سندر اسٹیٹ کی یہ قاتل فیکٹری ایک دن میں بنی ‘نہ یہ دور اُفتادہ علاقے میں واقع تھی جہاں کسی حکومتی اہلکارکا کبھی گزرنہ ہوا۔ معلوم نہیںایسی کتنی مخدوش عمارتیں لاہور شہر اور اس کے گردو نواح میں موجود ہیں‘ بعض کی نشاندہی ہو چکی مگر انہیں کوئی خالی کراتا ہے نہ گرانے کی جرأت کرتاہے۔ سب کو انتظار ہے کہ یہ خود بخود گریں اور اپنے اندر بسنے والوں کی موت کا سبب بنیں۔
صرف لاہور اور پنجاب میں نہیںپورے ملک میں گھریلو اور کمرشل عمارتیں از خود تعمیر کرنے کی ممانعت ہے۔ بلڈنگ کوڈ اور بائی لاز موجود ہیں مجاز اداروں سے نقشہ منظور کرائے بغیر تعمیر کا آغاز ہو سکتا ہے نہ حتمی جانچ پڑتال کے بغیر تکمیل کا سرٹیفکیٹ جاری ہوتا ہے مگر یہ صرف کاغذی کارروائی کی حد تک ہے‘ عملاً ملک بھر میں لوگ نقشہ منظور کرائے بغیر یا منظور شدہ نقشے کو بالائے طاق رکھ کر مرضی سے تعمیرات کرتے ہیں۔ ناقص میٹریل کا استعمال معیوب سمجھا جاتا ہے نہ غیر تجربہ کار راج کے ہاتھوں بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر اور نہ حفظان جان و صحت کے اصولوں اور قوانین کی خلاف ورزی قابل اعتراض فعل‘ بس جانچ پڑتال پر مامور سرکاری اہلکاروں اور افسران بالاکی مٹھی گرم ہوتی رہے۔
حالیہ زلزلے میں فیکٹری کی عمارت متاثر ہوئی اور اس کی دیواروں میں دراڑیں پڑ گئیں۔ لاہور شہر میں سو ڈیڑھ سو سال پہلے تعمیر ہونے والی درجنوں عمارتیں سو فیصد درست حالت میں موجود ہیں۔ تین چار سو سال پرانی عمارتوں کی بھی کمی نہیں مگر ان میں سے کسی کا منہدم ہونا تو درکنار دراڑ تک نہیں آئی‘ اس لیے کہ جب یہ عمارتیں تعمیر ہوئیں ‘ان دنوں حکمران میگا پراجیکٹس سے زیادہ عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کو مقدم سمجھتے تھے۔ اپنے وضع کردہ قوانین اور ضابطوں کی خلاف ورزی کو برداشت نہیں کرتے تھے اور ان کی دیکھا دیکھی عُماّل حکومت بھی اپنے فرائض احتیاط اور ذمہ داری سے انجام دیتے۔
لاہور کی بادشاہی مسجد اورنگزیب عالمگیرؒ کے دور حکمرانی میں تعمیر ہوئی۔ آج سے تقریباً تین سو پینتالیس سال قبل۔ وہی اورنگ زیب عالمگیرؒ جو ہمارے عہد کے نام نہاد‘ روشن خیالوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا اور وہ ہمیشہ مغل حکمرانی کے خاتمے کا ذمہ دار اورنگ زیب کو قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ اس کی حکمرانی کا دورانیہ شہنشاہ اکبر کے برابر ہے اور مغل سلطنت اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے پورے ڈیڑھ سو سال بعد تک برقرار رہی۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ بادشاہی مسجد کو 26اکتوبر 2015ء کے زلزلے سے نقصان پہنچا‘ نہ 2005ء کے زلزلے نے اس کے بلند و بالا میناروں میں دراڑیں ڈالیں مگر جاتی عمرا کے پہلو میں چند سال قبل تعمیر ہونے والی تین منزلہ عمارت بیس مزدوروں اور اپنے مالک کی جان لے گئی۔
جب مجھ ایسے کم فہم‘ معاشرے میں رشوت ستانی‘ مالی بدعنوانی اور اختیارات سے تجاوز کے علاوہ بددیانت و خائن افراد کی سرپرستی کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں تو اسے تنقید برائے تنقید اور جمہوریت دشمنی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حالانکہ نظام ‘کے نام پر ہم جس بُت کی مسلسل پوجا کر رہے ہیں یہ غریبوں‘ کمزوروں کے گھر اجاڑنے اور مالداروں‘ طاقتوروں کا مستقبل سنوارنے کا گورکھ دھندا ہے جسے جڑ سے اکھاڑے اور اس کے محافظوں کا بوریا بستر گول کیے بغیر ناقص تعمیرات رُکنے کی اُمید کی جا سکتی ہے نہ جاں لیوا حادثات کا سدباب ممکن۔ اس طرح کی بلڈنگز کی تعمیر کا ذمہ دار مالک تو ہے جو اخباری اطلاعات کے مطابق اپنی ہوس زر اور بے احتیاطی و غیر ذمہ داری کا نشانہ بنا۔ مگر ان بیس پچیس اموات کے ذمہ دار بلڈنگ انسپکٹر‘ لیبر انسپکٹر اور ان کے اعلیٰ افسران بھی ہیں جو بلڈنگ رولز اور لیبر لاز کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے اور اس قاتلانہ واردات کا سبب بنے ۔قتل عام کی بنیاد اسی دن رکھ دی گئی تھی جب ناقص تعمیرات کا آغاز ہوا۔ مگر کیا صرف سرکاری اہلکار ؟کوئی اور نہیں؟
پچھلے سال سیول میں کشتی کا ایک حادثہ ہوا ۔تین سو افراد اس حادثے کی نذر ہوئے۔ ایک ہفتہ بعد وزیر اعظم چنگ ہان ون جائے حادثہ کے قریب ایک تقریب میں شریک تھے کہ لواحقین نے احتجاج کیا اور حادثہ کو سرکاری اداروں کی غیر ذمہ داری کا شاخسانہ قرار دیا۔ کوریا کے وزیر اعظم ہمارے ریلوے وزیر کی طرح حیلہ جوئی کے بغیر یہ کہہ کر اپنے منصب سے مستعفی ہو گئے'' ہمارے معاشرے میں بے ضابطگیوں کا راج ہے جس کی وجہ سے بہت کچھ غلط ہو رہا ہے ۔میں امید کرتا ہوں کہ میرے استعفے سے انہیں درست کرنے کا موقع ملے گا اور دوبارہ ایسا حادثہ رونما نہیں ہو گا‘‘ گزشتہ روز کلب میں آتشزدگی اور 32افراد کی ہلاکت پر رومانیہ کے وزیر اعظم وکٹر پونٹا نے استعفیٰ دیدیا اور کہا کہ اس حادثہ کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کرنے والے میرے استعفے سے مطمئن ہو جائیں گے۔ مظاہرین نے اس حادثہ کا سبب ناقص حفاظتی انتظامات اور حکومتی سطح پر بدعنوانی کو قرار دیا تھا۔
ہمارے ہاں مگر حکمران اپنی آئینی و قانونی ذمہ داری سے بطریق احسن عہدہ برآ ہوناتوہین سمجھتے ہیں‘ اخلاقی ذمہ داری قبول کرنے کا توسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پنجاب میں کلر کہار‘ منڈی بہائوالدین اور قصور میں سکول بس‘ ویگن اوروین کے تین مہلک حادثات ہوئے‘ تینوں حادثات میں جاں بحق ہونیوالے بچوں کی مجموعی تعداد سوسے زیادہ تھی اور یہ ثابت ہوا کہ ڈرائیور کے پاس لائسنس تھا‘ نہ گاڑی کافٹنس سرٹیفکیٹ اور نہ کسی نے انہیںراستے میں چیک کرنے کی ضرورت محسوس کی‘ اس کے باوجود کسی سرکاری افسر‘ اور حکمرانی کے نشے میں چور منتخب عوامی نمائندے نے ذمہ داری قبول نہیںکی۔ ویسے بھی جس ملک میں بلدیہ ٹائون فیکٹری میں تین سو زندہ انسان جلانے والوں کو آج تک سزا ملی ہو نہ کسی نے ذمہ داری قبول کر کے استعفیٰ دیا ہو ‘وہاں سو ڈیڑھ سو معصوم بچوں کی موت پر کسی کادل کیوںپسیجے ؟اورکوئی رومانیہ اور جنوبی کوریا کے وزرائے اعظم کو یاد کیوں کرے؟
فیکٹری کے معائنے میں غفلت پر لیبر انسپکٹر کو معطل کر دیا گیا ہے‘ 23افراد کی جان کے بدلے معطلی ؟ یہ جاں بحق ہونے والوں سے مذاق ہے یا لواحقین کے زخموں پر نمک پاشی؟ لیبر انسپکٹر کوخدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس کا پالا فراخ دل حکمرانوں سے پڑا ہے اگر یہ واقعہ کسی محمود غزنوی ‘ شیر شاہ سوری اور اورنگ زیب عالمگیر جیسے تنگ نظر حکمران کے دور میں پیش آیا ہوتا تو موقع پر ہی عدالت لگتی‘ لیبر انسپکٹر سے پوچھا جاتا‘شریک جرم دیگر افسران و اہلکاران کی تعداد معلوم کی جاتی ‘اب تک فیکٹری مالک سے وصول کیا جانے والا بھتہ ان تمام حرام خوروں سے اگلوایا جاتا اور پھر وہ سزا دی جاتی جس کے یہ مستحق ہیں۔ صرف لیبر انسپکٹر کیوں؟ بلڈنگ انسپکٹر اور اس کے افسران بھی جو ناقص طرز تعمیر پر معترض ہوئے نہ چوتھی منزل تعمیر کرنے سے روکا۔ حالانکہ کسی خالی پلاٹ پر اینٹیں پڑی نظر آئیں تو یہ اہلکار معلوم کرتے پھرتے ہیں کہ کس کا گھر‘ پلازہ یا پیٹرول پمپ زیرتعمیر ہے۔
یہ لیبر انسپکٹر کتنے دن معطل رہے گا؟ اگر کوئی تگڑی سفارش نہ ہوئی تو نوکری بھی جا سکتی ہے لیکن اگر سفارشی بندہ ہے تو چند دن بعد کسی دوسری فیکٹری سے اپنا حصہ رسدی وصول کر رہا ہو گا اور لوگ جلد بھول جائیں گے کہ کسی فیکٹری کی عمارت گری تھی‘ درجنوں خاندان اجڑ گئے تھے اور یہ مالک کے علاوہ جانچ پڑتال پر مامور افسروں اور اہلکاروں کی ہوس زر‘ غیر ذمہ داری اور قانون شکنی کا نتیجہ تھا۔ اگر آئندہ ایسے حادثات کی روک تھام مقصود ہے تو پھر نقشہ کی منظوری سے لے کر تکمیلی سرٹیفکیٹ کے اجرا اور چوتھی منزل کی تعمیر تک ذمہ داروںکا تعین کر کے تمام مجرموں کو سندر چوک پر لٹکایا جائے مگر یہ کام کرے کون؟
رومانیہ اور جنوبی کوریا کے وزیر اعظم اس لیے مستعفی ہوئے کہ دونوں حادثات کو عوام نے قدرت کا لکھا سمجھ کر بھولنے کے بجائے حکومت کو ذمہ دار قرار دیا اور سڑکوں پر نکل آئے ۔مگر یہاں کا باوا آدم نرالا ہے۔ درجنوں معصوم بچے جنسی ہوس کا نشانہ بنیں‘ خواتین کی ڈیروں اورتھانوں میں عصمت دری ہو‘ کھٹارا بسوں اور ویگنوں میں سینکڑوں کم سن طالب علم لقمۂ اجل بن جائیں یا بلدیہ ٹائون اور سندر فیکٹری میں غریب گھرانوں کے کفیل موت کے گھاٹ اُتر جائیں‘ کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ۔ صرف گھروں میں بیٹھ کر ہم افسوس کرتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ چند آنسو بہا لیے۔ اللہ اللہ خیر سلّا۔ رشوت خورسرکاری افسر‘ اہلکار‘ لالچی مالکان اور سنگدل حکمران شانت ہیں اور معاشرہ روز بروز جہنم بنتا جا رہا ہے۔ روزروز حادثے جنم لے رہے ہیں جن کی عشروں سے پرورش جاری تھی ؎
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا