تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     03-11-2015

تاریخ کے بھولے بسرے سنگ میل

پاکستان کے حالات کی بے رحمی، شدت اور سنگینی نے پوری قوم کو ذہنی طور پر یک سطحی(One-Dimenisional) بنا دیا ہے۔ اب ہمارا دھیان آج کے دن پر مرکوز ہوتا ہے، خیریت سے گزر جائے تو سجدۂ شکر ادا کرتے ہیں۔ دعوت پر جائیں تو کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں، خدشہ ہوتا ہے نجانے کل کھانے کو کچھ ملے گا یا نہیں! پیسہ کمانے کا رویہ دیکھیں، تو چاہتے ہیں زیادہ سے زیادہ کمائی آج ہی کرلیں۔۔۔۔جائز یا ناجائز طریقے سے۔ یہ تو ہمارا انفرادی رویہ ہے۔ آپ اپنی ہر حکومت کو دیکھیں، سارا نظام عارضی ( پنجابی میں'ڈنگ ٹپائو‘) بنیادوں پر چلایا جاتا ہے۔ آج کا دن تو ریت کا گھروندہ ہے، اِدھر آپ نے بنایا، اُدھر گرنا شروع ہوگیا۔آج کا دن صرف اُس صورت میں بہترگزر سکتا ہے کہ ہم گزرے ہوئے وقت (ماضی)کا بغور تجزیہ کریں اورآنے والے وقت (مستقبل) کا جائز ہ لیتے رہیں۔ اگر آپ اس سچائی کو دیانت داری سے مانتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دُہراتی ہے تو آپ کو یہ تسلیم کر لینے میں مشکل پیش نہیں آنی چاہیے کہ ہمارا ماضی ہمارے مستقبل کو مرتب کرتا ہے۔ 
اس تمہید کے بعد میں اپنے قارئین کو 1381ء کی جانب لیے چلتا ہوں یعنی 634 سال قبل، جب برطانیہ میں کسانوں کی وہ زبردست بغاوت رُونما ہوئی جس نے برطانوی تاریخ کا رُخ موڑ دیا۔ اُس سال بادشاہ نے ایک نیا ٹیکس نافذ کر دیا جس کی ادائیگی کسانوں کے لیے اس قدر وبال جان بن گئی کہ اُنہوں نے علم بغاوت بلندکر دیا۔کسانوںکی باغی فوج نے اپنے آپ کو اُس دور کے ہتھیاروںسے مسلح کیا اور جنوب مشرقی برطانیہ کو اپنے زیر نگیں کرتے ہوئے لندن کا محاصرہ کر لیا۔ جو چھوٹا بڑا پادری اُن کے ہتھے چڑھا قتل کر دیا گیا، یہاں تک کہ سب سے بڑا پادری،آرچ بشپ آف کنٹربری بھی۔ تمام عالی شان عمارتیں اور محلات جلا کر راکھ کر دیے گئے۔ کم عمر بادشاہ، رچرڈ دوئم اور اُس کے درباریوں نے لندن کے سب سے بڑے اور تاریخی قلعہ ٹاور آف لندن میں چھپ کر جان بچائی۔ باغی فوج نے بادشاہ کے سامنے اپنے مطالبات خود سنائے۔ بادشاہ نے اُن کے سامنے جو پہلی تقریرکی اُس میں ایک بھی مطالبہ منظور نہ کیا گیا۔ شاہی تقریر سن کر ایک باغی راہنما نے دُوسرے کو سمجھایا، تم بادشاہ کی انصاف پسندی پر اتنا بھروسہ کرتے ہو مگر وہ ہم سب کا بادشاہ نہیں، وہ صرف لوٹنے والے امیروں کا بادشاہ ہے۔ اُس نے جوکہا وہ آپ انگریزی میں پڑھ لیں گے تو لطف دوبالا ہو جا ئے گا:He is not our king,Walter! he is theirs کسانوں کی قیادت دو پادریوں نے کی جن میں ایک کو پختہ یقین تھا کہ کسان حق پر ہیں اور اُنہیں تائید ایزدی حاصل ہے، عوامی قوت شاہی فوج کو ناکوں چنے چبوانے میں کامیاب رہے گی۔ ظاہر ہے کہ ایسا نہ ہوا اور بغاوت ناکام ہو گئی۔
