خورشید رضوی کی شاعری میں روزِ ازل کے پیمان کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ فردوسِ گم گشتہ کی تصویریں، جو کبھی تھا اور جس کی تمنا بے تاب کیے رکھتی ہے۔ حیات کی ہما ہمی میں جو کبھی یاد آتا ہے، کبھی بھلا دیا جاتا ہے... اور اس بھول جانے کا غم، شاموں اور شبوں کی خاموشی میں دل پر دستک دیتا ہے۔ دیتا ہی رہتا ہے!
لسانی افلاس کے اس عہد ہی کی بات نہیں۔ گزرے ہوئے بے نام زمانوں سے آج تک شاعروں ہی نے حسنِ بیاں کے جلال و جمال کو زندہ رکھا۔ انسانی لغت ورنہ بازاروں اور درباروں میں برباد ہو گئی ہوتی۔ شاعر اگر نہ ہوتے، پھول اور بادل اگر نہ ہوتے۔ کرّہء خاک اگر چمن زاروں، ندیوں اور دریائوں سے تہی ہوتا تو اس ویرانے میں زندگی کیسی ہوتی؟
ڈاکٹر وزیر آغا نے کہا تھا: اس کے ہاں کلاسیکی عہد کی غنائیت بھی ہے اور زمانہء حال کی تیز نگاہی بھی‘ جو عالمِ صغیر اور عالمِ کبیر دونوںکی کناہ تک پہنچنے کی سعی میں ہے۔
ایک نامور سکالر، ماہرِ لسانیات اردو ہی نہیں، عربی کا مزاج شناس، فارسی اور پنجابی پہ دسترس۔ ایک مرتب اور مہذب آدمی۔ ادب اور تعلیم کے ہر دیار میں جس کا اکرام ہے۔ با ایں ہمہ اداسی ہے کہ اس کا پنڈ نہیں چھوڑتی۔ کیا محض ایک مورت کے گم ہو جانے کا ملال ہے یا کچھ اور بھی؟ وہ، جس نے اقبالؔ کو رلائے رکھا۔ ''ہم رہے اور قوم کے اقبال کا ماتم رہا‘‘ خورشید رضوی کا حزن دھیما ہے، خود اپنے آپ سے کلام کرتا اور سوال پوچھتا ہوا مگر پیہم اور مسلسل، گویا ایک طرزِ زندگی ہے۔ زمستاں سے پہلے خزاں کی شام میں ابر برستا ہے اور پیلے پتّے شجر سے رہائی پاتے ہیں۔ خورشید رضوی خزاں کے اسی موسم کا شاعر ہے، جو بہت طویل ہو گیا ہے۔ مدّتوں سے اس کی قوم خزاں کی دہلیز پہ ششدر کھڑی ہے۔ سامنے اس کے ایک جنگل ہے اور اس جنگل کے پار وہی فردوسِ گشتہ مگر اب تک وہ ٹھٹھری کھڑی ہے۔ خزاں کی یہ راتیں خورشید رضوی کے مطالعے کے لیے شاید موزوں تر ہیں۔ ان کا تازہ مجموعہء کلام... دیریاب۔
دل غمِ ہستی کے ہاتھوں خوں فشاں ہے
تو کہاں ہے؟
رخ پہ پھر اشکوں کا سیلابِ رواں ہے
تو کہاں ہے؟
اے رگِ جاں سے قریب تر
فاصلے سے جلوہ افگن ہو
کہ میں کچھ دیکھ پائوں
ثبت کر ماتھے پہ میرے اپنے بوسے کا نشاں
اپنا دستِ غیب مرہم کی طرح دل پہ اتار
ریت کی دیوار کی صورت
ہوائے تند کی زد پہ یہ عمرِ رائیگاں ہے
تو کہاں ہے؟
............
یہ در و بام پہ گنبد و محراب
سربسر ہیں مری نظر کا حجاب
کاش پھر سے وہی مدینہ ہو
پھر وہی شہرِ پُر سکینہ ہو
کچّی گلیاں ہوں، کچّی دیواریں
اور کھجوروں کے شاخچوں کی چھتیں
کو بہ کو نقشِ پائے احمدؐ ہو
سو بہ سو خوشبوئے محمدؐ ہو
صورتیں ہوں نبیؐ کے پیاروں کی
جس طرح مشعلیں ستاروں کی
اہلِ منزل نہ راستہ پوچھیں
آنکھ سے دیکھ لیں تو کیا پوچھیں
ڈاکٹر خورشید رضوی کو جو حزن عطا ہوا، وہ اسے قاری کی رگِ جاں میں گھولتے ہیں۔ ان کی آوا ز خون کی روانی میں ڈوبتی، تیرتی اور ابھرتی رہتی ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ شاعر کے عہد نے پوری طرح اسے پہچانا کیوں نہیں۔ مجید امجد کے ہم نفس نے مجید امجد ہی کا مقدر پایا۔
خوب و ناخوب کی جاں سوز یہ کاہش کیوں ہے
دل جسے ترک کرے، دل میں وہ خواہش کیوں ہے
پار کیوں میری نظر کو نہیں جانے دیتے
آنکھ پہ حلقہء آفاق کی بندش کیوں ہے
زخم در زخم ترے دستِ جفا سے ہے نگر
دل ترے نام پہ مجبورِ ستائش کیوں ہے
............
