاز گڑگراہٹ سے ہوتاہے اور تھوڑی دیر بعد یہ تھر تھراہٹ یعنی زمینی ارتعاش میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔
ا س آلے کے ذریعے یہ بھی معلوم کرلیاجاتاہے کہ زلزلے کامرکز کہاں تھا اور کتنی گہرائی میں تھا ‘لیکن ابھی تک انسان نے یہ قدرت حاصل نہیں کی کہ قبل از وقت پیشین گوئی کی جاسکے کہ زلزلہ کب آئے گا ، کس مقام پر آئے گا اور کتنی طاقت کا ہوگا تاکہ کم ازکم ممکنہ جانی نقصان سے حتی الامکان بچاجاسکے ۔ جسے سائنسی زبان میں سونامی کہتے ہیں ،دراصل وہ بھی سمندر کے اندر زمینی زلزلہ ہی ہوتاہے ، جس کی بناپر سمندر کی موجیں بے انتہا بلند ہوتی ہیں اور بعض صورتوں میں ساحلی علاقوں میں تباہی مچادیتی ہیں ۔قدرت غالب ہے اور انسانی علم نے ابھی اتنی ترقی نہیں کی کہ کائنات میں رونماہونے والی بہت سی چیزوں کا رُخ موڑ سکے یا اُن کے آگے بند باندھ سکے اور ممکنہ تباہی سے بچاؤ کی تدبیر کرسکے ۔ 
یقیناً انسان کے تجسُّس اور تحقیق کا سلسلہ جاری رہے گا اور مستقبل میں کیارونماہوتاہے ،اس کا حقیقی علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے ۔ اسلام تحقیق ،تجسُّس اور علمی ارتقاکی نفی نہیں کرتا بلکہ حوصلہ افزائی کرتاہے اور سائنسی تحقیقات سے انسانیت کو جو فیض ملتاہے یاممکنہ خطرات کی پیش بندی کی جاسکتی ہے یا مابعد تلافی کی کوئی صورت اختیار کی جاسکتی ہے ، اسلام اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتاہے‘لیکن اسلام یہ چاہتاہے کہ انسان اَنفُس وآفاق میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی نشانیوں سے عبرت حاصل کرے ، اس کی غالب قدرت کے سامنے اپنے عجز کو تسلیم کرے اور اپنی عاقبت کو سنوارنے کی فکر کرے اور یہ سمجھے کہ جو انسان آندھی ، سیلاب ، طوفان اورسونامی کا نہ رُخ موڑ سکتا ہے اور نہ ہی اُس کے آگے بند باندھ سکتاہے،وہ اپنی موت یاقیامت کو کیسے ٹال سکتاہے ۔یہی وجہ سے کہ قرآن نے قیامت کو ''الحاقّہ‘‘ سے تعبیر کیا یعنی جس کا قائم ہونا حق ہے ،ثابت ہے اور اِسے آکرہی رہناہے ، کسی کی مجال نہیں کہ اسے ٹال دے ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ''بیشک جب اللہ کا مُقررہ وقت آجاتا ہے تو وہ (کسی بھی صورت میں) مؤخر نہیں ہوتا ، کاش کہ تم اس حقیقت کو جان لیتے ‘‘(نوح:4)
رسول اللہ ﷺ نے یہی شعار خسوف و کسوف یعنی چاند گرہن اور سورج گرہن کے بارے میں تعلیم فرمایا۔اہلِ عرب کا عقیدہ تھاکہ کسی بڑے آدمی کی پیدائش یاموت کے سبب چاند گرہن یا سورج گرہن کا وقوع ہوتاہے اورعہدِ رسالت مآب ﷺ میں آپ ﷺ کے صاحبزادے کا انتقال ہوا اور اتفاق سے اُنہی ایام میں سورج گرہن ہوا،تو لوگوں نے سمجھا کہ رسول اللہ ﷺ کے صاحبزادے کی وفات کے سبب یہ واقعہ رونماہواہے ۔آپ ﷺ نے اس نظریے کا رَد کرتے ہوئے فرمایا : ''بیشک سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں اور سورج گرہن یا چاند گرہن کسی کی موت یا پیدائش کے سبب وقوع پذیر نہیں ہوتے ، سو جب تم یہ دونوں نشانیاں دیکھو تو اللہ کی کبریائی بیان کرو ، اللہ سے دعاکرو ، نماز پڑھو اور صدقہ دو‘‘(صحیح مسلم:2087)
پس مومن کو یہ سوچ کر لرزجانا چاہیے کہ یہ زلزلہ قیامت کا بھی تو ہوسکتاتھا کہ جس کے بعد توبہ کی مہلت بھی نہیں ملتی ، سوہمیں قدرت کی جانب سے ملنے والی اس مہلت کو غنیمت جانتے ہوئے مکمل حضوریٔ قلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اپنے تمام گناہوں سے توبہ کرنی چاہیے ۔ اور اللہ تعالیٰ کا شکر بھی بجالانا چاہیے کہ اُس نے اس تباہ کن آفت سے محفوظ رکھااور اپنا امان عطافرمایا۔اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے اُن بھائیوں اور اہلِ وطن کے دکھوں کے مداوے، تکالیف کے ازالے اور بحالی کے لیے ہرممکن تعاون کرنی چاہیے ۔ اس موقع پر ہمیں اس حدیث کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھنا چاہیے :''تم میں سے کوئی شخص کامل مومن نہیں ہوسکتا ،تاوقتیکہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند کرے جو اپنے لیے کرتاہے ‘‘(صحیح بخاری:13)فارسی میں کہتے ہیں : آنچہ بر خودنہ پسندی بر دیگراں مپسند ۔
2005ء کے ہزارہ اور آزادکشمیر کے زلزلے میں ہم نے دیکھا کہ لوگوں نے اپنی استعمال شدہ ،ناقص اور ناپسندیدہ اشیاء زلزلے کے متاثرین کے لیے دیں، وہ اُن کے لیے قابلِ استعمال نہیں تھیں ، اُن کی وہاں ترسیل پر ہزاروں روپے خرچ آئے اور پھر وہ سامان ہم نے پہاڑوں میںبکھراہوا دیکھا ۔لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ زلزلہ زدگان کے لیے دی جانے والی اشیاء کے لیے معیار مقرر کرے ، استعمال کے کپڑے نئے ہوں ،اشیاء خوراک تازہ اور قابلِ استعمال ہوں اور دوائیں زائدالمیعاد (Expired)نہ ہوں۔اور اس طرح کا انتظام ہو کہ ایک مرکزی انتظام کے تحت اشیاء چیک کرکے متاثرین تک پہنچائی جائیں ۔ اِسی طرح اشیائے خوراک اور دوائیں قریب کی مارکیٹ سے بھی خرید کر فراہم کی جاسکتی ہیں ۔اب جب کہ سائنسی اعتبار سے یہ بات طے ہوچکی ہے کہ ہمارے علاقے ، بالخصوص خیبر پختونخوا، آزادکشمیر اور شمالی علاقہ جات جو زلزلے کے اعتبار سے فالٹ رینج میں آتے ہیں ، وہاں تعمیرات کے لیے لوگوں کی فنی معاونت کی جائے تاکہ ممکنہ حدتک عمارات زلزلے سے محفوظ رہیں ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved