ملٹی نیشنل کمپنی دی بوئنگ کو دنیا کی چند بڑی اور امریکہ کی سب سے بڑی ایکسپورٹ کمپنی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔جو ایئرکرافٹ، جہاز، طیارے ڈیزائن کرتی اور بناتی ہے۔ دنیا بھر میں ایئر کرافٹ کی فروخت کا وسیع نیٹ ورک رکھتی ہے۔ 2013 ء میں اس کمپنی نے دنیا کے کئی ملکوں کے ساتھ اہم دفاعی معاہدے کئے۔ اس کمپنی کے سربراہ یعنی چیف ایگزیکٹو آفیسر کو امریکہ کی ممتاز اور غیر معمولی شخصیت گردانا جاتا ہے۔ کمپنی میں لاکھ سے زائد ملازمین کام کرتے ہیں۔ 2005ء میں دی بوئنگ کے سی ای او ہیری سی سٹون سفر Harry C. Stoncipher تھے۔ ان کی قابلیت اور وژن کے باعث اس دور میں کمپنی نے اربوں ڈالر کے معاہدے کیے، جو اسے بامِ عروج پر لے گئے۔ سٹون سفر کی لیڈر شپ اور قابلیت ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا تر تھی۔ مگر پھر ایک عجیب واقعہ ہوا۔ 2005ء میں مسٹر سٹون کا کمپنی کی اہم عہدے پر فائز ایک خاتون اہلکار سے، گہرے دوستانہ تعلقات کا سکینڈل منظر عام پر آیا۔ جس پر کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور فیصلہ ہوا کہ مسٹر سٹون سے استعفیٰ لے لیا جائے۔ عجیب بات یہ تھی کہ اس سکینڈل میں کہیں یہ ذکر نہیں آیاتھا کہ انہوں نے مذکورہ خاتون کو جنسی طور پر ہراساں کیا ہے اور نہ ہی کوئی ایسا الزام تھا کہ اُنہوں نے اپنی دوست کو کسی قسم کا فائدہ پہنچایا ہے ‘مگر اس کے
باوجود بورڈ آف ڈائریکٹرز نے سی ای او سے استعفیٰ طلب کر لیا۔ بورڈ آف ڈائریکٹرز نے اپنی رپورٹ میں لکھا ''چیف ایگزیکٹو کی دفتر کے اندر ایسی ''سرگرمی‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی فیصلہ سازی کی صلاحیت کمزور ہے، جس نے اُن کی دنیا کی ایک بڑی کمپنی کو لیڈ کرنے کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو مشکوک بنا دیا ہے‘‘۔ مختصر یہ کہ مسٹر سٹون کو استعفیٰ دینا پڑا۔
اس واقعے پر بار برا کیلر مین کا تبصرہ بڑا دِل چسپ تھا‘ وہ لکھتی ہیں: ایک لیڈر خواہ وہ کمپنی کا سربراہ ہو یا کسی ملک کا، اُس کی زندگی کا کوئی پہلو اس کی ذاتی زندگی کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ باربراکیلرمین ہارورڈ یونیورسٹی میں جان ایف کینیڈی سکول میں پڑھاتی ہیں، لیڈر شپ کے موضوع پر کئی بلند پایہ مقالات اور کتابوں کی مصنفہ ہیں۔ اُن کا تبصرہ بڑا برمحل ہے۔ کیونکہ لیڈر کوئی عام شخص نہیں ہوتا اُس کے ماننے والے اُس کے ساتھ کئی حوالوں سے جڑے ہوتے ہیں۔ اُن کی زندگی کا ہر پہلو اس کے ماننے والوں پر اپنا اثر چھوڑتا ہے خواہ وہ مثبت ہو یا منفی۔ ایک لیڈر جس پر لوگ اعتبار کرتے ہیں، جسے چاہتے ہیں جسے مانتے ہیں، جس پر جان دیتے ہیں‘ وہ اپنی زندگی کے کسی پہلو کو یہ کہہ کر الگ نہیں کر سکتا کہ یہ معاملہ اس کی نجی زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ کیونکہ اُس کی ذاتی زندگی میں اُس کے معاملات اُس کے رویوں، سوچ اور شخصیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ اس کی شخصیت ہی ہے جس سے اُس کے پیروکار محبت کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ اُن کی شادی ہو یا طلاق اُس میں لوگوں کا دلچسپی لینا، سوال کرنا ایک فطری چیز ہے۔ عمران ریحام طلاق کے بعد یہ سوال بڑی شدت سے میڈیا اور لوگوں کے ذہنوں میں اٹھتا ہے کہ اس واقعے کو مختلف حوالوں سے میڈیا کا کوریج دینا، خبریں چھاپنا، تبصرے کرنا، بات کرنا، کیا کسی لیڈر کی نجی زندگی میں
مداخلت کے مترادف ہے؟ یا پھر یہ کہ اُن(عوام) کا حق ہے کہ وہ اس بارے میں سوال اٹھائیں۔ گزشتہ دنوں عمران خان نے پشاور میں پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی کے، مردم شناسی کے سوال پر ، شدید برہمی کا اظہار کیا اور غصے میں پریس کانفرنس چھوڑ کر چلے گئے۔ یہ رویہ یہ جھنجھلاہٹ کسی قومی اور مقبول رہنما کو زیب نہیں دیتی۔ برداشت اور اعلیٰ ظرفی، عام انسان کی شخصیت کو بھی چار چاند لگا دیتی ہیں۔ لہٰذا ایک لیڈر کے لیے اِن صفات سے آراستہ ہونا اُس کی بنیادی کوالی فکیشن ہی نہیں بہت ضروری بھی ہے۔ آرمی پبلک سکول پشاور کے سانحۂ عظیم کے بعد پوری قوم غم و اندوہ میں ڈوبی ہوئی تھی کہ خان صاحب نے شادی کر لی۔ یہ شادی چند دن ٹھہر کر بھی ہو سکتی تھی۔ اب طلاق کا اعلان بلدیاتی الیکشن سے ایک روز پہلے کرنے سے خود اُن کے سپورٹرز اور ووٹرز میں بہت مایوسی پھیلی۔ اس بات کا اعتراف پارٹی رہنما محمود الرشید نے بھی ایک ٹاک شو میں کیا۔ اس لیے وہ لوگ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ طلاق دینے کا فیصلہ خان صاحب کا نجی معاملہ ہے اور اس سے تحریک انصاف اور خان صاحب کی سیاست پر منفی اثرات مرتب نہیں ہونگے، درست نہیں۔ اس ضمن میں، یہ پہلو قابل غور ہے جس دن سے میڈیا میں طلاق کا اعلان ہوا ہے۔اب تک ہر روز کسی نہ کسی حوالے سے یہی واقعہ میڈیا میں دہرایا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے فالو اپ خبریں تواتر سے آ رہی ہیں۔ ایک تجزیہ نگار نے تو یہاں تک کہا کہ خاں صاحب کی پوری زندگی ایک طرف اور ریحام خان سے شادی کے پونے دس ماہ دوسری طرف اور یہ عرصہ ان کا زندگی بھر پیچھا کرتا رہے گا۔
اگرچہ ریحام خان سے اس حوالے سے معاملات طے پا گئے ہیں کہ وہ کوئی ایسی بات نہیں کریں گی جس سے تحریک انصاف کو نقصان پہنچے مگر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ ایسا لگتا ہے کہ ریحام جیسی مخصوص عزائم رکھنے والی خاتون طلاق کو بھی کیش کروانے کی کوشش کرے گی وہ شادی کے ان دنوں پر کتاب ضرور لکھیں گی اور ظاہر ہے اس سے مزید شہرت اور مالی فائدہ حاصل کریں گی، اور اس کا نقصان یقیناً تحریک انصاف کو پہنچے گا۔ تب عمران خان صاحب کو علم ہو گا کہ ایک لیڈر کی شادی ہو یا طلاق، وہ اُس کی زندگی کا ذاتی معاملہ نہیں ہوتا اُس کے اثرات دور رس ہوتے ہیں۔ فیصلہ سازی اور مردم شناسی دو بہت بڑے انسانی جوہر ہیں کہ ان پر سمجھوتہ کرنا اگر امریکی بوئنگ کمپنی کے سی ای او کو مہنگا پڑ سکتا ہے تو خان صاحب تو مقبول ترین سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔ ان کے کندھوں پر ذمہ داری کا بوجھ زیادہ ہے! اتنی بڑی عوامی سیاسی جماعت کی سربراہی، غیر معمولی فیصلہ سازی اور مردم شناسی کی صلاحیتوں کا تقاضا کرتی ہے۔!