بیچارہ آئین عوام کی چارہ گری کی تلاش میں دس سال تک ایڑیاں رگڑتا رہا ۔
مزدور ،کسان،کارکن ،خواتین اور اقلیت جن کو طاقت کا سرچشمہ بنانے کے لیے آئین نے ضمانت دی ان کی آواز کسی نے نہ سنی۔ایوانِ عدل،سیاسی انصاف (Political justice) کے تنازعات نمٹانے میںمصروف رہا ۔مقامی ادارے تشکیل پا سکے نہ ہی محروم طبقات کی اقتدار میں شراکت اور اختیار میں نمائندگی کا خواب پورا ہوا۔دس سال بعد چاروں صوبوں کے حکمرانوں نے پاکستان کو ایک قوم میں ڈھالنے کا نادر موقع گنو ایا۔بلدیاتی الیکشن کے لیے '' ٹیلر میڈ‘‘ ایکٹ پاس کیے ۔ جیسے کوئی جاہ پرست ،ڈکٹیٹر ذہنیت رکھنے والا حکمران اپنے سائز کے پاجامے کی طرح اپنی سہولت کا قانون بناڈالے۔بلدیاتی قانون کیسے ہیں...؟ اس کا آخری فیصلہ شاید انتخابات کے آخری مرحلے کے بعد عدالتوں تک جا پہنچے،لیکن اس سے پہلے عوامی شعور کی بیداری اور آگاہی کے لیے دو عدد مثالیں ہم دے دیتے ہیں۔
پہلی تازہ ترین مثال بلوچستان سے ملتی ہے،جہاں شہروں کے میئر ، یونین کونسل اور میونسپل کمیٹی کے چیئر مین ، وزیراِ علیٰ ہاؤس جلوس لے کر گئے۔ان بلدیاتی نمائندوں کے مطالبات صرف دوتھے،مگر بہت ہی دلچسپ۔
پہلا یہ کہ، اگر بلدیاتی ادارے نہیں چاہئیں تو ان کو ختم کر دیا جائے،کیونکہ نہ ان کے پاس کوئی اختیار ہے، نہ طاقت،نہ فیصلہ سازی اور نہ ہی یہ عوام کو کوئی سہولت دینے کے قابل ۔
دوسرا مطالبہ، سمجھ لیجیے ایک قسم کا زور دار'' قہقہہ‘‘ ہے اور وہ یہ کہ ہمیں فوری طور پر عوام کو چائے پلانے کے لیے بجٹ دیئے جائیں۔ان دو مطالبات سے جو بنیادی حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ بلوچستان میں بلدیاتی ادارے نہیں پتلی تماشے بنا ئے گئے ہیں۔سامنے کوئی اور ہے جس کو نچانے والے دور پیچھے بیٹھے ہیں۔ ناچنے والا نچانے والوں کی مرضی کا غلام اور پابند۔
دوسری مثال،ملک کے سب سے بڑے صوبے کے بلدیاتی اداروں کی ہے۔ ان اداروں کو خادم اِ علیٰ نے آن ریکارڈ کہہ رکھا ہے کہ میں کسی کو کوئی حرکت نہیں کرنے دوں گا ۔جو گڑ بڑ کرے گا، اسے باہر پھینک دیا جائے گا۔یہاں بلدیاتی اداروں کے تمام اختیارات،ٹی ایم او،ڈی سی او،ڈی پی او،ای ڈی او ایجوکیشن ،ای ڈی او کمیونٹی ڈویلپمنٹ کی جیب میں پڑے ہیں۔باقی کوئی محکمہ ایسا نہیں بچتا جس کا اختیار نئے بلدیاتی نظام کے عہدیداروں کے ہاتھ دیا جانا ہو۔
یادش بخیر،مشرف کی ڈکٹیٹر شپ میں ضلعی پولیس، صحت، تعلیم، مفادِ عامہ،ڈپٹی کمشنر،کمشنر سمیت ساری بیوروکریسی کا سربراہ تحصیل،ضلع،میونسپلٹی یا شہر کا بلدیاتی نمائندہ تھا۔اب نظام یہ ہے۔
ان عقل کے اندھوں کو، الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے، لیلیٰ نظر آتا ہے
لہٰذا یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ ان مقامی کونسلوں کے لیڈر کچھ عرصے بعد عوام سے چھپتے پھریں گے۔ان میں اکثر گلی ،محلے کے رہنے والے لوگ ہیں۔جو محلہ چھوڑ کر بھاگنے سے رہے،اس لیے عوام کے سامنے شرمندگی یا جوابدہی دونوں کا سامنا کرنا ان کی خواہش نہ ہو تب بھی مسلسل مجبوری رہے گی۔
ویسے جس نظام کو پاکستان کے سرمایہ دار ،جاگیر دار اور چور بازار جمہوریت کہہ کر اپنے گھر اور کاروبار کو مسلسل ترقی دے رہے ہیں وہ اصل میں ہے کیا۔؟یہ جاننا بھی ضروری ہے۔اس کے علاوہ یہ کہ کاسمیٹک ڈرامہ اپنی جگہ اس میں عوام کا حصہ کتنا ہے اوربے چارے عوام کی حیثیت کیاہے؟،اس بات کو سمجھنا راکٹ سائنس جتنا مشکل نہیں،کیونکہ جس حلقے یا صوبے میں بلدیاتی الیکشن مکمل ہو چکے یا جہاںا سمبلیوں کے تازہ ضمنی الیکشن منعقد ہوئے ہیں، وہاں جمہوریت کے نام پر قائم اس نظام کی اصلیت اور اس میں عوام کی حیثیت کے کھلے ثبوت یوں سامنے آئے۔
الیکشن میں رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لیے جو تقریریں ہوئیں ان میں استعمال ہونے والی لغت یہ رہی۔غنڈہ،کرائے کا ٹٹو،لوٹا،یہودیوں کا ایجنٹ،ڈاکو،بیس لوگوں کا قاتل،لٹیرا،کرپٹ ٹولے کا بادشاہ،منی لانڈرنگ کا کنفرم ملزم،ڈکیٹ کونسلر،جوتی چور، نا اہل،بجلی چور،کمیشن مافیا،جنگلہ خور ،بد زبان،تھانہ کلچر کا خادمِ اعلیٰ، سریا سیاست،پٹواری راج،پرائیویٹ پولیس فورس،بد قماش، بدکردار،استانی ٹرانسفر اورکلرک تبادلہ راج،ضمیر فروش ،غدار ِوطن اور اس جیسے درجنوں دیگر القابات۔
دوسری جانب عوام کے لیے جھوٹے وعدے،بے بنیاد تسلیاں،ریاستی طاقت کا بے رحم استعمال،برادری کا حوالہ،معززین کی پگڑیاں،سرکاری وسائل کی جھلک،ووٹوں کی خریداری،ساٹھ سالہ بابے کا شناختی کارڈ سات سالہ بچے کے ہاتھ میں ،پسندیدہ انتخابی عملہ،پری پول دھاندلی،الیکشن میں بھاری سرمایہ کاری،ووٹوں کا لنڈا بازار،انصاف کی لوٹ سیل،قانون کی دھجیاں،اداروں کی جانبداری ،رول آف لاء کی بزدلی،ضابطہ اخلاق کی بے حرمتی بالجبر۔
اس وقت قومی منظر نامے میں ہر طرف سیاست کا مزاحیہ پروگرام چل رہا ہے،جس میں میگا ٹھیکے ہیں اور میگا سودے بازی بھی۔آپ نے دیکھ لیا حالیہ انتخابی عمل میں عوام کے لیے کچھ نہیں کہا گیا۔ جمہوریت کے دعویداروں نے ایک دوسرے کو بے لباس کیا۔ پھر چوراہے کے عین درمیان میں گندے کپڑے دھوڈالے۔ان حالات میں عام آدمی اس انتخابی نظام کے مستقبل سے کیا امید رکھے۔ موجودہ انتخابی نظام بھی اپنے مستقبل کے بارے میں کوئی امید نہ رکھے۔چند لوگوں کی خوشیاں اور کاروبار بڑھانے اور بچانے کے لیے جس جس جگہ جو بھی ڈھونگ رچایا گیا،اس سے جمہور کا دور تک تعلق واسطہ نہیں۔پاکستان کے لوگوں کا مسئلہ روزگار ہے ۔حکومت ہر روز قومی کرنسی کی بے حرمتی کرتی ہے۔کاغذی نوٹ چھاپ چھاپ کر سکیورٹی پرنٹنگ پریس کی مشینیں تھک چکی ہیں۔اپنے دوستوں اور فرنٹ مین حاشیہ برداروں کے بینکوں سے مہنگے قرضے لیے جا رہے ہیں۔پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں قومی اور کمرشل بینکوں نے معیشت پر سرمایہ کاری چھوڑ دی ۔اس وقت حِصص کے بازار میں ضمیر کے بعد سب سے زیادہ بکنے والی چیز سرکاری کاغذ کے بانڈ ہیں۔معیشت کھوکھلی ہو کر گھنٹہ گھر کی طرح ٹھن ٹھن گوپال ہوئی۔جب صنعتی سرگرمی نہیں ہو گی نہ معاشی سرمایہ کاری تو پھرنوکری کے مواقع پیدا ہونے کا سوال ہی نہیں۔اس لیے جس رفتار سے آبادی بڑھ رہی ہے اس سے دگنی رفتار کے ساتھ بیروزگاری میں اضافہ۔
ترقی پذیر ،غیر ترقی یافتہ اور ترقی یافتہ معاشروں میں بیروزگاری اور منظم جرائم کا چولی دامن والا ساتھ ہے۔پاکستان کے حکمران، کرائے کے ٹٹو،اداروں سے اپنی تعریف میں سروے، شواور تحریریں خریدنے میں مصروف ہیں۔ملتان کی الیکٹرونکس مارکیٹ میں50 سے زائد عورتوںاور مردوں نے ڈکیتی کی انوکھی واردات کی۔ ڈاکوؤں کا پورا غول دکان میں گیا جو چیز ہاتھ لگی اٹھائی اور کھلے چہروں کے ساتھ کھلے عام ڈکیتی مار کر ٹہلتے ہوئے رخصت ہو ئے۔ہر روز حکمرانوں اور سیاستدانوں کے بارے میں خبریں چلتی ہیں کہ انہیں خطرہ ہے ۔ قلعہ بندیاں،پولیس ،سکیورٹی حصار، وڈیرا شاہی ،سرمایہ داری اور چور بازاری کی خدمت پرمامور ہیں۔عوام کو لوٹنے کے لیے سارا دن سفید پوش چور ان کی جیب خالی کرتے ہیں۔جبکہ رات کو کالے شاہ کالے چور غریبوں کو دھر لیتے ہیں۔ دنیا میں تیل سستا ہو رہا ہے، پاکستان میں مزید مہنگا۔سرکاری ہسپتال ذبح خانے اور سرکاری سکول کباڑ خانے بن چکے ہیں۔
جمہوریت 2000لوگوں کی مشترکہ لونڈی ہے۔آخر کوئی شرم ہوتی ہے،آخر کوئی حیا ہوتی ہے۔براہ کرم ان دونوں کو ڈھونڈئیے گا ضرور...کہ اب یہ کہاں ہوتی ہیں۔