معروف اور مقبول بھارتی شاعر بشیر بدرؔ نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ غالب کے 27 اشعار ایسے ہیں جو ضرب المثل ہونے کی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ میرے 67 اشعار ضرب المثل بن چکے ہیں۔ اس پر اگلے روز جناب انتظار حسین نے اپنے کالم میں نہ صرف موصوف پر طنز و تشنیع کے تیر برسائے بلکہ اُن کا مذاق بھی اُڑایا۔ سوال یہ ہے کہ کیا انتظار حسین نے بشیر بدر کو پڑھا ہے؟ اور اگر پڑھا بھی ہو تو موصوف جو میری ہی طرح کے ایک کالم نویس ہیں، ایسا فیصلہ کرنے میں حق بجانب ہو سکتے ہیں؟ بشیر بدرؔ کو پڑھا میں نے بھی نہیں ہے لیکن میں انہیں پڑھنا چاہتا ضرور ہوں جس کی اُمید ہے کہ کوئی نہ کوئی صورت نکل ہی آئے گی!
بشیر بدرؔ کے اس شعر کے ضرب المثل ہونے میں تو کوئی شک ہے ہی نہیں کہ ؎
اُجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
اس کے علاوہ مجھے اُن کا ایک اور شعر بھی یاد ہے ؎
محبتوں میں کوئی رنگِ دوستی نہ ملا
اگر گلے نہیں ملنا تو ہاتھ بھی نہ ملا
سوال کسی کا کسی سے بڑا، یا چھوٹا ہونے کا نہیں ہے بلکہ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ شاعری بھی ملبوسات کی طرح رُبع یا نصف صدی کے بعد اپنا فیشن تبدیل کرتی رہتی ہے اور یہ تبدیلی تقاضائے وقت کے مطابق ہی ہوتی ہے کہ کوئی بھی شاعری زیادہ دیر تک آپ کے ساتھ نہیں چل سکتی، کم از کم ایک ہی انداز کی شاعری، یگانہ نے تو باقاعدہ غالبؔ شکن ہونے کا دعویٰ کیا تھا‘ جبکہ بشیر بدر کے ہاں ایسی کوئی بات نظر نہیں آتی‘ پھر یہ کہ غالبؔ کو بھی بننے میں سو سال لگ گئے تھے کیونکہ آپ کا عہد آپ کا صحیح تخمینہ نہیں لگا سکتا بلکہ اصل صورت حال کہیں شاعر کی وفات کے پچاس سال بعد جا کر واضح ہوتی ہے کہ کوئی کتنے پانی میں تھا۔
کسی سے چھوٹا یا بڑا ہونے کی بات ویسے ہی فضول ہے۔ مثلاً میرؔ، غالبؔ اور اقبالؔ میں سے کس کو کس سے بڑا اور کس کو کس سے چھوٹا کہیں گے۔ اسی طرح راشدؔ، مجید امجدؔ، فیضؔ، ناصرؔ کاظمی اور منیر نیازیؔ کی صورتِ حال بھی کم و بیش ایسی ہی ہے کیونکہ ہر شاعر اپنا اپنا کردار ادا کر جاتا ہے اور اپنی اپنی خوبیوں کی بناء پر بڑا ہوتا ہے کیونکہ جو شاعر ہے، اُسے بڑا یا چھوٹا ہونے سے کوئی غرض نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی اور کو اس ضمن میں پریشان ہونا چاہیے کیونکہ بقول شخصےؔع
جس دیے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا
بشیر بدرؔ اگر مشاعرے کثرت سے پڑھتے ہیں تو یہ بھی کوئی عیب کی بات نہیں کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ مشاعروں کا رسیا ہر شاعر معمولی ہو۔ ہمارے ہاں سب سے زیادہ مشاعرے عباس تابش پڑھتے ہیں۔ ملک کے اندر بھی اور باہر بھی، لیکن ان کے ایک اعلیٰ درجے کا شاعر ہونے میں کسی کو کوئی شبہ نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح امجد اسلام امجدؔ کا معاملہ ہے۔ ان کی غزل کو آپ زیادہ اہمیت نہ بھی دیں تو ان کی نظم سے کون انکار کر سکتا ہے؛ چنانچہ یہ ہرگز ضروری نہیں کہ ہر مشاعرہ پڑھنے والے کا کلام بھی مشاعرانہ ہو گا۔ بلکہ اب تو مشاعرہ سننے والے بھی اس قدر تبدیل ہو چکے ہیں کہ جدید شعر پر بھی کھل کر داد دیتے ہیں۔
غالبؔ ہوں، اقبالؔ یا ن م راشدؔ، ایک خطرے کی طرف ابھی کسی کا دھیان نہیں گیا، اور وہ یہ کہ ہمارے ہاں سے فارسی زبان کا چلن رفتہ رفتہ مفقود ہوتا جا رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اور دس بیس برس تک یہ زبان ہمارے لیے بالکل اجنبی ہو کر رہ جائے گی اور جس کا صاف مطلب یہ ہو گا کہ ہم خصوصاً اقبالؔ اور غالبؔ کے کم و بیش تین چوتھائی کلام سے محروم ہو جائیں گے اور غزل صرف ایران میں ہی پڑھی جائے گی۔ جہاں سے آئی تھی چنانچہ ہم عمرخیامؔ، سعدیؔ، حافظؔ، نظیریؔ،بیدلؔ، عرفی، عراقی اور دیگر فارسی اساتذہ سے فارغ ہو جائیں گے اور ان کا کلام لائبریریوں ہی کی زینت ہو کر رہ جائے گا جبکہ غالبؔ کے عہد میں تو سرکاری زبان بھی فارسی تھی اور غالبؔ نے اپنے فارسی کلام کو ہی اپنی اصل شاعری قرار دیا ہے۔ میں نے لکھنے کو تو ایک بار لکھ ہی دیا تھا کہ جس شاعر کی فارسی جتنی کمزور ہے اس کی شاعری بھی اتنی ہی کمزور ہو گی لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ ہمیں فارسی کے بغیر ہی گزارہ کرنا پڑے گا۔
اب پھر بشیر بدرؔ کی طرف آتے ہوئے کہ شاعر کو اپنی درجہ بندی کرنے کا اختیار خود بھی ہونا چاہیے۔ اگر ارتقاء کے نظریے سے انکار نہیں کیا جا سکتا تو غالبؔ سے بڑا یا بہتر شاعر ہونا کیوں ممکن نہیں ہے کیونکہ میرؔ سمیت غالبؔ خود جن شعراء کے بعد آیا، ان میں کون سی کمی تھی؛ چنانچہ یہاں بشیر بدرؔ کی شاعری کو بانس پر چڑھانا یا غالبؔ کی بدخوئی مقصود نہیں ہے بلکہ صرف یہ کہ ہمیں کسی تعصب کے بغیر اور کھلے دل سے چیزوں کو دیکھنا چاہیے اور نہ فیصلہ سازی اتنی جلد بازی میں کرنی چاہیے جبکہ کسی کی تضحیک کی تو ہر گز کوئی گنجائش نہیں ہے، اُمید اور امکان کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اور اب یہ غزل بطور خانہ پُری:
جو بھی اپنے تئیں جوڑا میں نے
اور ہی طرح سے توڑا میں نے
کوئی اُلٹا ہی سفر تھا درپیش
کس دیا زین پہ گھوڑا میں نے
اپنے ہی سامنے کیوں لا رکھا
آپ کی راہ کا روڑا میں نے
کر دیا اس کو زیادہ واپس
رکھا اپنے لیے تھوڑا میں نے
میرا اپنا ہی بیاں تھا جس کو
بعد میں توڑا مروڑا میں نے
میں نے سوئے ہوئے سے کچھ نہ کہا
جاگتے کو ہی جھنجھوڑا میں نے
دیکھ تو اپنا ہی بھانڈا کیسے
عین چوراہے میں پھوڑا میں نے
پھُسپھُسے شعر پہ بیسود ظفرؔ
دل کا لیموں بھی نچوڑا میں نے
آج کا مطلع
گو گو گا گے گا‘ اتنا بھاگے گا
آنکھ جھپکتے ہی سب سے آگے گا