تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     03-11-2015

گھر کے کام اور عالمی ریکارڈ

ایک دوڑ سی لگی ہے۔ سب اس میں حصہ لے رہے ہیں۔ دوڑ ہے‘ انوکھے عالمی ریکارڈ قائم کرنے کی۔ اس معاملے میں دنیا کی ہر قوم خود کو زیادہ سے زیادہ انوکھی ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جسے دیکھیے وہ الل ٹپ قسم کی حرکتیں کرنے میں لگا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کی بے وقوفیوں کو عالمی ریکارڈ کی حیثیت سے تسلیم کرلیا جائے۔ 
جو تھوڑی بہت ذہنی صلاحیت اللہ نے عطا کی ہے اسے بروئے کار لاکر ہم نے بہت کوشش کی ہے مگر اب تک سمجھ نہیں پائے کہ آخر لوگ چاہتے کیا ہیں۔ اکیسویں صدی کے بارے میں یہ تصور اب ضرورت سے زیادہ پختہ ہوگیا ہے کہ یہ عجیب و غریب واقعات اور رویّوں کی صدی ہے۔ یہی سبب ہے کہ سب اس صدی کو زیادہ سے زیادہ محیّر العقول ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہر قدم پر ایسی حرکتیں کی جائیں کہ سب دیکھیں اور دنگ رہ جائیں۔ 
مغربی دنیا اس دوڑ میں کچھ زیادہ ہی آگے ہے۔ وہاں کے ہوٹلوں اور ریستورانوں میں کام کرنے والے شیف آئے دن ہزاروں انڈوں کے آملیٹ، بہت بڑے سائز کا پیزا یا کیک وغیرہ بناکر ریکارڈ توڑتے اور قائم کرتے رہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ لوگ اب کسی بھی ریستوران کا رخ کھانے کے لیے کم اور تماشے دیکھنے کے لیے زیادہ کرتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اب مغربی دنیا میں کارنیوال اور سرکس کا رواج دم توڑتا جارہا ہے۔ جب کسی ریستوران میں سرکس کے تمام آئٹم مل جائیں تو لوگ سرکس دیکھنے کے لیے اضافی رقم کیوں خرچ کریں گے؟ 
برطانیہ کے 28 سالہ گیرتھ سینڈرز نے مسلسل 100 گھنٹے کپڑے استری کرکے انوکھا ریکارڈ قائم کردیا ہے۔ برسٹل کے رہائشی گیرتھ نے ان 100 گھنٹوں میں دو ہزار سے زائد کپڑے استری کئے۔ اس خبر کو مغربی میڈیا نے عجیب و غریب خبروں کی مد میں خوب اچھالا ہے۔ ہمیں تو اس میں کوئی حیرت انگیز بات دکھائی نہیں دیتی۔ ایمان داری کی بات تو یہ ہے کہ یہ خبر پڑھ کر ہماری ہنسی چھوٹ گئی کہ یومیہ معمول کو بھی مغرب کے لوگ عالمی ریکارڈ کی درجہ بندی میں رکھنے کے عادی ہوگئے ہیں! 
مرزا تنقید بیگ سے ملنے جب بھی ہم ان کے گھر پہنچے ہیں، انہیں گھر کے کسی نہ کسی کام میں مصروف پایا ہے۔ وہ کھانا کھاکر اپنے برتن خود دھوتے ہیں، اپنے لیے چائے خود بناتے ہیں اور اپنے کپڑے بھی عموماً خود ہی دھوتے ہیں۔ اور کمال یہ ہے کہ اگر کوئی اس حوالے سے انہیں طعنہ دے تو کمالِ فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسا فلسفہ جھاڑتے ہیں کہ اعتراض یا طنز کرنے والا شرمندہ ہوکر سوچنے لگتا ہے کہ اپنے کام خود نہ کرکے وہ کہیں کسی گناہِ کبیرہ کا مرتکب تو نہیں ہو رہا! کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ مرزا جتنی مستعدی سے گھر میں اپنے کام کرتے ہیں اگر سرکاری دفتر میں بھی اپنے حصے کا کام اتنی ہی مستعدی سے کیا ہوتا تو! مگر خیر، ایسی باتیں ہم ان کے سامنے نہیں کرتے ؎ 
خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہر دم 
انیسؔ! ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو 
مرزا کہتے ہیں کہ گھر میں اپنا کام خود کرنے سے صحت درست رہتی ہے۔ ہم نے یہ بات سن کر اکثر سوچا ہے مرزا کا اشارا یقینی طور پر اہل خانہ کی صحت کی طرف ہوگا! ساتھ ہی مرزا یہ بھی کہتے ہیں کہ جو لوگ اپنے کام خود نہیں کرتے وہ دراصل گھر میں سکھ شانتی چاہتے ہی نہیں! اس ایک جملے میں مرزا نے ایک بہت بڑا فلسفہ سمودیا ہے۔ ہم نے بارہا مشاہدہ کیا ہے کہ جن گھروں میں مرد اپنے کام خود کرتے ہیں ان کا ماحول انتہائی خوش گوار رہتا ہے اور خاص طور پر خواتین خانہ بے خود شاداں و فرحاں دکھائی دیتی ہیں۔ 
گیرتھ سینڈرز نے اگر 100 گھنٹے استری کرکے عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گھر کے کتنے کام کاج اس نے کتنی عمدگی سے انجام دے کر اہل خانہ اور بالخصوص بیگم صاحبہ کا دل کس قدر جیتا ہو گا۔ کون سی بیوی ہوگی جو اپنے ایسے سرتاج پر فِدا نہ ہو گی! مسلسل 100 گھنٹے استری کرکے ریکارڈ بنانا تو اسی کے بس کی بات ہو سکتی ہے جو گھر میں اپنی تمام ذمہ داریوں سے عمدگی کے ساتھ سبک دوش ہوتا ہو یعنی گھر میں اپنے (اور کبھی کبھی دوسروں کے بھی) کام بخوشی کرتا ہو۔ گیرتھ سینڈرز کو حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دنیا والوں کو بتانا چاہیے کہ وہ گھر کے اور کون کون سے کام کرکے عالمی ریکارڈ قائم کرنے کے درجے پر پہنچ چکے ہیں۔ 
بات ہو رہی تھی ریکارڈز کی اور پہنچ گئی امور خانہ تک۔ معاملہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں بہت سے کام ہو تو رہے ہیں مگر ان کا کوئی ریکارڈ مرتب کیا جارہا ہے نہ ان کی اہمیت کے بارے میں سوچا جارہا ہے۔ بہت سے اقوام کو ہم نے دیکھا ہے کہ وہ بولتی بہت کم ہیں۔ تقریباً گونگی ہوکر کام کرتی رہتی ہیں اور کام کرتے کرتے ہی اس دنیا سے رختِ سفر باندھ لیتی ہیں۔ ایسی تمام اقوام کے لیے ہم باتیں برآمد کرسکتے ہیں۔ اُن کے پاس بولنے کا وقت نہ سہی، ہمارے پاس تو ہے۔ ہم نے جگہ جگہ باتیں بنانے کی فیکٹریاں کھول رکھی ہیں۔ لوگ رات دن باتیں بناتے ہیں اور وہ باتیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ ہم سڑک چھاپ ہوٹلوں کی بات کر رہے ہیں۔ ان میں بیٹھ کر لوگ جیسی اور جس قدر باتیں کرتے ہیں انہیں ریکارڈ کرکے عالمی مارکیٹ میں پیش کیا جائے تو ہمیں یقین ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ باتیں بنانے والی قوم کا ریکارڈ تو ہماری ہی جھولی میں گِرے گا! 
ٹی وی پر کرنٹ افیئرز کے پروگرام دیکھنے سے متعلق آپ کیا کہیں گے؟ ہمارے ہاں اگر کرنٹ افیئرز کے پروگرام دیکھنے کا انفرادی اوسط نکالا جائے تو پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ پاکستانی قوم عالمی ریکارڈ اپنے نام کرلے گی! اور اگر ان پروگراموں کو دیکھ کر پیش کی جانے والی عوامی ماہرانہ آراء کا بھی ریکارڈ رکھا جائے تو بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ متعلقہ عالمی ریکارڈز اپنی موت آپ مر جائیں گے! 
دیگر رسم و رواج کے ریکارڈز سے متعلق آپ کیا کہیں گے؟ گیرتھ سینڈرز ایک ذرا سا کام یعنی مسلسل 100 گھنٹے استری کرکے خود کو تیس مار خان سمجھ بیٹھا ہے۔ اسے کیا معلوم کہ یہاں تو لوگ شادی بیاہ کے نام پر رسوم و روج کو بھگت بھگت کر بھگت سنگھ کے درجے پر پہنچ چکے ہیں یعنی اہل خانہ نے انہیں تختۂ دار پر لٹکا رکھا ہے! مسلسل 100 گھنٹے استری کرنا کوئی ایسا عجیب و غریب کام نہیں کہ عالمی ریکارڈز میں جگہ پائے۔ اگر گوروں کو ذرا ہمارے ہاں کسی شادی میں شریک ہونے کا موقع ملے تو انہیں اندازہ ہو کہ شادی کی رسوم کے نام پر اہل خانہ کی فرمائشیں صاحبِ خانہ کی کیا درگت بناتی ہیں! مگر افسوس کہ وہ تمام ''کار ہائے نمایاں‘‘ اب تک کسی بھی درجے میں ریکارڈ کی حیثیت نہیں پاسکے ہیں۔ ہم اس امتیازی سلوک کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں۔ امور خانہ اور رسوم و رواج کے نام ہم جو بھی مشقّت جھیلتے ہیں اُسے بھی ریکارڈز کی درجہ بندی میں رکھا جانا چاہیے تاکہ دنیا پر ہماری صلاحیتیں عیاں ہوں اور ہمارے لیے توقیر کی کوئی تو صورت نکلے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved