تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     04-11-2015

تیسرے درجے کے انتخابات

مقامی حکومتوں کی تاریخی اہمیت اور آغاز کو دیکھتے ہوئے انہیں پہلے درجے کا نظام کہنا چاہیے ، تاہم پاکستان میں اسے تیسرے درجے(گویا کم اہمیت کا حامل) کا نظام سمجھا جاتا ہے۔ ان کا انعقاد طوعاً وکرہاًکرایا جاتا ہے، وہ بھی کسی دبائو پر۔ بہت سے ممالک، جہاں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہیں، قانون ساز حکومتوں کے نمائندے مقامی حکومتوںسے آگے آتے ہیں ۔ وہ علاقائی معروضات اور عوام کے مسائل کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے قانون سازی کرتے ہیں۔ اس طرح ریاست کی فعالیت میں عوام کی شمولیت دکھائی دیتی ہے۔ یہ بات سب سے زیادہ امریکی جمہوریت پر صادق آتی ہے۔ حتیٰ کہ بر ِ صغیر میں، برطانیہ نے بھی کئی حوالوںسے قوم اور ریاست سازی کے یورپی تجربے کومخصوصی نوآبادیاتی رنگ میں رنگتے ہوئے دہرایا۔ چنانچہ مت بھولیں، برطانیہ نے یہاں مقامی حکومتوں کے قیام سے نظام شروع کیا۔ 
مقامی سطح سے بلند ہوکر،مقامی اداروں کے ذریعے فعالیت دکھا کر ،گراس روٹ لیول سے بلند ہونے والی جمہوریت میں شہری اپنے مسائل کے حل میں فعال کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستانی جمہوریت ، یا اسے جو بھی نام دے لیں، نچلی سطح سے بلند ہوکر اوپر آنے کی بجائے اوپر سے نیچے تک کاسفر کرتی ہے۔ یہاں کوئی اشرافیہ، عام طور پربانی خاندان، سب سے بلند ہوتا ہے، چنانچہ تمام طاقت اور وسائل پر اُسی کی دسترس ہوتی ہے۔ اس کے بعد خاندان 
سے وابستہ رہنمائوں کا مخصوص حلقہ اختیارات رکھتا ہے۔ اس مخصوص حلقے تک عوام کی رسائی نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت زیادہ کامیاب نہ ہوسکی۔ 
سویلین جمہوریت کا ایک بدنما پہلو یہ ہے کہ حکمران پارٹی کے قائداپنی طاقت کو شیئر کرنے کے لیے تیار نہیںہوتے۔ وہ حکومتی نظام میں نچلے درجے کو اختیارات تفویض نہیں کرتے۔ اس طرح جمہوریت ایک طرح کی آمریت کے سانچے میں ڈھلی دکھائی دیتی ہے، یا کم از کم عوامی مفاد سے دور رہتی ہے۔اپنے ہاں ہم نے سب سے پہلے مرکزی حکومت کواٹھارویں ترمیم کے ذریعے اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کرتے دیکھا۔اُس وقت خاص بات یہ تھی کہ قومی سطح پر پارلیمنٹ میں کسی ایک جماعت کوغالب اکثریت حاصل نہ تھی،چنانچہ صوبوں کو اختیارات کی منتقلی سب کے مفادمیں تھی۔ مشرف دور کے بعد پی پی پی اور پی ایم ایل (ن)نے مقامی حکومتوں کے انتخابات کرانے سے انکار کردیا،لیکن اب 2015ء میں،سپریم کورٹ کے حکم کے بعد، اُنہیں ایسا کرنا پڑا۔ 
پنجاب اور سندھ میں مقامی حکومتوں کے قیام کے لیے ہونے والے انتخابات کے پہلے مرحلے کے بعد سامنے آنے والی سیاسی اور سماجی حرکیات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اس سے پہلے باقی دونوں صوبے، بلوچستان اور خیبر پختونخوا، یہ انتخابات کراچکے ہیں۔ اس دوران ہمیں ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ پی ایم ایل (ن)نے چند سال پہلے مقامی حکومتوں کے انتخابات غیر سیاسی بنیادوں پر کرانے کے لئے قانون سازی کی تھی کیونکہ پی ٹی آئی کی بڑھتی ہوئی عوامی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اسے اپنی کامیابی کایقین نہیں تھا۔ پی ٹی آئی کا ان انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا پی ایم ایل (ن) کے لیے شدید سیاسی جھٹکے کا باعث بنتا۔ تاہم پہلے مرحلے کے انتخابات میں اندرون سندھ میں پی پی پی اور پنجاب میں پی ایم ایل (ن)نے نمایاں کامیابی حاصل کی۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ ان حکومتوں نے اپنے اپنے صوبوں میں بہت معرکہ آرا کارکردگی دکھائی ہے ، بلکہ یہ کہ حکمران جماعت کی بہرحال ایک ''چمک‘‘ ہوتی ہے جو نگاہوں کو خیرہ کردیتی ہے۔ ہم جانتے ہیںکہ ماضی میں بھی مقامی حکومتوں کے لیے ہونے والے انتخابات میں صوبائی حکومتوں سے وابستگی رکھنے والے امیدواروں نے ہی کامیابی حاصل کی تھی۔ خیبر پختونخوا میں بھی یہی رجحان دیکھنے میں آیا۔ عوام جانتے ہیں کہ ان حکومتوں کے لیے اپوزیشن کی حمایت کرنے کا مطلب جو تھوڑے بہت ترقیاتی فنڈز ملنے ہیں، اُن سے محروم ہونے کا خطرہ مول لینا ہے۔ 
حالیہ انتخابات میں پنجاب میں پی ایم ایل (ن) کے بعد آزادامیدواروں کی ایک بھاری تعداد کی کامیابی مفاد پر ستی پر مبنی سیاست کے پروان چڑھنے والے رجحانات ہیں۔ تاہم سیاست میں مفادکا خیال رکھنا کوئی گناہ نہیں۔ یہ نظریات یا کسی مخصوص سیاسی جماعت سے وابستگی اختیار کرنے کی بجائے مفادات کی سیاست کا اظہار ہے، اور دنیا کے بہت سے جمہوری معاشروںمیں اسے قابل ِ قبول سمجھا جاتا ہے ۔ یہ لوگ اب مول تول کے لیے تیار ہوںگے۔ وہ حکمران جماعتوں میں شامل ہونے یا ضلعی سطح پر ناظم کے چنائو کے لیے حکومتی امیدوار کی حمایت کے عوض کچھ ''انعام‘‘حاصل کریں گے۔مقامی حکومتوں کے لیے ہونے والے انتخابات، ان میں اور بعد میں، بننے والے اتحاد ، ہمیشہ پارٹی لائن سے مختلف بنتے ہیں۔ان کے پیچھے سیاسی نظریات کی بجائے مقامی سطح پر طاقت کا حصول ہوتا ہے۔ اس لیے ان میں جذباتی وابستگی کی بجائے عملیت پسندی کا برملا اظہار ملتا ہے۔ بہرحال اس میں کوئی حرج نہیں۔ دراصل تمام سیاسی حرکیات کا، چاہے اس کا تعلق کسی بھی سطح سے ہو، تعین مفادات کے حصول کے لیے اپنائی جانے والی پالیسی ہی کرتی ہے۔ مقامی حکومت کے لیے ہونے والے موجودہ انتخابات میں اچھی بات یہ ہے کہ اب یہ جماعتی بنیادوں پر ہوئے ہیں۔ ان سے پارٹیوں کو موقع ملے گا کہ وہ دیکھیں کہ نچلی سطح پر کون سے لوگ مقبولیت اور عوامی حمایت رکھتے ہیں۔ ان حکومتوں کو فراہم کیے جانے والے وسائل اور اختیارات انہیں مضبوط اور فعال کریں گے۔ اس سے نچلی سطح پر جمہوری قدریں مضبوط ہوں گی تو شاید ان کا اثر پارٹیوں کی ٹاپ قیادت پر بھی پڑے۔ یہ ہمارے ملک اور اس کی جامد سیاست کے لیے ایک خوش آئند بات ہوگی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved