تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     05-11-2015

تنو مند رسالے (2)

آج جس پہلوان رسالے کا ذکر مطلوب ہے۔ اُسے بڑی آسانی سے رُستمِ زماں کا نام دیا جا سکتا ہے۔ یہ سہ ماہی کولاژ ہے جسے جناب اقبال نظر کراچی سے نکالتے ہیں۔ یہ اس کا پانچواں شمارہ ہے اور جو معروف بھارتی شاعر گلزارؔ کے نامِ نامی سے منسوب کیا گیا ہے۔ 600 صفحات کو محیط اور قیمت 700 روپے ۔ سرورق شاعر ہی کی ایک خوبصورت پینٹنگ سے مزین ؛ جبکہ اندر موصوف کی بنائی ہوئی مزید تصاویر بھی چھاپی گئی ہیں۔
پاکستان میں شاید ہی کسی بھارتی شاعر کو اتنی عزت، احترام اور محبت کی نظر سے دیکھا جاتا ہو۔ ویسے بھی وہ بقول خود آدھے بھارت میں ہیں تو آدھے پاکستان میں۔ تعلق دینہ سے ہے جو ان کے جذبات اورناستلجیا کا باقاعدہ اور طاقتور حصہ ہے۔ موصوف شاعری اور مصوری کے علاوہ فلمی دنیا سے بھی متعلق ہیں۔ شاعری پنجابی میں بھی کرتے ہیں اور ایک رنگا رنگ شخصیت کے مالک۔ اندرونِ سر ورق ان کے فوٹو گراف سے سجایا گیا ہے۔
مضمون آرائی کرنے والوں میں رسالے کی شریک مدیرہ شاہدہ تبسم (جن کا پچھلے دنوں انتقال ہو گیا) ستیہ پال آنند، جاوید صدیقی، رضا علی عابدی، مستنصر حسین تارڑ، پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم، امجد اسلام امجد، نصیر احمد ناصر، اسد مفتی، ایوب خاور، جتیندر بلو، طاہرہ اقبال، مشرف عالم ذوقی، علی حیدر ملک، علی تنہا، سہیل مقبول، حیدر قریشی، احمد فقیہہ، صلاح الدین حیدر، حسن عباس رضا، پروفیسر انوار احمد زئی، ڈاکٹر غلام شبیر رانا، کرن سنگھ، ڈاکٹر ناہید قاسمی، زیب اذکار حسین، عرفان جاوید، سلطان ارشد، گل شیر بٹ، حسن ضیاء، رابعہ الربا، محسن چنگیزی، امیر حسین جعفری، خرم سہیل، وحید احمد اور جاوید نظر شامل ہیں ۔تعارفی خاکہ بختیار احمد نے لکھا ہے۔
اس کے علاوہ گلزار کے افسانے، منتخب نظمیں، غزلیں اور ان کے تین افسانوں کا پنجابی ترجمہ پیش کیا گیا ہے جو اشفاق نابر نے کیا ہے جبکہ سیرِ گل کے نام سے رپور تاژ رشید بٹ کے قلم سے ہے۔ موصوف کی غزلوں کے کچھ اشعار دیکھیے:
کائی سی جم گئی ہے آنکھوں میں
سارا منظر ہرا سا رہتا ہے
ایک پل دیکھ لوں تو اٹھتا ہوں
جل گیا گھر، ذرا سا رہتا ہے
صرف اتنا کرم کیا کیجیے
آپ کو جتنا راس ہوتا ہے
رات گزرتے شاید تھوڑا وقت لگے گا
دھوب اُنڈیلو تھوڑی سی پیمانے میں
دن گزرتا نہیں ہے لوگوں میں
رات ہوتی نہیں بسر تنہا
آپ کے بعد ہر گھڑی ہم نے
آپ کے ساتھ ہی گزاری ہے
اور اب گلزار کی کچھ نظمیں:
اِیگو
میں نے ایک سایہ اپنا پال رکھا ہے... آگے پیچھے گھومتا ہے جیسے چھوٹا ''پومی‘‘ ہے... بھونکتا نہیں کبھی...کسی بھی اجنبی پہ 
یہ... اپنا ہی ملے کوئی تو کاٹ لیتا ہے... سایہ میرا کاٹ لے تو دانت کے نشان چھوڑ دیتا ہے... میں نے اپنا زہر سب... سائے میں سنبھال رکھا ہے... میں نے ایک سایہ پال رکھا ہے!!
آنکھوں کو ویزا نہیں لگتا
آنکھوں کو ویزا نہیں لگتا... سپنوں کی سرحد ہوتی نہیں... بند آنکھوں سے روز میں... سرحد پار چلا جاتا ہوں... ملنے مہدی حسن سے... سنتا ہوں ان کی آواز کو چوٹ لگی ہے... اور غزل خاموش ہے... سامنے بیٹھے ہوئے کانپ رہے ہیں ہونٹ غزل کے...پھر بھی ان آنکھوں کا لہجہ بدلا نہیں... جب کہتے ہیں... سوکھ گئے ہیں پھول کتابوں میں... یا رفراز بھی بچھڑ گئے ہیں... شاید ملے وہ خوابوں میں... بند آنکھوں سے اکثر سرحد پار چلا جاتا ہوں میں... آنکھوں کو ویزا نہیں لگتا... سپنوں کی سرحد نہیں ہوتی!
حویلی
اُدھیڑ کے زمین پر کٹا دیئے گئے حویلی کے تمام بال و پر... چھتوں سے کلغیاں چمکتی شمعوں کی اُتار کے... میانیں، تیغیں، ڈھالیں سب... دروں کی کھڑکیوں کے قبضے کھول کے: نمونے آنجہانی دستکاروں کے... چلا گیا ٹرک میں بھر کے دور ایک وقت کا... کباڑی لے گئے مکان تو لپیٹ کر... مگر مکاں کے پیچھے پائیں باغ میں لگا... غروبِ آفتاب کا سنہری پیڑ چھوڑ کر چلے گئے!
تسلسل
خلائوں میں تیرتے جزیروں پہ چمپئی دھوپ... دیکھ کیسے برس رہی ہے... مہین کہرا سمٹ رہا ہے... ہتھیلیوں میں ابھی تلک... تیرے نرم چہرے کا لمس ایسے چھلک رہا ہے... کہ صبح کو جیسے اوک میں بھر لیا ہو میں نے... بس ایک مدھم سی روشنی... میرے ہاتھوں پیروں میں بہہ رہی ہے... ترے لبوں سے... میں نور کا وہ حسین قطرہ بھی پی گیا ہوں... جو تیری اجلی دُھلی ہوئی روح سے پھسل کر تیرے لبوں پر ٹھہر گیا تھا!
ریفیوجی
ہم سب بھاگ رہے تھے... ریفیو جی تھے... ماں نے، جتنے زیور تھے، سب پہن لیے تھے... باندھ لیے تھے... چھوٹی مجھ سے...چھ سالوں کی... دودھ پلا کے، خوب کھلا کے ساتھ لیا تھا... میں نے اپنی ایک ''بھمبھیری‘‘ اور اک ''لاٹو‘‘ پاجامے میں اُڑس لیا تھا... رات کی رات ہم گائوں چھوڑ کر بھاگ رہے تھے... ریفیوجی تھے... آگ دھوئیں اور چیخ و پکار کے جنگل سے گزرے تھے سارے... ہم سب کے سب... گھور دھوئیں میں بھاگ رہے تھے... ہاتھ کسی آندھی کی آنتیں پھاڑ رہے تھے... آنکھیں اپنے جبڑے کھولے بھونک رہی تھیں... ماں نے دوڑتے دوڑتے خون کی قے کر دی تھی... جانے کب چھوٹی کا مجھ سے چھوٹا ہاتھ... وہیں اُسی دن پھینک آیا تھا اپنا بچپن...لیکن میں نے... سرحد کے سناٹوں کے صحرائوں میں اکثر دیکھا ہے... ایک ''بھمبھیری‘‘ اب بھی ناچا کرتی ہے... اور ایک لاٹو اب بھی گھوما کرتا ہے۔!
آج کا مقطع
شرمندہ بہت ہیں ظفر اس عیبِ سخن پر
اور اس کے سوا کوئی ہنر بھی نہیں رکھتے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved