حق تو یہ ہے کہ ایک موٹے تازے رسالے سے فارغ ہوتے ہیں تو ایک اور پہلوان پرچہ جھُومتا جھامتا ہوا آن کھڑا ہوتا ہے جسے دیکھ کر خوشی بھی ہوتی ہے کہ‘ہمارا ادب ترقی کر رہا ہے جبکہ مناسب سائز کے سمارٹ اور معیاری رسالے گویا خواب و خیال ہو کر رہ گئے ہیں۔ سوہ پہلا گرانڈیل جریدہ ''افادہ (2)‘‘ ہے جو گوجرہ سے ہمارے شاعر دوست اذلان شاہ نکالتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ پرچہ ''نزول‘‘ کے علاوہ ہے جو بڑے سائز کے 320 صفحات کو محیط ہے؛ تاہم اس کی صحت مندی کا جواز یہ ہے کہ اس میں ہمارے محبوب و مقبول شاعر عباس تابش کا گوشبہ چھاپا گیا ہے اور جس کی قیمت 500 روپے رکھی گئی ہے۔ پچھلے دنوں انہوں نے فون پر اپنا تازہ شعر سنایا جس کا پہلا مصرعہ ٹھیک سے یاد نہیں رہا جو کچھ اس طرح سے تھا ؎
میں لفظ لفظ سے اس کو کھُرچ بھی دوں‘ پھر بھی
مرے مزاج سے رنگِ ظفرؔ نہیں جاتا
مجھے خوشی اس بات پر تھی کہ چلیے میرا رنگ کسی صحیح شاعر پر تو چڑھا ورنہ یار لوگوں نے تو اسے ٹکے ٹوکری ہی کر رکھا تھا۔
عباس تابش کی تحسین کرنے والوں میں خاکسار کے علاوہ افتخار عارف‘ خواجہ محمد زکریا‘ مرتضیٰ برلاس‘ خالد احمد‘ محمد اظہارالحق اور ڈاکٹر ضیا الحسن شامل ہیں۔ عباس تابش کی کوئی 186 غزلیں اور 11 نظمیں شامل کی گئی ہیں۔ اس کے کچھ منتخب اشعار:
پاس آئیں تو خدوخال ہوں ظاہر اپنے
خود کو لگتے ہیں کہیں دُور سے آتے ہوئے ہم
چاند بھی نائو کا ٹوٹا ہوا تختہ ہے کوئی
ڈوب جاتے ہیں جسے پار لگاتے ہوئے ہم
ڈال دیتا تھا کسی اور کے ذمے‘ ورنہ
اپنی مرضی سے میں برباد ہوا کرتا تھا
نئے سرے سے تعلق نہیں بنائیں گے ہم
جہاں سے ٹوٹ گیا تھا وہیں سے جوڑیں گے
مجھے سر پھوڑنے کے واسطے دیوار دے یارب
اگر میں بچ گیا تو میں کسی کو مار ڈالوں گا
ہم ہیں وہ ٹوٹی ہوئی کشتیوں والے تابشؔ
جو کناروں کو ملاتے ہوئے مر جاتے ہیں
میں ہوں اس شہر میں تاخیر سے آیا ہوا شخص
مجھ کو اک اور زمانے میں بڑی دیر لگی
ترے حساب سے ہم حیرتی ہی اچھے تھے
کہا نہ تھا کہ ہماری سمجھ میں آنا مت
ایک محبت اور وہ بھی ناکام محبت
لیکن اس سے کام چلایا جا سکتا ہے
اگر یونہی مجھے رکھا گیا اکیلے میں
برآمد اور کوئی اس مکان سے ہوگا
لفظ تو لفظ یہاں دھوپ نکل آتی ہے
تیری آواز کی بارش میں نہانے کے لیے
آپ نے دیکھا کہ اس کے اندر اس کے اپنے بھی کتنے رنگ ہیں! ایک بات اور یہاں لکھنا چاہتا ہوں کہ کنٹری بیوشن کے حساب سے اس کا تو پورا نمبر نکالنا چاہیے تھا جبکہ کئی ایسے جونیئر شاعر بھی موجود ہیں جن کا گوشہ چھاپنا ضروری ہوگیا ہے اور جن میں سے بیشتر کی ایڈیٹر نے نشاندہی بھی کی ہے۔ اب کچھ دوسرے شعراء کے شعر بھی سنانا چاہتا ہوں جو اس پرچے میں چھاپے گئے ہیں:
بھٹکنے والے سے ہوتی ہے طے مسافتِ عشق
جو بے خبر ہے وہی راستہ سمجھتا ہے
(قمررضا شہزاد)
اس دشت کو پہچان رہی ہیں مری آنکھیں
دیکھا ہوا لگتا ہے یہ ان دیکھا ہوا بھی
ممکن ہے کہ اس بار بھٹک جائوں سفر میں
اس بار مرے ساتھ ہوا بھی ہے‘ دیا بھی
یہ شہر فرشتوں سے بھرا رہتا ہے عامیؔ
اس شہر پہ اک خاص عنایت ہے‘ سزا بھی
(عمران عامی)
تمہیں کیا خبر یہ محبت ہے کیا
مگر تم کو اس کی ضرورت ہے کیا
کتابیں لے کے پڑھتا ہی نہیں کوئی
ہماری شاعری الماریوں میں ہے
ہمارا حال ہے جو اس قدر اچھا
ہمارا دل تری بیماریوں میں ہے
(رُستم نامیؔ )
محسوس ہو رہا ہے کہ وسعت پذیر ہوں
کچھ دن سے جھڑ رہے ہیں کنارے مرے بہت
(دلاور علی آذرؔ)
وقت کے ساتھ چلنا پڑتا ہے
اس لیے توڑ دی گھڑی میں نے
تم کو نسخہ بھی لکھ دے دوں گا
زخم تو ٹھیک سے دکھائو مجھے
دیکھو نقصان ہو گیا ہے مرا
تم یہاں اور لے کے آئو مجھے
ٹھیک ہے ہال میں جگہ کم ہے
ایسے باہر تو مت بٹھائو مجھے
یہ کوئی زندگی گزر رہی ہے
یا کوئی لفٹ میں پھنسا ہوا ہے
(ضیا مذکورؔ)
اثاثوں کے نئے حقدار پیدا ہو رہے ہیں
وصیت اس لیے جلدی لکھی جانے لگی ہے
یہ ہم نے ہی بچا رکھی ہے ویرانی‘ وگرنہ
یہاں ہر چیز استعمال کی جانے لگی ہے
(خرم آفاق)
اس کے علاوہ حمید شاہد‘ غالبہ نشتر اور غلام عباس کے مضامین ہیں اور رشید امجد‘ سمیع آہوجا‘ فرحت پروین وغیرہ کے افسانے اور گلزار‘ محمد اظہارالحق‘ شاہین عباس‘ ایوب خاور‘ یاسمین حمید‘ اقتدار جاوید‘ قاسم یعقوب اور دعا علی کی خوبصورت نظمیں اور نوید سروش اور سلیم کوثر کی نعتیں۔
آج کا مطلع
رعب دکھا کر اس کی توجہ حاصل کرنا چاہتا ہوں
مشکل کام کو اور زیادہ مشکل کرنا چاہتا ہوں