تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     06-11-2015

لطیفوں کا مقدمہ

بی بی سی نے دہلی کی وکیل ہروندر کور چوہدری کے ایک مقدمے کی خبر یوں شروع کی:
ایک سکھ ڈاکٹر کو فون کر کے کہتا ہے:''ڈاکٹر صاحب میری بیوی پیٹ سے ہے اور ابھی سے درد ہو رہا ہے۔‘‘
ڈاکٹر پوچھتا ہے: ''کیا یہ اس کا پہلا بچہ ہے؟‘‘
جواب آتاہے: ''نہیں! میں اس کا شوہر ہوں۔‘‘
بہت سے لوگ اسے بے ضرر لطیفہ کہیں گے۔ لیکن اس لطیفے نے دہلی کی ایک سکھ وکیل ہروندر کور کو چراغ پا کر دیا ہے۔ یہ ان 60 لطیفوں میں سے ایک ہے ‘جن کی فہرست سکھ وکیل نے اپنی دو کروڑ کی قوم پر ‘بنائے جانے والے لطیفوں پر پابندی عائد کرنے کی غرض سے سپریم کورٹ میں پیش کی ہے۔ یہ ایک غیر معمولی اپیل ہے۔ ایک 54 سالہ سکھ وکیل کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ پر تقریباً 5ہزارویب سائٹس ہیں‘ جو لطیفے فروخت کرتی ہیں۔ ان میں سکھوں کو بیوقوف‘ احمق‘ گنوار‘ نالائق‘ بدھو‘ انگریزی زبان سے ناواقف اور بیوقوفی اور احمق پن کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ دہلی کے گوردواروں کے منتظمین نے ‘پابندی کی کوششوں میں تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ان کا کہنا ہے یہ لطیفے باعزت زندگی گزارنے کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہیں۔ اس لئے ان لطیفوں کو پھیلانے والی سائٹوں پر پابندی عائد کی جانی چاہیے۔ اس عجیب اپیل کی سماعت پر راضی ہونے والے جج‘ اس بات پر حیران ہیں کہ آخر یہ خاتون وکیل اس طرح کی پابندی کیوں چاہتی ہیں؟ ججوں کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ ان لطیفوں کو پُرمزاح انداز میں لیتے ہیں۔ اس میں بے عزتی نہیں ہوتی‘ ہاں مزاح کا عنصر ضرور شامل ہے۔ لیکن سپریم کورٹ کے نزدیک اپنے چیمبر میں بیٹھی مسز چوہدری کا کہنا ہے کہ وہ اس تو ہین کو یونہی برداشت نہیں کرتی رہیں گی۔ انہوں نے کہا ''بہت ہو چکا۔ ہماری سکھ برادری کے لوگ بہت مذاق جھیل چکے۔ میرے بچے اپنا خاندانی نام ہٹانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ انہیں مذاق کا بہت نشانہ بننا پڑتا ہے۔ جب میں اس کے خلاف آواز اٹھاتی ہوں‘ تو لوگ کہتے ہیں کہ میں سکھ ہوں۔ اس لئے پاگل پن کی باتیں کر رہی ہوں۔ یہ لطیفے سکھوں کے لئے کلنک ہیں۔ یہ ختم ہونا چاہئیں۔ مسز چوہدری نے کہا ہے کہ ''سکھوں پر بنے لطیفے‘ دو کروڑ کی سکھ آبادی کے لئے باعث توہین ہیں۔ ‘‘ مسز چوہدری نے بتایا ''انہوں نے برطانیہ میں قانون کی تعلیم حاصل کی اور وہاں قیام کے دوران ‘ کیب ڈرائیونگ کے علاوہ کے ایف سی میں کام کیا اور سموسے بھی بنائے ہیں۔ سکھ خاتون ہونے کی وجہ سے انہیں مذاق‘ نسلی امتیاز‘ نفرت اور جنسی طور پر ہراساں کئے جانے کا بھی سامنا رہا۔ 1984ء میں دہلی کے اندر سکھ مخالف فسادات میں ‘ان کے اہل خانہ کو بھی نشانہ بنایا گیا
جس میں تقریباً 2 ہزار افراد مارے گئے۔‘‘ مسز چوہدری نے بتایا ''میں اپنے ساتھی وکیلوں سے سکھوں کا مذاق اڑانے پر لڑ چکی ہوں۔ میں نے ایک کو تھپڑ مار دیا‘ جس نے ہماری قیمت پر سکھ لطیفے سنائے۔ میں ایک نئے شادی شدہ جوڑے کو جانتی ہوں‘ جس کی شادی پر‘ تحفے میں سکھوں کے لطیفوںکی کتاب پیش کی گئی‘ جس سے انہیں صدمہ پہنچا۔ ‘‘ مسز چوہدری اپنی اپیل کے لئے ان دنوں حمایت حاصل کرنے پر لگی ہوئی ہیں تاکہ سکھوں کو مذاق کا نشانہ بنایا جانا بند ہو۔ پارلیمنٹ کے ایک رکن نے اس اپیل کی حمایت کی ہے۔ پنجاب کے ایک کالج نے اس مسئلے کو اٹھایا اور عدالت میں اپیل کی ہے۔ سکھ ان کے چیمبر میں ‘ان سے ملنے آنے لگے ہیں۔ 
ہروندر چوہدری کا کہنا ہے کہ ''سکھوں کے لطیفوں پر پابندی عائد ہونی چاہیے۔‘‘ ایک سکھ نے لکھا کہ ''میں اظہار رائے کی آزادی کا حامی ہونے کے باوجود اس پابندی کے حق میں ہوں۔‘‘ لطیفہ یہ ہے کہ سکھوں کے لطیفوں پر لکھی گئی بیشتر کتابیں خود سکھوں نے لکھی ہیں اور معروف ادیب خشونت سنگھ بھی لطیفوں پر مشتمل ایک کتاب لکھ چکے ہیں۔ مسز چوہدری نے اپنی اپیل میں عدالت عظمیٰ کے سامنے جو لطیفے بطور مثال پیش کئے ہیں‘ وہ یہ ہیں۔
سکھ: ''میرا موبائل بل کتنا ہے؟‘‘
کال سینٹر:''اپنا تازہ بل جاننے کے لئے ایک ‘دو ‘تین ڈائل کریں۔‘‘
سکھ:'' بیوقوف! تمہارا بل نہیں میرے موبائل کا موبائل بل۔‘‘
---------
سکھ اپنے نوکر سے:'' پودوں کو پانی دے دو۔‘‘
نوکر: ''بارش تو ہو ہی رہی ہے۔‘‘
سکھ: ''تو کیا ہوا؟ چھتری لے جائو۔‘‘
---------
انٹرویو دینے والے ایک سکھ سے پوچھا گیا: ''آپ کی تاریخ پیدائش کیا ہے؟‘‘
سکھ: ''13اکتوبر۔‘‘
انٹرویولینے والے نے پوچھا: ''کس سال؟‘‘
سکھ: ''ہر سال۔‘‘
ہم مسلمانوں میں ایسی کئی برادریاں پائی جاتی ہیں‘ جن کے بارے میں لطیفوں کی کمی نہیں۔ لیکن ان میں کوئی سکھ نہیں ‘جو اپنے بارے میں لطیفوں پر اپیل لے کر عدالت میں گیا ہو۔ ہم میں لطیفہ ساز مسلمان ‘خود ہی اپنے لطیفے سنا کر ‘لطف اندوز ہوتے ہیں۔ مثلاً رانگھڑ‘ پٹھان‘ میراثی اور دیگر کئی ان گنت قو موں کے بارے میں لطائف چلتے رہتے ہیں۔ لیکن کوئی اتنا بڑا سکھ نہیں ہوا کہ وہ اپنا مقدمہ لے کر عدالت میں جائے۔ یہ ہمت‘ جرات اور حوصلہ وکیل بننے کے بعد بھی‘ صرف سکھوں میں باقی رہتا ہے۔ 
چار سکھوں میں بحث ہو رہی تھی کہ ''بھارت کے پرچم میں کس کس کے رنگ ہیں؟ ‘‘
بتایا گیا کہ ''ہرا رنگ مسلمانوں کا ہے۔ سفید عیسائیوں کا اور پیلا ہندو ئوںکا۔‘‘ 
ایک سکھ نے پوچھا ''اور ہمارا کیا ہے؟‘‘ 
دوسرے سکھ نے جواب دیا''ڈانگ تمہارے باپ کی ہے؟‘‘
----------
ایک سکھ کی شادی میں بہت سے سردار شریک تھے۔ ایک سردار نے کھانا کھانے سے پہلے پلیٹ میں ایک ٹشو پیپر رکھ لیا۔اسے دیکھتے ہی سارے سردار بولے: ''اوئے! ایہنوں کھان دی کوشش نہ کریں۔ بالکل پھیکا ہے۔‘‘
----------
چوری کے عادی ایک سردار جی نے اپنی بیوی کو سونے کا ہار لا کر دیا۔ سردارنی نے پوچھا: ''اس کی قیمت بھلا کیا ہو گی؟‘‘
سردار نے جواب دیا : ''صرف تین سال اور بے شمار لتر۔‘‘
-----------
دو سکھ دوستوں کو کھیت میں دو بم ملے۔ ایک سردار نے کہا: ''یہ پولیس کو دے آتے ہیں۔‘‘
''اگر ایک راستے میں پھٹ گیا تو؟‘‘
''جھوٹ بول دیں گے کہ ہمیں ملا ہی ایک بم تھا۔‘‘
----------
مسافر جہاز میں ‘ایئرہوسٹس کھانے کا پوچھنے آئی۔ سردار جی نے ایک لمبی فہرست لکھوا دی۔ ایئرہوسٹس بولی: ''سردار جی! یہ جہاز ہے‘ آپ کے ماموں کا ولیمہ نہیں۔‘‘
----------
ایک بحری جہاز ڈوب رہا تھا۔ انگریز مسافر نے پاس کھڑے سردار جی سے پوچھا: ''سمندر کتنا گہرا ہے؟‘‘
سردار جی: ''ایک کلومیٹر۔‘‘
انگریز نے سامنے دیکھتے ہوئے پوچھا: ''کس طرف؟‘‘‘
سردار جی: ''تھلّے نوں۔ تھلّے نوں‘‘
----------
ایک سردار جی نے ریس دیکھ کر ایک تماشائی سے پوچھا:''انعام کس کو ملے گا؟‘‘
جواب ملا: ''سب سے آگے والے کو۔‘‘
سردار جی نے تعجب سے پوچھا: ''تو پھر پیچھے والے کیوں دوڑ رہے ہیں۔‘‘
----------
ایک سردار جی کی بیوی بھاگ گئی۔ تین دنوں کے بعد واپس آئی ‘ تو سردار جی نے پوچھا : ''اب کیا لینے آئی ہو؟‘‘
اس نے جواب دیا ''موبائل کا چارجر ۔‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved