اس کالم کی اشاعت تک ترکی میں پارلیمانی انتخابات ہوچکے ہوںگے۔ اس وقت تک ہونے والے زیادہ تر پول سرویز کے مطابق ان کے نتائج بھی سات جون کے انتخابی نتائج سے مختلف نہیں ہیں۔ سات جون کو ہونے والے انتخابات میں کوئی جماعت بھی حکومت سازی کی پوزیشن میں نہیں تھی، چنانچہ نئے عام انتخابات کا اعلان کرنا پڑا۔ تاہم ایک بات دیکھنے میں آ رہی ہے کہ یکم نومبر کو ہونے والے عام انتخابات میں تشددکا رجحان گزشتہ انتخابات کی نسبت زیادہ ہے۔ ترک صدرطیب اردوان کے بہت سے حریف اس کی ایک وجہ یہ بتاتے ہیںکہ اُنہوں نے کردوں اور دائیں بازو کے لبرل مخالفین پر کچھ عرصہ سے یلغار کررکھی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اُن حریفوں نے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی(اے کے پی) کو تنہا حکومت سازی کے موقعے سے محروم کردیاتھا۔ اس کی وجہ سے اردوان کا آئین میں تبدیلی کرتے ہوئے صدر کے عہدے کو جسے فی الحال برائے نام اختیار حاصل ہے، توانا کر نے کا عزم ادھورا رہ گیا۔
اگرچہ صدر کو ایک غیر سیاسی شخصیت فرض کیا جاتا ہے، لیکن اردوان نے اس عہدے کو استعمال کرتے ہوئے کھل کر اپنی اے کے پارٹی کی انتخابی مہم چلائی۔ ترکی میں بیوروکریسی کی جانبداری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران مسٹر اردوان سرکاری ٹیلی ویژن پر 29 گھنٹے براجمان رہے جبکہ ان کی سیاسی جماعت کو 30 گھنٹوں کی کوریج ملی۔ اس کے برعکس سی ایچ پی کو جو ایک سیکولرجماعت ہے، پانچ گھنٹے، قوم پرست جماعت ایم ایچ پی کو 70 منٹ جبکہ کردوں کی طرف جھکائورکھنے والی جماعت ایچ ڈی پی کو صرف اٹھارہ منٹوں پر ہی اکتفاکرنا پڑا۔
اس سے بھی زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ الیکشن کے ہفتے کے دوران مخالف میڈیا پر کریک ڈائون دیکھنے میں آیا۔ ایک بہت بڑے میڈیا گروپ''Ipek-Koza Holding‘‘، جو دومقبول ٹی وی چینل اور کئی اخبارات چلاتا ہے، کے دفاتر پر مسلح پولیس افسران نے چھاپے مارے۔ انتخابات کے دوران اس کے میڈیا آئوٹ لٹس پر حکومت کے مقرر کردہ پینل کا کنٹرول رہا۔ اردوان حکومت کے گزشتہ چند برسوں کے دوران میڈیا کو بے رحمی سے ہدف بنایا گیا۔ صحافیوں کو ملازمت سے نکال کر جیلوں میں ڈال دیا گیا اور اخبارات کے دفاتر پر حکومت کے حامی جرائم پیشہ عناصر کے حملے دیکھنے میں آئے۔ کرد علیحدگی پسندوں کی تنظیم، ''پی کے کے‘‘ اور داعش کے خلاف حالت ِ جنگ میں ہونے کے علاوہ اردوان، فتح اﷲ گولن کی تنظیم کے ساتھ بھی تنائو رکھتے ہیں؛ حالانکہ یہ سکول اور فلاحی ادارے چلانے والی ایک متعدل مزاج اسلامی تحریک ہے۔ اگرچہ گولن خود بھی شروع میں اردوان کے حامی تھے، لیکن پھر حکمران جماعت اے کے پی اور صدر کے خاندان کے کچھ افراد پر لگنے والے بدعنوانی کے الزامات نے ان دونوںکے درمیان ناچاقی پیدا کردی۔ ان میں سے بدعنوانی کی کچھ کہانیوں کی ریکارڈ شدہ گفتگو انٹر نیٹ پر بھی دستیاب ہوئی، جس پر سینکڑوں سینئر پولیس اور انٹیلی جنس افسران کو شک کی بنا پر برطرف کردیا گیا۔ اسی طرح عدلیہ کو بھی ''تطہیر‘‘ کے عمل سے گزارا گیا۔ جس جج پر گولن کا حامی ہونے کا شک گزرتا، اُسے گھر کی راہ دکھا دی جاتی۔ اب میڈیا میں بھی صفائی کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ ترکی کے ایک مقبول اخبار''Today's Zaman‘‘ کے ایڈیٹر کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا۔
جون میں ہونے والے انتخابات کے بعد سے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی(ایچ ڈی پی) کو خصوصی ہدف بنایا گیا، اس کے دوسو کے قریب دفاتر پرچھاپے مارے گئے، اس کے بہت سے میئرزکو برطرف کیا گیا جبکہ کچھ کو جیل میںبھی ڈالا گیا۔ اگرچہ اس جماعت کے ایک سو تیس کے قریب حامی انقرہ اور سورک میں ہونے والے خود کش حملوں میں ہلاک ہوگئے تھے اور توقع تھی کہ اس کے ساتھ ہمدردانہ سلوک کیا جائے گا، لیکن ایسا نہ ہوا۔ اردوان اور وزیر ِاعظم ، احمت دائوتوگلو(Ahmet Davutoglu)نے ایچ ڈی پی کو بارہا کرد علیحدگی پسند جماعت ''پی کے کے‘‘ کی صف میں شامل کرتے ہوئے سخت پیغام دیا ہے کہ صرف حکمران جماعت، اے کے پی ہی ترکوں اور کرد علیحدگی پسندوں اورداعش کے درمیان کھڑی ہے۔ درحقیقت حکومت ان دونوں گروہوں میں کوئی فرق نہیں سمجھتی۔ اس کے جیٹ طیارے عراق اور ترکی میں ''پی کے کے‘‘ کے ٹھکانوں پر بمباری کرتے رہتے ہیں۔ بدترین بات یہ ہے کہ مشرقی ترکی میں کرد علاقے پولیس کے جارحانہ رویے کا شکار ہیں۔ یہاں بہت سے شہروں میں کرفیو نافذ ہے۔ دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق ترکی کے کرد علاقے میں سکیورٹی فورسز کی طرف سے لکھا گیا ہے کہ ''آپ کو ترکوں کی طاقت کاعلم ہوجائے گا‘‘۔
یہ ترکی کو تقسیم کرنے والی فالٹ لائنز ہیں اور ان کا کوئی علاج دکھائی نہیں دیتا۔ اردوان قطعی فیصلے کرنے والے رہنما ہیں۔ اُنہوں نے ترکی کی آبادی کے ایک بڑے حصے کے درمیان تفریق کی لکیر کھنچ دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لبرل اور سیکولر ترک ''ایچ ڈی پی‘‘ کے پرچم تلے جمع ہوگئے ہیں۔ تاہم بہت سوں کو خدشہ ہے کہ اردوان کو پہنچنے والے ایک اور سیاسی نقصان کے نتیجے میں مزید کریک ڈائو ن کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ترکی کے سیاسی منظر نامے پر ظاہر ہونے والا ایک مسئلہ یہ ہے کہ اردوان کسی کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے کے لیے درکار لچک سے محروم ہیں۔ اگریکم نومبر کو ہونے والے انتخابات میں اے کے پی نے پچاس فیصد سے کم ووٹ حاصل کیے اور پول سروے اس بات کی پیش گوئی کررہے ہیں، تو پھر وہ کسی سے اتحاد کرکے حکومت سازی کی بجائے ایک اور عام انتخابات کا اعلان کردیںگے۔
سیاسی غیر یقینی پن اور تشدد کی وجہ سے ترک کرنسی لیرا کی قدر اور سٹاک مارکیٹ پہلے ہی گراوٹ کا شکار ہے۔ اے کے پی کا سب سے بڑا دعویٰ رہا ہے کہ اس نے گزشتہ تیرہ برسوں کے اقتدار کے دوران ترک معیشت کو مضبوط قدموں پر لا کھڑا کیا۔ اس دعوے میں صداقت موجود تھی، لیکن اب اس کی معاشی گاڑی کے پہیے الگ ہونے شروع ہوچکے ہیں۔ اگرترکی نے کسی طورخود کو نہ سنبھالا تو شدید معاشی بحران کا شکار ہوجائے گا۔ اس وقت قومی سطح پر سب سے جاندار سیاست دان صلحاتین ڈیمرتس(Selahattin Demirtas) ہیں جو ایچ ڈی پی کی قیادت کر رہے ہیں؛ تاہم کرد ہونے کی وجہ سے وہ ترکی کے کچھ حلقوں کے لیے قابل ِقبول نہیں۔ اس کے باوجود ان کا ترکی کی مرکزی سیاست میں آنا تقسیم کے شکار ترک معاشرے کے لیے خوش آئند ہے۔
اے کے پی کے اقتدار میں آنے سے پہلے ری پبلکن پیپلز پارٹی سب سے طاقت ور جماعت تھی۔ اس نے گزشتہ انتخابات میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹ لیے تھے۔ یہ مصطفی کمال پاشا کے سیکولر نظریات کی نمائندگی کرنے والی جماعت ہے، اسے ترکی کے اسلامی حلقوں کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ چنانچہ ترک سیاست میں اہم کھلاڑیوں کے درمیان اختلافات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا دشوار ہے کہ اختلافات کا سیاسی حل کیا نکلے گا۔ جس دوران میں یہ سطور لکھ رہا ہوں، ایک ترک دوست سے بات ہوئی ہے، اُس کا کہنا ہے : ''اردوان پاگل ہوچکے ہیں، پتا نہیں وہ ایک نارمل انسان کیسے بنیں گے؟‘‘