وہی خوشبو کبھی گلشن سے کبھی بن سے نکال
وہی آتش کبھی گل سے کبھی آہن سے نکال
آنکھ کو وسعتِ صحرا کا تماشائی کر
نگہء مردہ و افسردہ کو روزن سے نکال
کر کچھ ایسا کہ تری خاک میں پرواز آئے
اب کوئی اسپ فلک سیر اسی توسن سے نکال
قربِ منزل کی بشارت ہے بہت دور کی بات
راہبر پہلے ہمیں پنجہء رہزن سے نکال
............
ریت کی طرح نہ مٹھی سے پھسلتی چلی جا
اے مری عمرِ رواں یوں بھی نہ ڈھلتی چلی جا
پائوں محکم نہیں پڑتا تو آزردہ نہ ہو
ٹھوکریں راہ کی برحق ہیں، سنبھلتی چلی جا
ذوقِ پروانگی پایا ہے تو جلنا ہو گا
شمع بن جانے کی دھن ہے تو پگھلتی چلی جا
............
یہ سب زمین و زماں پھر بنانا چاہتا ہوں
بگڑ گیا ہے جہاں، پھر بنانا چاہتا ہوں
وہ جن میں ہوں نئے امکاں، نئے شب و روز
میں اپنے وہم و گماں پھر بنانا چاہتا ہوں
جو میرے اپنے ہوں اور اپنے ہاتھ میں ہوں
وہی خدنگ و کماں پھر بنانا چاہتا ہوں
بہت دنوں سے اسے سن کے جاگتے نہیں دل
حرم کی طرز اذاں پھر بنانا چاہتا ہوں
............
مسکراہٹ نقش ہے ہونٹوں پہ عبرت کی طرح
غم بہت کم رہ گیا آنکھوں میں حیرت کی طرح
زندگی گزری تھی بہت پُرلطف بھی، سنسان بھی
سردیوں کی تنہا رات کی مسافت کی طرح
آدمی کی خصلتوں ہی میں ہے اس کی سرنوشت
ہے مرا رنگِ طبیعت میری قسمت کی طرح
جانے کس لمحے کوئی محشر بپا ہو جائے گا
سب کے دل میں ایک لمحہ ہے قیامت کی طرح
............
سایہ بن جائوں، نہ پل بھر تجھے تنہا چھوڑوں
چھوڑ دوں اپنا وطن، اپنا قبیلہ چھوڑوں
گونج دھڑکن کی سنوں گنبدِ دل میں محصور
دل سے باہر جو نکلتا ہے وہ رستہ چھوڑوں
اپنے ہونے کا پتہ دینے کی دھن کیسی ہے
پائوں جل جائیں مگر نقشِ کفِ پا چھوڑوں
تو بھی اے شامِ طرب اب مرے خوابوں سے نکل
میں بھی اے صبحِ تمنا ترا سودا چھوڑوں
............
کمال ضبط ملا ہے مجھے مگر پھر بھی
سلگ اٹھا غمِ پنہاں سے پیرہن آخر
کبھی ملا تو کدورت بھی چھَٹ جائے گی
کہ دائمی تو نہیں چاند کا گہن آخر
............
جو میسر تھا، لٹاتے رہے سرشاری میں
اہلِ دنیا سے کسی چیز کی قیمت نہیں لی
ہم نے جو کچھ بھی کیا، عمرِ دو روزہ میں کیا
ابدیت کے لیے مرگ سے مہلت نہیں لی
اس گرانی کی سکت مرے کاندھوں میں نہ تھی
بھول کر ہاتھ میں آبا کی وصیت نہیں لی
اک نگاہِ غلط انداز بھی دنیا پہ نہ کی
رشک تو دور بہت دور ہے، عبرت نہیں لی
کتاب سے جن کا رشتہ ہی نہیں، انہیں کیا خبر کہ شعر کیا ہے۔ کہانی کیا ہے اور زندگی کو ان کی احتیاج کیوں ہے۔ افسوس کہ شہر بازار ہو گئے۔ گھر اور دل ویران ہوئے۔
ایک نہیں، خورشید رضوی کے شعر میں ان گنت حسرتوں کی بازگشت ہے۔ زندگی کے شائستگی سے محروم ہو جانے کا مسلسل نوحہ۔ دہائی دیتا ہوا اس کا بچپن اور لڑکپن۔ حیرت انگیز یہ ہے کہ شاعر میں اس عہد کی معصومیت پوری طرح بے ساختگی کے ساتھ زندہ ہے، سانس لیتی ہوئی۔ اپنے زمانے سے ماورا، اپنے عہد سے بے نیاز۔ اپنے گرد و پیش کے گنوار پن سے گریز کی آرزو، بیتے زمانوں میں جی نہ سکنے کی کی حیرت۔ ''دیریاب‘‘۔ خورشید رضوی کی شاعری میں روزِ ازل کے پیمان کی بازگشت ہے۔ فردوسِ گم گشتہ کی تصویریں، جو کبھی تھا اور جس کی تمنا بے تاب کرتی ہے۔ حیات کی ہما ہمی میں جو کبھی یاد آتا ہے، کبھی بھلا دیا جاتا ہے... اور اس بھول جانے کا غم شاموں اورشبوں کی خاموشی میں دل پر دستک دیتا ہے۔ دیتا ہی رہتا ہے!