ہم سب جانتے ہیں کہ حالیہ زلزلے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے فی الفور کارروائی کی گئی۔اس تباہ کن زلزلے میں جو لوگ زخمی اور بے گھر ہوئے ان کی امداد کے لیے ضروری مشینری اور افرادی قوت بھی فوراً مہیا کر دی گئی۔ متاثرین کے لیے امدادی پیکیج کا اعلان بھی انہوں نے کر دیا۔ ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ متعلقہ مسائل سے نمٹنے کے لیے حکومت کے پاس کافی وسائل موجود ہیں، اس لیے بیرونی امداد لینے سے معذرت کر لی گئی ہے۔ تبصرے کے لیے یہ ایک بہترین خبر ہے۔ کیوں؟ آئیے اس حوالے سے ہم آپ کو اکتوبر 2005ء کے زلزلے اور اس کے بعد ہونے والی کرپشن کی جانب لیے چلتے ہیں۔
ایک ریٹائرڈ آرمی جنرل اس وقت نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی(NDMA)کے چیئرمین تھے اور اس حیثیت میں اس وقت کے زلزلے کے بعد امدادی کارروائیاں انہی کی زیرِ نگرانی کی جا رہی تھیں۔ تاہم بعد میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے انہیں برطرف کر دیا تھا۔ ہمارے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے ایک باراپنا دل ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیا تھا۔ ہم نے پہلے بھی کئی بار اس بارے میں لکھا ہے لیکن اب چونکہ ہمیں ایک بار پھر ویسی ہی صورت حال درپیش ہے، اس لیے اس وقت جو کچھ ہوا مناسب ہو گا کہ ایک بار پھر اس کی یاد دہانی کرا دی جائے۔ اکتوبر 2005ء میں جب زلزلے نے ہماری دنیا الٹ پلٹ کر رکھ دی، اس وقت اسلام آباد میں امریکی سفیر ریان کروکر نے فیصلہ کیا کہ امدادی سرگرمیاں ان کی زیرِ نگرانی انجام پائیںگی۔ انہوں نے جنرل پرویز مشرف کو قائل کیا کہ مصیبت کی اس گھڑی میں کرۂ ارض پرامریکیوں سے زیادہ فائدہ مند پاکستان کے لیے اور کوئی بھی نہیں ہے۔ بہ آوازِ بلند ان کا پیغام یہی تھا کہ امریکی اس سلسلے میں پاکستانیوں سے بہتر کام کر سکتے ہیں۔ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے ہیڈ کوارٹرز کے قیام کے لیے ریان کروکر اپنے فوجیوں سمیت وزیر اعظم سیکرٹریٹ پہنچ گئے۔ ایک عینی شاہد نے ہمیں بتایا کہ وہ لحیم اور شحیم امریکی جنرل اپنے موبائل اور واکی ٹاکی لہرا کر ہم پر اپنے احکامات صادر کرتے ہوئے سیکرٹریٹ کے کاریڈورز میں منڈلاتے پھرتے تھے اور ہم خوفزدہ مرغیوں کی مانند ادھر ادھر بھاگتے پھرتے تھے کہ کہیں ان کے پیروں تلے کچلے نہ جائیں۔ بالآخرخوش قسمتی سے معقولیت کی جیت ہوئی اورامریکیوں کو وہاں سے جانے کا کہہ دیا گیا۔
2008ء میں جب زرداری صاحب نے عنانِ حکومت سنبھالی تو سوات میں فوجی اقدام کے دوران امریکی سفیر این پیٹرسن نے وزیر اعظم گیلانی سے رابطہ کیا اور لاجسٹک کے شعبے میں امداد کی پیش کش کی۔ جواباً گیلانی صاحب نے این پیٹرسن کو جو کچھ کہا وہ کسی کو بھی معلوم نہیں؛ تاہم اگر سازشی نظریات کا یقین کیا جائے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر انہوں نے اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کے مسائل سے نمٹنے کا کلی اختیار پختونخوا حکومت کے سپرد کیوں کر دیا تھا؟ بعد ازاں سینٹر آف ہیومینی ٹیرین ڈائیلاگ (HD) نے جینوا میں اقوامِ متحدہ کے اداروں اور عالمی ریڈکراس تنظیم کے سینئر اہلکاروں سے فاٹا اور این ڈبلیو ایف پی کی این جی اوز، سیاستدانوں اور حکومت کے نمائندوںکی ملاقات کا اہتمام کروایا۔ اقوامِ متحدہ کی معاونت سے کام کرنے والے ہیومینی ٹیرین ڈائیلاگ(HD) ہی کے خرچے پر کے پی مقننہ کے ارکان اوراین جی اوزکے نمائندوں کی مہمان نوازی کی جاتی رہی۔ ہمارے دفتر خارجہ کو اس ضمن میں بائی پاس کر دیا گیا تھا۔ صدر آصف علی زرداری دفترِ خارجہ کے بابوئوں کو خاطر میں لائے بغیر ازخوداپنے بیرونی مددگاروں کے ساتھ تمام دستاویزات پہ دستخط کرتے رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کے پی حکومت نے اپنی خود مختاری تحریری طور پر اقوامِ متحدہ کے اداروں کو سونپ دی اور یوں ان اداروں نے عسکریت پسندوں تک بلا روک رسائی حاصل کر لی اور اقوامِ متحدہ کو ہمارے ایسے سلامتی کے حساس امور میں دخل اندازی کا موقع ملا جو ہمارے اپنے میڈیا تک کے لیے ''ممنوعہ علاقہ‘‘ بنائے گئے تھے۔ اقوامِ متحدہ کے اداروں کی ملی بھگت سے اس وقت کی کے پی حکومت آئی ڈی پیز کی تعداد کے حوالے سے روزانہ جعلی اعداد و شمار مرتب کرتی تھی تاکہ زیادہ سے زیادہ امدادی رقم اور سامان ہتھیا سکے۔ صرف کاغذوں پر جعلی آئی ڈی پیز تخلیق کر کے بڑا پیسہ کمایا جا رہا تھا۔ کوئی تو تھا جو ان آئی ڈی پیز کے نام پر ملنے والے خطیر امدادی پیکیج پہ اپنا ہاتھ صاف کر رہاتھا۔
عمران خان کے لیے ہمارا مشورہ یہی ہے کہ اس بار انہیں خبردار رہتے ہوئے کے پی میں اپنے ارکانِ مقننہ پر اپنی گرفت مضبوط رکھنی چاہیے۔ عمران خان کو کرپشن سے نفرت ہے لیکن اگر امدادی رقوم کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے اپنی پارٹی کے لوگوں کو انہوں نے آزاد چھوڑے رکھا تو آخر میں ان کے لالچ کو قابو کرنے میں ناکامی کا الزام انہی کے سر آئے گا۔
ذیل میں ہم چند اقتباسات پیش کریں گے جو ان ای میلز سے لیے گئے ہیں جو ہمیں اس وقت موصول ہوئی تھیں جب 2009ء میں ہم نے ایک انگریزی روزنامے میں اسی کرپشن کے حوالے سے ایک کالم لکھا تھا۔ امریکہ میں رہنے والے ایک پختون نے لکھا تھا کہ ''میں امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں رہائش پذیر افغانوں اور پختونوں سے یہ درخواست کروں گا کہ اگر ممکن ہو تو وہ متعلقہ سینٹروں اور ارکانِ پارلیمان سے براہِ راست خود رابطہ کریں یا پھر انہیں لکھیں تاکہ ان کی طرف سے بھیجی گئی امدادی رقم پاکستانی حکومت کے ہاتھ نہ لگے، ورنہ ان کی جانب سے بھیجی گئی رقم اور دیگر اشیا این جی اوز اور دیگر سرکاری اداروں کے ذریعے تقسیم کے نام پر ہڑپ کر لی جائیںگی۔ اسّی کے عشرے میں افغان مہاجرین اور2005ء کے زلزلے کے متاثرین کے لیے بھیجی گئی امداد کے حوالے سے ان کا تجربہ نہایت تلخ رہا۔ ایک اور صاحب نے لکھا کہ ہمیں لازماً دنیا کو یہ بتانا ہوگا کہ یہ پاکستان کا کاروبار بن چکا ہے کہ کسی نہ کسی بہانے دوسرے ممالک سے پیسے اینٹھے جاتے رہیں۔ پاکستان پیسہ بھیجنا پیسے کا ضیاع ہوگا اور حقداروں تک یہ نہیں پہنچے گا۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ اس معاملے پر عالمگیر احتجاج ہونا چاہیے اور اس حقیقت کا انکشا ف ہونا چاہئے کہ یہ لوگ ہمارے خون پہ کمائی کر رہے ہیں۔ ہمیں مار کر بھی یہ لوگ پیسے لیتے ہیں اور ہمیں بے گھر کر کے بھی پیسہ کما رہے ہیں۔ نجانے اس سے زیادہ نفع بخش کاروبار یا آمدنی کا ذریعہ پاکستان کے لیے کوئی اور ہے بھی یا نہیں۔ ہمیں دنیا پر زور دینا چاہیے کہ یہ امداد براہِ راست عالمی امدادی اداروں کے ذریعے تقسیم کی جائے۔ زرداری صاحب کے دور میں کے پی ، اول تا آخر کرپشن کا گڑھ بن چکا تھا۔ اس بارے میں ہرکوئی کھلم کھلا بات کرتا تھا لیکن باتوں سے زیادہ کچھ کرنے کی طاقت کسی کے پاس نہیں تھی۔ ہمیں امید کرنی چاہیے کہ پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں حالات کو اس حوالے سے بے قابو نہیں ہونے دیا جائے گا۔ کرپش اس وقت ہوتی ہے جب زلزلے جیسے کسی المیے کے بعد بیرونی ممالک سے امدادی سامان اور رقوم کی بارش کا آغاز ہوتا ہے۔ امداد دینے کی نیت اگرچہ کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو لیکن اگر یہ حقداروں تک نہ پہنچ پائے تو اس سے بڑا المیہ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ یہ امداد زیادہ تر تقسیم کاروں اور بارسوخ لوگوں کی جیبوں میں منتقل ہو جاتی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف اور پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کو ہوشیار رہنا پڑے گا۔ تاہم سب سے بڑی ذمہ داری این ڈی ایم اے کے چیئرمین میجر جنرل اصغر نواز کی ہے جنہوں نے 15جنوری 2015ء کو یہ عہدہ سنبھالا تھا۔ فی الحال تو سرعت سے امدادی کارروائیوں آغاز کرنے پر میڈیا میں ان کی ٹیم کی کارکردگی کو سراہا جا رہا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ وہ تمام لوگ جو پاکستان کی خدمت میں مصروف ہیں وہ اپنے مقاصد میں کامیاب رہیں اور جو لوگ تکلیف میں مبتلا افراد کی قیمت پر اپنی جیبیں بھر رہے ہیں، خدا انہیں خائب و خاسر کرے۔