ہر کام کے تقاضے ہوا کرتے ہیں اور جو لوگ ان تقاضوں کا ادراک نہیں کرتے‘ وہ نامراد رہتے ہیں۔ تحریک انصاف اب بھی ایک پارٹی نہیں‘ بلکہ فین کلب ہے‘ اس کے رہنما اپنی ساری توانائی احتجاج اور دل کا بوجھ ہلکا کرنے میں لگا دیتے ہیں...کتھارسس میں۔ جزا و سزا کاوہاں گزر ہی نہیں۔
ایک ناکامی عارضی ہو سکتی ہے، خارجی عوامل کی پیداوار، ایک وقتی آزمائش۔ لیکن اگر ایک کے بعد دوسری بار بھی ویسی ہی شکست کا سامنا کرنا پڑے، پھر تیسری اور چوتھی بار؟ خارج میں اس کے عوامل تلاش کرنے کی بجائے آدمی کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے۔ خود احتسابی سے گزرنا چاہئے۔ مشرق کے عدیم النظیر معلّم نے یہ کہا تھا:
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں، اپنے عمل کا حساب
2013ء کے انتخابات میں اپنی ہولناک ناکامی کو تحریکِ انصاف نے شریف خاندان کا کرتب سمجھا۔ اس کے باوجود کہ نجی گفتگوئوں میں پارٹی کے لیڈر دوسرے عوامل کا ذکر کیا کرتے ۔ خود عمران خان تسلیم کرتے ہیں کہ ٹکٹوں کی تقسیم میں بہت بڑی غلطیاں ہوئیں۔ پھر اسّی فیصد پولنگ سٹیشنوں پر پولنگ ایجنٹ ہی مقرر نہ ہو سکے۔ عوامی پلیٹ فارم پر، جلسوں اور ٹی وی انٹرویوز میں دھاندلی ہی کو وہ سب سے بڑا سبب ٹھہراتے ہیں۔ جی نہیں، یہ خود فریبی ہے۔
2013ء کے الیکشن سے قبل دو طرح کے سروے ہوئے۔ ایک آئی ایس آئی اور ایم آئی کا، اس کے مطابق پی ٹی آئی 90 سیٹوں پر کامیاب رہتی۔ دوسرا پارٹی کے ہمدردوں نے کرایا اور بہت اہتمام کے ساتھ۔ کاروباری لوگوں کے ایک گروپ نے جس میں بین الاقوامی سطح کے ماہرین شامل تھے۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ اگر مزید پیش رفت نہ بھی ہو، اگر پارٹی بھر پور مہم نہ بھی چلا سکے تو 91 نشستیں یقینی ہیں۔ فوراً بعد خرابی کا آغاز ہو گیا۔ ٹکٹ بیچے اور خریدے گئے۔ ایک آدھ نہیں، جماعت کے کئی درجن لیڈروں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ اس بھدے انداز میں یہ عمل انجام پایا کہ پاکستان تو کیا، دنیا بھر کی سیاسی تاریخ میں اس کی مثال مشکل سے ملے گی۔ بڑھیا نے اپنا کاتا ہوا سوت خود ہی بکھیر ڈالا۔
الیکشن سے فوراً پہلے، جب اس ناچیز نے نشاندہی کی جسارت کی تو سمجھا گیا کہ یہ ذاتی ناراضی کا اظہار ہے۔ ایسا نہیں تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو کپتان کے ساتھ تعلقات کبھی معمول پر نہ آتے۔ اول اول وہ اس پر بگڑا ضرور کہ اس تنقید سے پارٹی کی پوزیشن متاثر ہوئی مگر بعد ازاں اس نے کبھی اشارتاً بھی ذکر نہ کیا۔ اگر وہ یہ سمجھتا کہ اس کے ساتھ میں نے زیادتی کی ہے تو کم از کم حوالے کے طور پر ہی کبھی بات کرتا۔
عام انتخابات ہی نہیں۔فوراً بعد ضمنی الیکشن میں بہت سی نشستیں کھو دی گئیں۔ میانوالی اور پشاور کے ان حلقوں میں بھی، جہاں عمران خان بھاری اکثریت سے جیتے تھے۔ پھر پے درپے آئندہ انتخابات میں بھی۔ ظاہر ہے کہ ٹکٹیں عطا کرنے کا نظام المناک حد تک ناقص تھا۔ شاہ محمودوں نے یہ کھیتی برباد کی اور سیف اللہ نیازیوں نے مگر افسوس کہ اب بھی انہی پر انحصار ہے۔ وسطی پنجاب اور پوٹھوہار میں چودھری سرور کوایک کردار سونپنے کے باوجود ، جو منہ زور گھوڑے پہ سوار ہی نہ ہوسکے۔ منڈی بہائو الدین میں اعجاز چودھری لگ بھگ ایک لاکھ ووٹ لے کر فتح یاب ہوئے تھے۔ نیا امیدوار نامزد کرنے کا وقت آیا تو شاہ محمود نے اپنے پیپلزپارٹی کے ایک پرانے ساتھی کو ترجیح دی اور اس پر ڈٹ گئے۔ اوکاڑہ میںایک بار پھر وہی غلطی دہرانے کا انہیں موقعہ دیا گیا۔ عدم تحفظ کا شکار، وہ ایک دھڑے بند آدمی ہیں۔بچوں کی طرح ضد کرنے اور بسورنے لگتے ہیں۔ اس کے باوجود ہربار ان کی بات کیوں مان لی جاتی ہے؟ یہ عمران خان کی اپنی کمزوری ہے۔
چودھری سرور نے محنت بہت کی مگر ان کا مسئلہ بھی یہ ہے کہ پارٹی لیڈروں کو وہ آسودہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک اندھا بھی دیکھ سکتا تھا کہ بلدیاتی الیکشن میں ترجیحات کا تعین ناقص ہے۔ گوجرانوالہ، لاہور اور جہلم کا میں نے جائزہ لیا اور واضح الفاظ میں ، بار بار یہ پیش گوئی کی کہ تحریک انصاف دس پندرہ فیصدسے زیادہ سیٹیں جیت نہ سکے گی۔جہلم کے بارے میں خاص طور پر کہا کہ بہترین لوگوں کو نظرانداز کرکے کمزور امیدواروں پر عنایت کی گئی ۔ گوجرانوالہ میں معاملات جب جواں سال علی اشرف کو سونپے گئے تو عرض کیا تھا کہ یہ اس کے بس کا نہیں۔ وہ ایک اچھا لڑکا ہے۔ خوش اطوار اور خوش اخلاق۔ اس کی رہائش مگر لاہور میں ہے۔ووٹروں سے کچھ زیادہ رابطہ اس کا نہیں اور سیاسی حرکیات کا بہت کم ادراک وہ رکھتا ہے۔ تنقید کرنے والوں کے جواب میں چودھری سرور کا کہنا یہ تھا کہ وہ مجبور ہیں۔ مجبور لوگوں پہ قسمت مہربان نہیں ہوا کرتی۔ظفر مندی آزاد انسانوں کی تقدیر ہے۔
اب لاہور شہر کی مثال لیجیے۔ شفقت محمود ایک مرتب اور شائستہ آدمی ہیں۔ دھڑے باز بھی نہیں۔ خودپسندی سے گریز کرتے ہیں۔ مگر وہ گھلنے ملنے والے ہرگز نہیں۔ انہوں نے کمیٹیاں بنا دیں اورمعاملہ ان پر چھوڑدیا۔ صرف اپنے حلقۂ انتخاب میں دخل دیا۔ بظاہر یہ ایک بڑا ہی معقول طرزعمل ہے‘ مگر لاہور کی اہمیت کہیں زیادہ تھی۔ نگرانی (Monitoring) کی ضرورت تھی اور اس سے زیادہ ایک تحریک برپا کرنے کی۔ اس کام کے لیے شفقت محمود ایک موزوں آدمی نہیں۔ علیم خان یہ فریضہ شاید زیادہ بہتر انداز میں انجام دے سکتے۔ آپ کو میسر لوگوں ہی سے کام لینا ہوتا ہے۔ ان سے بھی زیادہ موزوں لوگ موجود تھے‘ 2013ء کے الیکشن سے قبل جن کی حوصلہ شکنی ہوئی‘ تاآنکہ مایوس ہو کر وہ پارٹی سے الگ ہو گئے۔ مقابلہ نون لیگ کے ساتھ تھا‘ تیس برس سے جو لاہور میں الیکشن لڑتی آئی ہے۔ جس کے رہنما اس شہر کو اپنے ہاتھ پر پھیلی لکیروں کی طرح جانتے ہیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ نون لیگ کے سوا آٹھ لاکھ ووٹوں کے مقابلے میں تحریک انصاف صرف چار لاکھ نو ہزار ووٹ ہی حاصل کر سکی۔ لاہور کی اہمیت غیرمعمولی تھی اور اس میں ایک تحریک برپا کرنے کی ضرورت تھی‘ جس طرح کہ حلقہ این اے 122 میں کی گئی۔ پارٹی لیڈروں نے اس نکتے کو اہمیت دی اور نہ عمران خان نے۔ وہ اپنے ذاتی مسائل میں اُلجھے ہوئے تھے۔ کوئی فیصلہ ہی نہ کر سکے اور گھر سے باہر نہ نکلے۔ چاہیے تھا کہ اس اثنا میں اپنی اہلیہ کو وہ کوئی ذمہ داری سونپتے‘ کسی طرح مصروف کرتے اور خود گھر سے نکل کھڑے ہوتے۔ 1946ء کے انتخابات میں قائداعظم نے ممبئی میں اپنے حلقۂ انتخاب کو بہت تھوڑا سا وقت دیا۔ کبھی ریل‘ کبھی ہوائی جہاز اور کبھی اپنی بی ایم ڈبلیو گاڑی میں سوار‘ سلہٹ سے کافرستان تک وہ گھومتے پھرتے رہے۔ جس روز الیکشن کا نتیجہ نکلنا تھا‘ گھر سے بہت دور لنڈی کوتل کے ایک ریسٹ ہائوس میں وہ قیام پذیر تھے۔
تحریک انصاف کوئی انتخابی مہم موزوں افراد کو نہ سونپ سکی۔ بروقت کبھی آغاز نہ کر سکی۔ گلگت بلتستان غلام سرور خان کوسونپا گیا تو کپتان سے میں نے کہا کہ ہرگز اس کے لیے وہ موزوں نہیں۔ بھلے آدمی ہیں، دوسروں کی سنتے ہیں مگر اس علاقے کو سمجھتے وہ قطعی نہیں۔ چند ماہ بعد آزاد کشمیر کے انتخابات ہونے والے ہیں۔ ابھی سے عرض ہے کہ پختون خوا میں کشمیری مہاجروں کی نشست کے علاوہ صرف مظفرآباد شہر اور میرپور میں بیرسٹر سلطان محمود کی سیٹوں پر کامیابی کا امکان ہے۔ بیرسٹر صاحب نے 26 اکتوبر کو لندن میں بھارت کے خلاف ایک شاندار مظاہرے کی قیادت کی‘ مگر تنظیم کے آدمی وہ ہرگز نہیں۔ آزاد کشمیر میں پارٹی کو ایک مضبوط سیکرٹری جنرل کی ضرورت ہے۔
ہر کام کے تقاضے ہوا کرتے ہیں اور جو لوگ ان تقاضوں کا ادراک نہیں کرتے‘ وہ نامراد رہتے ہیں۔ تحریک انصاف اب بھی ایک پارٹی نہیں‘ بلکہ فین کلب ہے‘ اس کے رہنما اپنی ساری توانائی احتجاج اور دل کا بوجھ ہلکا کرنے میں لگا دیتے ہیں...کتھارسس میں۔ جزا و سزا کاوہاں گزر ہی نہیں۔