چودھویں صدی یورپ کے لیے طرح طرح کے عذاب لائی۔ 1315ء سے 1317ء تک کے دو سال شمالی یورپ ایک خوفناک قحط کی لپیٹ میں آگیا۔ 1346ء سے 1351ء تک کے پانچ سالہ عرصے میں طاعون جیسے موذی اور متعدی مرض نے یورپ اور مشرق وسطیٰ میں تقریباً نصف آبادی کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ اتنے بڑے پیمانے پر جانی نقصان سے سنبھلنے میں ڈیڑھ صدی لگ گئی۔ اس درمیانی عرصہ میں طاعون کی وبا بار بار اپنا سر اُٹھاتی رہی خصوصاً1362-63ء میں۔ 1328ء میں اٹلی کے تجارتی مرکز فلورنس میں کپڑے کی صنعت سے وابستہ کارکنوں نے بغاوت کردی۔ چاروں طرف پھیلے ہوئے سیاہ بادلوں کا واحد سنہری حاشیہ یہ تھا کہ یورپ میں یونیورسٹیوںکے قیام کا سلسلہ شروع ہوا جو اُسے نشاۃ ثانیہ تک لے گیا۔ آپ نوٹ فرمائیں کہ برطانیہ کی دونوں قدیم درسگاہیں،آکسفورڈ اور کیمبرج 1250ء سے بھی پہلے قائم ہو چکی تھیں۔ دُوسرے، مشرقی یورپ کے برعکس مغربی یورپ میں موروثی مزارعین (Serfdom)کا نظام 1600ء تک ختم ہو گیا (غالباً سندھ میں ابھی تک ایسا نہیں ہوا۔) 
1381ء میں کسانوں کی بغاوت کو برطانوی تاریخ میں اس کے راہنماWalter کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ گھریلو صنعت سے وابستہ کارکن بھی نئے ٹیکس سے اتنے متاثر ہوئے کہ وُہ کاشتکاروں کی مسلح بغاوت میں شامل ہوگئے۔ طاعون سے ہونے والی ہلاکتوں کے بعد معاشی نظام اتنا بگڑا کہ برطانوی حکومت نے1351ء میں زیادہ سے زیادہ اُجرت کا قانون نافذ کر دیا جو محنت کشوں کے لیے ناقابل قبول تھا۔ لندن میں میرے دفتر سے صرف تین میل کے فاصلے پرایک محلے کا نام Mile End ہے( زیر زمین ریلوے اسٹیشن) جو چودھویں صدی میں لندن شہر کا ایک مضافاتی قصبہ تھا۔ 14مارچ کو بادشاہ رچرڈ دوئم کو باغیوں سے خود مذاکرات کرنا پڑی۔ بادشاہ، کسانوںکو سستی زمین دینے، تجارت پر پابندیاں اُٹھانے اور موروثی مزارعت ختم کرنے کا اعلان کرنے پر مجبور ہوگیا۔ ٹاور آف لندن جو میرے دفتر سے صرف ایک میل کے فاصلے پر ہے، باغیوں نے اس پر قبضہ کر لیا اور بادشاہ کو عوام دُشمن صلاح مشورے دینے والوں کے سر قلم کر دیے۔ اگلے دن جب باغیوں کا راہنماWalter مذاکرات آگے بڑھانے کے لیے بادشاہ کے دربارمیں پیش ہوا تو بادشاہ کی موجودگی اور بھرے دربار میں لندن کے میئر نے اُسے قتل کر دیا، مگر بادشاہ نے حاضر دماغی سے کام لیا اور خود جنگ پرآمادہ باغیوں سے مخاطب ہوا اور اُنہیں یقین دلانے میں کامیاب ہوگیا کہ وہ ان کی فلاح و بہبود کی خاطر اصلاحات کرے گا۔ یہ بغاوت 25 جون کو ختم ہوئی جب شاہی فوج باغی جتھوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے میں کامیاب ہوئی۔ 
بادشاہ نے باغیوں سے جو وعدے کیے تھے وہ بغاوت ختم ہونے پر بھلا دیے گئے۔ صرف ایک فائدہ ہوا کہ غریب طبقات پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈالنے کی رفتار کم ہوگئی۔ آج بھی اس بغاوت کے موضوع پرکتابیں شائع ہوتی ہیں، ڈرامے دکھائے جاتے ہیں اورفلمیں بنتی ہیں۔ برطانیہ میں غلاموں اور پسے ہوئے طبقات کے ہاتھوں آقائوں کے خیموںکی طنابیں توڑنے کی تاریخ کئی صدیوں پر محیط ہے۔1381ء میں اس کا ایک سنگ میل نصب ہوا۔ 
صدیاں گزرگئیں، مسئلہ ملکیتِ زمین بدستور حل طلب ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں جمہوری عمل کی کامیابی کی تین بڑی وجوہ بتائی جاتی ہیں: آزادی کے بعد موثر زرعی اصلاحات، خواندگی کا بہتر تناسب اور زیادہ بڑا متوسط طبقہ۔ ہمارے سندھ کے کسانوں کے بارے میں قابل صد احترام مسعود کھدر پوش کی لکھی ہوئی ہاری رپورٹ چھپی مگر ہماری تاریخ کا گم شدہ حصہ بن کر رہ گئی۔اس مسئلے پر ہماری بہترین رہنمائی شاعر مشرق و مغرب علامہ اقبال کرتے ہیں۔ نظم کا عنوان ہے 'الارض للہ‘ ! علامہ نے چند ایسے سوالات اُٹھائے جن کا جواب ہم سب جانتے ہیں۔ نظم کے پہلے تین اشعار چھ سوالات پر مبنی ہیں۔ تین بار پوچھا کہ یہ کون کرتا ہے اور تین بار پوچھا کہ یہ کام کس نے کیا؟ کون اور کس کا جواب نظم کے مقطع میں دیا گیا ؎
دِہ خدایا! یہ زمین تیری نہیں تیری نہیں
تیرے آبا کی نہیں، تیری نہیں میری نہیں
زمیں کے بارے میں اقبال کے انقلابی نقطہ نظرکو اس سے زیادہ فصاحت سے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اقبال نے فرمایا کہ اگر ساری زمین خدا کی ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ خدا کے بندوںکی ہے۔ بندوں سے مراد زمین خریدنے والے نہیں بلکہ اس پر ہل چلانے والے ہیں۔ اسلامی اور اشتراکی نقطہ نظر سے زمین پر غیرکاشتکارکی ذاتی ملکیت قائم نہیں کی جاسکتی۔۔۔۔ زمین صرف کاشتکار کی ہے جو خود ہل چلاتا ہے۔ 
آپ معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر اکمل حسین کا ایک انگریزی معاصر میں شائع ہونے والا مضمون خود پڑھ لیں۔ عنوان ہے: Land to the Tiller۔ یہ کالم شائع ہونے تک ڈاکٹر صاحب کے تین مزید مضامین بھی شائع ہو چکے ہوںگے۔ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ حلقہ122 یا 146یا کسی اور حلقہ میں انتخابی دنگل نہیں بلکہ غربت ہے۔ اتنا بڑا مسئلہ جو اندھوں کو بھی نظرآتا ہے، عقل کے اندھوںکو شاید نظر نہیں آتا اور نہ آسکتا ہے! ڈاکٹر اکمل نے وہ تمام قابل عمل اور قابل فہم تجاویز دی ہیں جن سے ہم وطن عزیز سے غربت ختم کر سکتے ہیں، 60 فیصدی آبادی کو خطِ افلاس سے اُوپر لا سکتے ہیں۔ اس کالم نگارکا جی چاہتا ہے کہ اُڑکر لاہور جائے (یہ خواہش اس ماہ کے آخر میں پوری ہوگی) ڈاکٹر اکمل حسین اور ڈاکٹر عطاء الرحمن (جنہوں نے اپنے حالیہ مضمون میں نسخہ کیمیا بیان کیا) پر پھولوں کی بارش کر دے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved