انہیں مکمل یقین تھا کہ امریکہ جانے سے پہلے لاہور کے حلقہ این اے 122 کے ضمنی انتخاب میں ان کا امیدوار تحریک انصاف کے امیدوار کو کم از کم تیس ہزار ووٹوں سے شکست دے چکا ہو گا، اس طرح امریکی انتظامیہ پر واضح ہو جائے گا کہ ان کی دعوت پر ملاقات کے لیے آنے والا پاکستانی وزیر اعظم اپنے عوام کی بھاری اکثریت کا نمائندہ ہے‘ اور مسلم لیگ نون واحد جماعت ہے جسے عوام کی دو تہائی اکثریت کا بھرپور اعتماد حاصل ہے‘ لیکن سب کچھ توقع کے الٹ ہو گیا۔ لاہور کے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے نتائج آنے پر مسلم لیگ نون کی قیادت سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ پولیس، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے لے کر سپیشل برانچ تک کو بروئے کار لانے کے باوجود اس ضمنی انتخاب کے نتائج حسب منشا حاصل نہ کیے جا سکے۔
بھاری بھرکم مینڈیٹ لے کر امریکہ روانہ ہونے کا نشہ ادھورا رہ جانے پر فوراً پلان بی پر عمل کرنے کے لیے اپنے ''بندوں‘‘ کی مدد حاصل کی گئی‘ جنہوں نے کمال مہارت سے ایسا سروے کرایا اور ایسے نتائج دیے جن کے مطابق ن لیگ کی مقبولیت کے تمام سابق ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ اس کے مطابق سب سے زیادہ مقبولیت میاں نواز شریف کو حاصل ہے۔ میاں شہباز شریف دوسرے اور جنرل راحیل شریف تیسرے نمبر پر آئے۔کمپنی بہادر نے میثاق جمہوریت کی پاسداری کرتے ہوئے اس سروے میں آصف علی زرداری کی مقبولیت میں
27 فیصد کا اضافہ کر دیا۔ انہیں سمجھایا گیا کہ آپ برا نہ منائیں‘ آپ کی مقبولیت اس سے زیادہ نہیں بڑھائی جا سکتی تھی‘ کیونکہ ایسا کیا جاتا تو پھر سروے کے نتائج کوئی بھی تسلیم نہ کرتا۔ لہٰذا این اے 122 میں صرف 849 ووٹ حاصل کرنے والی پارٹی کے سربراہ کے لیے اتنی مقبولیت بھی اطمینان کا باعث ہونی چاہیے۔ شاید زرداری صاحب نے اتنا ضرور کہا ہو گا کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کی 75 فیصد اور میاں شہباز شریف کی 73 فیصد مقبولیت میں سے پانچ پانچ فیصد میرے کھاتے میں ڈلوا دیے جاتے‘ اور مجھے جنرل صاحب کے برا بر کھڑا کر دیا جاتا تو کسی کا کیا بگڑ جاتا!
کہتے ہیں، جو کچھ نہیں کرتے وہ کمال کرتے ہیں اور حیران کن کمال کرنے والوں کا کمال یہ ہے کہ 1947ء میں کرائے گئے سروے کے مطابق مسلم لیگ کے سربراہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی مقبولیت 73 فیصد تھی، لیکن آج کی سروے کمپنی کے مطابق مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں محمد نواز شریف کی مقبولیت قائد اعظم سے بھی دو فیصد زیادہ ہو کر 75 فیصد ہو چکی ہے۔ ماشااللہ پاکستان میں اس وقت ''سرکار‘‘ کی گاہے بگاہے مدد کرنے کے لیے دو عدد سروے کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ ایک کی عمر تیس سال سے زیادہ ہو چکی ہے لیکن دوسری کمپنی عدلیہ کی آزادی کا مشن پورا کرنے کے لیے 2007ء میں سامنے لائی گئی تھی‘ جس کے سربراہ جب بھی کسی ٹی وی چینل پر نمودار ہوتے ہیں تو ان کے اولین فرائض میں یہ شامل ہو جاتا ہے کہ وہ تحریک انصاف اور عمران خان کی اچھی طرح جھاڑ پونچھ کریں۔ ان کے کرائے گئے اب تک کے سرویز کی حقیقت جاننا مقصود ہو تو اس کے لیے ملک بھر میں اب تک ہونے والے تمام سرویز کی رپورٹس کو سامنے رکھنا ہو گا۔ یہ رپورٹس ایسی ہیں کہ اچھا بھلا شخص انہیں پڑھ کر لوٹ پوٹ ہونے لگتا ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، مئی 2013ء کے عام انتخابات کی انتخابی مہم کے دوران ان کے سروے رپورٹس کی ایک جھلک دیکھ کر ہی بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہر بار دال میں سب کالا ہی کالا کیوں دکھائی دینے لگتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد کے سفارتی حلقوں میں اس رپورٹ کی اشاعت کے ساتھ ہی قہقہوں کا ایک نہ رکنے والے سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس رپورٹ پر شادیانے بجانے والے اس قدر معصوم بن جاتے ہیں جیسے وہ جانتے ہی نہ ہوں کہ ان کی حقیقی مقبولیت کتنی ہے۔ روزنامہ دنیا کے رپورٹر حسن رضا اس سروے کمپنی کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوڑ چکے ہیں۔
مئی 2013ء کے انتخابات سے پہلے اس نیم سرکاری سروے کمپنی نے خیبر پختونخوا کے انتخابی جائزے کی رپورٹ جاری کرتے ہوئے لکھا تھا: ''کے پی کے میں مسلم لیگ نواز کو 35 فیصد عوام کی سپورٹ حاصل ہے، مولانا فضل الرحمان کی جمعیت علمائے اسلام کو 19 فیصد اور عمران خان کی تحریک انصاف کو اس صوبے کے عوام کی صرف11 فیصد سپورٹ حاصل ہے۔ لیکن جب کے پی کے میں انتخابی نتائج سامنے آٓئے تو نواز لیگ کا کہیں نام و نشان نہ تھا اور عمران خان کی تحریک انصاف کا طوطی سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ انتخابی نتائج سروے رپورٹ کا منہ چڑا رہے تھے کیونکہ بہت سے مسلم لیگی امیدواروں کی ضمانتیں تک ضبط ہو چکی تھیں۔ اب اسی نیم سرکاری کمپنی نے میاں محمد نواز شریف کو قائد اعظم محمد علی جناحؒ سے بھی زیادہ مقبول لیڈر بنا کر پیش کر دیا ہے۔
میاں محمد نواز شریف کو ملک کا سب سے مقبول لیڈر ثابت کرنے والی کمپنی نے لاہور کے حلقہ این اے 122 میں ہونے والے ضمنی انتخاب سے ذرا پہلے اپنی سروے رپورٹ کو بریکنگ نیوز کی صورت میں ہر ووٹر کے ذہن میں بٹھانے کی بھرپور کوشش کرتے ہوئے لکھا: ''مسلم لیگ نواز کے امیدوار سردار ایاز صادق کی مقبولیت اس حلقہ میں 53 فیصد جبکہ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف کے امیدوار علیم خان کی مقبولیت 37 فیصد ہے‘‘۔ لیکن ہزار کوششوں کے بعد اس حلقے کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ اس سروے کی رپورٹس پر سیاہی پھیرتے ہوئے اسی ضمنی انتخاب میں صوبائی حلقہ پی پی147 میں مسلم لیگ ن کے خاندانی امیدوار میاں محسن لطیف کو تحریک انصاف کے ایک عام کارکن نے شکست دے کر سروے رپورٹ کو غلط ثابت کر دیا۔
سروے ٹیم کو اگر کبھی فرصت ملے تو وہ حلقہ این اے 122 کے انتخابی نتائج کو غور سے دیکھے، وہ یہ جان کر حیران رہ جائے گی کی سردار ایاز صادق کو تحریک انصاف کے مقابلے میں صرف پانچ علاقوں کے دس منتخب پولنگ سٹیشنوں سے کامیاب کرایا گیا۔ ان میں ایک پولنگ سٹیشن حکومتی افسروں کی جی او آر کا‘ دوسرا جامعہ اشرفیہ سمیت فاضلیہ کالونی، تیسرا بستی سیدن شاہ اور باقی اچھرہ اور رحمانپورہ کے پولنگ سٹیشن ہیں۔ انہی دس پولنگ سٹیشنوں سے سردار ایاز صادق کو علیم خان پر 2500 ووٹوں کی مجموعی برتری مسلم لیگ نواز کی کامیابی کا سبب بنی۔