اداکاری تو خیر غنیمت ہے جس پر پھر کبھی بات ہوگی مگر ہاں، عجیب و غریب حرکتوں اور الل ٹپ باتوں سے لوگوں کو اپنی متوجہ کرنے کا فن سلمان خان کو خوب آتا ہے۔ یہ فن انہیں اپنے والد کی طرف سے ملا ہے جو بالی وڈ کے بہت بڑے اسکرین رائٹر رہے ہیں۔ سلیم خان نے کم و بیش 16 سال جاوید اختر کے ساتھ کام کیا۔ ''سلیم جاوید‘‘ کے نام سے دونوں نے ہاتھی میرے ساتھی، انداز، زنجیر، دیوار، مجبور، شعلے، کالا پتھر، تری شول، دوستانہ، شان اور شکتی جیسی انتہائی کامیاب فلمیں دیں۔
سلمان خان کی فنکارانہ صلاحیتوں کی طرح سلیم خان کے فن پر بھی پھر کبھی بات کریں گے، اس وقت بات ہو رہی ہے سلمان کی عجیب و غریب حرکتوں کی۔ سلمان کو جسم کی نمائش کا شوق ہی نہیں، ہَوکا ہے۔ بہت سی فلموں میں وہ شرٹ کے بغیر دکھائی دیئے ہیں۔ بات یہ بھی ہے کہ سلمان نے اپنے جسم پر بہت محنت کی ہے۔ ظاہر ہے وہ اپنا خوبصورت جسم دنیا کو دکھانا چاہتا ہے اور یہ دلی خواہش کے ساتھ ساتھ کاروباری تقاضا بھی ہے۔ یہاں تک تو بات ٹھیک ہے، مگر دبنگ خان کا یہ کہنا ہے کہ اگر کبھی پورے کپڑے پہنے ہوں تو کچھ کچھ ہونے لگتا ہے! لوگ سَلّو بھائی کی عزت ایویں ای تو نہیں کرتے۔ دیکھا آپ نے؟ ایک جملے میں بالی وڈ کی پوری ''ورکنگ فلاسفی‘‘ بیان کردی! جس ماحول کے وہ پروردہ ہیں اور جس طرز کی زندگی بسر کرتے آئے ہیں اس کی روشنی میں ان سے ایسی ہی ما فوق الفطرت نکتہ سرائی کی توقع کی جاسکتی ہے! سَلّو بھائی
کی باتوں سے لوگ پتا نہیں کیسے کیسے فلسفے کشید کرتے رہتے ہیں۔ ہم نے سوچا ان کی باتوں سے تھوڑی بہت دانائی پانے کی کوشش ہم بھی کر دیکھیں تو آخر ایسا کرنے میں ہرج ہی کیا ہے۔ سَلّو بھائی ہوں یا عمران ہاشمی، دونوں ہی باڈی لینگویج میں بات کرنے کے عادی ہیں۔ اور عمران نے تو کمال ہی کردیا ہے۔ اس نے باڈی لینگویج کو سمیٹ کر ہونٹوں کی کوٹھری میں بند کردیا ہے۔ اب اس کے صرف ہونٹ بولتے ہیں اور باقی جسم گھاس چَرنے گیا ہوتا ہے! مہیش بھٹ کا بھانجا ہونے کی حیثیت سے عمران ہاشمی کو ثابت کرنا ہی تھا کہ وہ بھی انوکھا واقع ہوا ہے۔
مرزا تنقید بیگ بھارتی سیاست پر اتھارٹی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس میں کمال ومال کچھ نہیں۔ چند ایک باتیں ہیں جنہیں ذہن نشین رکھا جائے تو کوئی بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ دِلّی سرکار کب کیا چاہتی ہے اور کیوں چاہتی ہے۔ جب ہم نے بتایا کہ سَلّو بھائی پورے کپڑوں میں بہت بے چینی محسوس کرتے ہیں تو مرزا نے کہا: ''ایسا لگتا ہے سَلّو بھائی آگے چل کر سیاست کے میدان میں قدم رکھیں گے۔ سیاست میں ایسے ہی لوگ زیادہ دور تک چلتے ہیں جو پورے کپڑوں میں الجھن محسوس کرتے ہوں۔ اور اگر بھارتی سیاست کی بات کریں تو یقین کرنے کو جی چاہتا ہے کہ سیاست اور برہنگی مترادف الفاظ ہیں۔ ایک زمانے سے جمہوری دِلّی کے تخت پر اُن لوگوں کا راج رہا ہے جو اپنے ارادوں اور اعمال کو کسی بھی طرح کا لباس پہنانے پر زیادہ یقین نہیں رکھتے! مودی سرکار ہی کو دیکھیے۔ بہت کچھ ہے جو درست ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ مگر اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کا شوق جادو کی طرح سَر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ایسے میں بھارت کے بیشتر امکانات سُولی پر چڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔ جُنونی ہندو یا تو بے قابو ہیں یا پھر انہیں جان بوجھ کر بے لگام کردیا گیا ہے۔ یہ سب کیوں ہے؟ بادی النظر میں تو سَلّو بھائی والی بات درست محسوس ہوتی ہے۔ جس طور بالی وڈ کے بہت سے اسٹارز کو باڈی دکھانے یعنی باڈی لینگویج میں بات کرنے کا شوق ہے بالکل انڈین پولیٹیکل سرکس کے بیشتر فنکار بھی باڈی لینگویج میں بات کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ چھوٹے ہمسایوں کو دِلّی سرکار شو آف باڈی کے ذریعے دھمکانے اور دبانے کی کوشش کرتی آئی ہے اور بیشتر کوششیں، بھارت کے جغرافیائی، معاشی اور سیاسی حجم کی بدولت، کامیاب رہی ہیں۔
تعلیم و تربیت کے بلند ترین معیارات کو چُھونے اور جدت و ارتقاء کی راہ پر گامزن ہونے کے تمام بھارتی دعوے اپنی اصل میں خاک سے بڑھ کر کچھ معلوم نہیں ہوتے۔ بہت کچھ پاکر بھی بھارتی معاشرہ اب تک پانچ ہزار سال پہلے دور میں جی رہا ہے۔ عمومی ذہنی پستی وہی ہے کہ جو تھی۔ جدید ترین چمکیلے، بھڑکیلے لباس پہن لینے سے اندر کا کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔ دِلّی سرکار یا تو جُنونیوں کو استعمال کر رہی ہے یا پھر اُن کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ اہلِ سیاست کا باطن بے لباس ہوکر سامنے آتا رہتا ہے۔ ایک طرف جُنونی ہندوؤں کی روز افزوں سرکشی ہے اور دوسری طرف دِلّی سرکار کی سادہ و معصوم بے بسی! جو ہاتھ معاشرے کے تانے بانے کو بکھیرنے پر تُلے ہوئے ہیں اُنہیں روکنے کی جسارت تو دور کی بات ہے، شاید ایسی نیت بھی ابھی پیدا نہیں ہوئی۔ دائیں بازو کے انتہا پسند بھارتی سیاست دان اپنا ووٹ بینک برقرار رکھنے کے لیے اب تک باڈی لینگویج کا سہارا لے رہے ہیں۔ انہیں اپنے عزائم اور اعمال دونوں کو بے لباس کرنے میں شرم محسوس ہوتی ہے نہ باک۔ شیو سینا، بجرنگ دل، وشو ہندو پریشد اور دیگر انتہا پسند تنظیموں نے جو رنگ ڈھنگ اپنائے ہیں وہ بالی وڈ والوں کو بھی شرمندہ کیے دیتے ہیں۔ نریندر مودی نے منت مرادوں سے جو وزارتِ عظمیٰ پائی ہے اُس کے تابوت میں خود ہی کیلیں ٹھونکتے جارہے ہیں اور جو لوگ اس تابوت کو دریا برد کرنے پر تُلے ہیں ان کی مدد کرنے سے بھی نہیں چُوک رہے! انتہا پسند ہندوؤں کی جنونیت کا جن ایک بار پھر بوتل سے باہر آچکا ہے اور اس کے تن پر صرف لنگوٹ ہے۔ تن پر صرف لنگوٹ ہو تب ہی تو جسم کی بھرپور نمائش ممکن ہے فریقِ ثانی کو طاقت کا بھرپور اندازہ کرایا جاسکتا ہے۔ اِس وقت بھارت میں ہندُتوا کی سیاست ایک بار جس طرح رقص میں مصروف ہے اُسے دیکھتے ہوئے کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ بھارت کو چمکتا دمکتا بنانے کے خواب تاریکی کے پہاڑوں سے ٹکراکر چکنا چور ہونے میں دیر نہیں لگائیں گے!
بالی وڈ اسٹارز نے جو رجحان اپنی کاروباری ضرورت کے تحت پروان چڑھایا اُسی کو اب مرکزی دھارے کے بھارتی سیاست دانوں نے بھی اپنے کاروبار میں کامیابی کا فنڈا سمجھ کر قبول کرلیا ہے۔ قبولیت کا عالم یہ ہے کہ ان کا سبھی کچھ اس رجحان کی نذر ہوگیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب بالی وڈ اسٹارز بھی راج نیتی کے میدان میں چومکھی جنگ لڑنے والوں کو نیت، کردار اور عمل کی نمائش کرتے دیکھتے ہوں گے تو اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہوں گے۔