تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     05-11-2015

بلدیاتی انتخابات:ایک تجزیہ

پنجاب اور سندھ میں پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج نہ صرف ہارنے بلکہ جیتنے والوں کیلئے بھی حیران کْن ہیں۔دونوں صوبوں میں برسرِاقتدار جماعتیں اگرچہ کامیابی کیلئے پرْاْمید تھیں تاہم اْنہیں اس بات کا یقین نہیں تھا کہ وہ اتنے بڑے فرق سے جیتیں گی۔ پنجاب کے بارہ اضلاع میں مسلم لیگ(ن)نے کونسلرز،چیئرمین اور وائس چیئرمین کی کل 2696میں سے تقریباً بارہ سو نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ سندھ میں جہاں 8اضلاع میں انتخابات ہوئے جیتنے والی پارٹی یعنی پیپلز پارٹی کی جیت کا مارجن اس سے بھی زیادہ تھا۔اس نے1070میں سے 789نشستوں پر قبضہ کر لیا۔ایک اور حیران کْن پہلو بڑی تعداد میں آزاد اْمیدواروں کی کامیابی ہے۔دونوں صوبوں کی کل 3766میں سے1239نشستوں پر ایسے اْمیدوار کامیاب ہوئے جنہوں نے آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا تھا جو کہ کل نشستوں کا تقریباًتہائی بنتا ہے۔سندھ کی1074نشستوں پر174آزاد اْمیدوار کامیاب ہوئے جبکہ پنجاب میں آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے اْمیدواروں کی تعداد 1065ہے ‘جو کہ صوبے میں کامیاب ہونے والے تمام اْمیدواروں کا تقریباً 40فیصد ہے۔سندھ میں یہ تناسب 16.26فیصد رہا۔
سب سے زیادہ حیران کْن بلکہ مایوس کْن کارکردگی تحریک انصاف کی ہے‘جس نے صرف287نشستیں حاصل کیں۔لاہور جسے بجا طور پر پاکستانی سیاست کا محور کہا جاتا ہے پی ٹی آئی کے حصہ میں274میں سے صرف 12نشستیں آئیں۔صرف تین ہفتے قبل 11اکتوبر کو لاہور کے ضمنی انتخابات میں حیران کْن کامیابی حاصل کرنے پی ٹی آئی کی یہ عبرت ناک شکست بہت سے لوگوں کیلئے ناقابل فہم ہے۔ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی نے نہ صرف حلقہ این اے122میں پی ایم ایل(ن)کے اْمیدوار سردار ایاز صادق کی جیت کے فرق کو کم کر دیا تھا بلکہ اسی حلقے میں ن لیگ کی ایک صوبائی نشست پی پی۔144پر بھی قبضہ کرلیا۔ان کامیابیوں کے بعد پی ٹی آئی کو لاہور کے بلدیاتی انتخابات میں اپنی بھاری کامیابی کا پورایقین تھا بلکہ پی۔ٹی۔آئی کی قیادت کا دعویٰ تھا کہ وہ ان انتخابات میں ثابت کردیں گے کہ لاہور ن لیگ کا نہیں بلکہ پی ٹی آئی کا گڑھ ہے۔
لیکن ایسا دعویٰ کرتے وقت پی ٹی آئی کی قیادت یہ بھول گئی تھی کہ ہر سطح پر ہونے والے انتخابات کے اپنے اپنے محرکات اور تقاضے ہوتے ہیں۔صوبائی اور قومی حلقوں میں ووٹروں کی بڑی تعداد کے پیش نظر اْمیدواروں کی جانب سے بڑے بڑے جلسے اور حصہ لینے والی سیاسی پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے دھوآں دار تقریریں اثر دکھا سکتی ہیں‘لیکن بلدیاتی انتخابات خواہ وہ یونین کونسل‘ ٹائون کمیٹیوں یا کنٹونمنٹ بورڈ کی سطح پر ہوں،گلی محلے کے انتخابات ہوتے ہیں۔جہاں ڈورٹوڈور انتخابی مہم زیادہ کارگر ثابت ہوا کرتی ہے۔اس قسم کی مہم میں حصہ لینے کیلئے جن کارکنوں کی ضرورت ہوتی ہے،وہ مسلم لیگ(ن)کے پاس کافی تعداد میں ہیں۔مگر پی ٹی آئی کے پاس نہیں کیونکہ اْس نے اس طرف توجہ نہیں دی۔گذشتہ دوڈھائی برسوں میں پی ٹی آئی نے نچلی سطح پر کارکنوں کو منظم کرنے کی بجائے،دھرنوں اور احتجاجی سیاست پر اپنی توجہ مرکوزکیے رکھی۔یہ سچ ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں صوبے کی حکمران جماعت کو اقتدار کافائدہ پہنچنے کے امکانات ہوتے ہیں لیکن ایسا ہونا ناگزیر نہیں ہوتا۔اگرعوام صوبائی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہ ہوں تو وہ اپنے عدمِ اطمینان کو مختلف طریقوں سے ظاہر کرسکتے ہیں۔ان بلدیاتی انتخابات میں حکمران پارٹی کے نامزد اْمیدواروں کے خلاف ووٹ ڈالنے کا اقدام بھی شامل ہے۔پنجاب میں برسرِاقتدار مسلم لیگ(ن)کی صوبائی حکومت کی کارکردگی آئیڈیل نہ سہی لیکن نسبتاً بہتر رہی ہے۔اس لیے یہاں ان دونوں محرکات یعنی کارکردگی اور پارٹی تنظیم نے فیصلہ کْن کردار اداکیا ہے۔
لیکن سندھ میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کے محرکات کو سمجھنے کیلئے مسئلے کا ایک وسیع تر تناظر میں جائزہ لینا پڑے گا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ کے دیہی اور سندھی بولنے والے لوگوں کی اکثریت کے علاقوں میں پیپلز پارٹی کو بھاری عوامی حمایت حاصل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی کا ہنوز کوئی سیاسی متبادل نہیں تو مبالغہ نہیں ہو گا۔لیکن کچھ عرصہ سے پیپلز پارٹی دوطرف سے سخت دبائو کا شکار ہے۔ایک تو فوج کی حمایت سے رینجرز نے احتساب اور بدعنوانی کے نام پر پیپلز پارٹی کے خلاف محاذکھول رکھا ہے، دوسری اس کے مقابل ایک وسیع تر سیاسی اتحاد کھڑا کرنے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔جس میں بعض سیاسی جماعتوں کے علاوہ مسلم لیگوں کے مختلف دھڑے بھی شامل ہیں۔بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی کے خلاف ایک درجن سے زیادہ چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیوں کے اتحاد نے‘ جن میں مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی اور سابق صدر پرویز مشرف کی پارٹی آل پاکستان مسلم لیگ بھی شامل تھی‘حصہ لیا تھا لیکن قابلِ ذکر کامیابی 
صرف مسلم لیگ(فنکشنل)نے حاصل کی جس کے اْمیدوار 72حلقوں میں کامیاب ہوئے؛ جبکہ پی ٹی آئی نے پانچ اور مسلم لیگ(ن)نے تین نشستیں حاصل کیں۔ان نتائج کی بنیاد پر اگر یہ کہا جائے کہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات میں برسرِاقتدار پارٹی کی کارکردگی یا اس کی تنظیم سے زیادہ سیاسی محرکات نے کردارادا کیا ہے تو غلط نہیںہوگا۔ پیپلز پارٹی جو2008ء کے انتخابات کی طرح 2013ء میں بھی عوامی تائید سے صوبے میں برسرِاقتدار آئی‘ اْسے سندھ میں ابھی تک عوامی تائید حاصل ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی کے اْمیدواروں کی بھاری تعداد میںکامیابی نے اُسے جائز مینڈیٹ سے محروم کرنے کی سازش کو ناکام بنادیا ہے۔پنجاب میں بھی اگرچہ حکمران جماعت مسلم لیگ کو بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کا تقریباً تیس برس کا تجربہ حاصل ہے،کسی حد تک سیاسی کردار نے بھی اپنا کردار اداکیا ہے۔2013ء کے انتخابات کے فوراً بعد نہ صرف کامیاب ہونے والی پارٹی یعنی مسلم لیگ(ن)کے مینڈیٹ کو دھاندلی کے الزامات کے ذریعے جعلی قرار دینے کا آغاز ہوگیا تھا،بلکہ2013ء کے انتخابات کو بھی متنازع ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔بلدیاتی انتخابات میں عوام نے نہ صرف 2013ء کے انتخابی نتائج پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے بلکہ اْن تمام حلقوں کو‘ جو عوامی تائید سے کامیاب ہونے والی سیاسی قوتوں کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے ہمیشہ درپے رہتے ہیں،منہ توڑ جواب دیا ہے۔
جہاں تک بڑی تعداد میں آزاد اْمیدواروں کی کامیابی کا تعلق ہے تو اس کی وجوہ تاریخی بھی ہیں اور اس کا سبب سیاسی پارٹیوں کی کمزور تنظیم اور نظم و ضبط کے فقدان میں بھی مضمرہے۔ہندوستان میں مقامی حکومتوں کا نظام کسی نہ کسی شکل میں زمانہ قدیم سے چلاآرہا ہے ''گائوں‘‘ایک مکمل اور خودکفیل انتظامی اور سیاسی اکائی ہواکرتا تھا۔موجودہ نظام کو انگریزوں نے انیسویں صدی کی آخری دودہائیوں میںمتعارف کروایا تھا اور اسے جان بوجھ کر غیر سیاسی بنیادوں پر کھڑاکیا تھا تاکہ برطانوی نوآبادیاتی استعمار کو للکارنے والی سیاسی قوتیں سر نہ اْٹھا سکیں۔آزادی کے بعد بھارت میں تو اس روایت کو ترک کر دیاگیالیکن پاکستان کی مختلف حکومتوں خصوصاً مارشل لاء ادوار میں اْسی پرانے مقصد کیلئے ان مقامی حکومتوں کے ادارے غیر سیاسی بنیادوں پر قائم رکھنے کی روایت پر متواتر عمل ہوتا رہا۔موجودہ بلدیاتی انتخابات پہلی دفعہ سیاسی بنیادوں پر منعقد کیے جارہے ہیں لیکن ماضی کا اثر ابھی قائم ہے۔اس لیے قومی اور صوبائی انتخابات کے مقابلے میں بلدیاتی انتخابات میں آزاد اْمیدوار زیادہ تعداد میں کامیاب ہوتے رہے ہیں۔دوسری طرف سیاسی پارٹیاں ڈھیلے نظم و ضبط کے باعث اپنے حمایتی اْمیدواروں پر اپنے فیصلے مسلط کرنے کی استطاعت سے محروم ہیں۔اس لیے آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے والے بیشتر اْمیدوار سیاسی پارٹیوں سے ہی وابستہ ہیں اور ان میں سے اکثر کامیابی حاصل کرنے کے بعد اپنی پسند کی پارٹی میں شامل ہوجائیں گے۔
یکم نومبر کو پنجاب کے بارہ اور سندھ کے آٹھ اضلاع میں انتخابات ہوئے تھے۔ابھی ان دونوں صوبوں کے باقی اضلاع میںدو مرحلوں میں بلدیاتی انتخابات ہوں گے ؛چنانچہ دونوں صوبوں کے بلدیاتی انتخابات مکمل ہونے کے بعد ہی مکمل اورصحیح صورتِ حال واضح ہوسکے گی؛تاہم پہلے مرحلے کے نتائج کے اگلے مرحلے کے انتخابات پر اثر کو خارج ازامکان قرار نہیں دیاجاسکتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved