تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     07-11-2015

حیرت کی بات نہیں

میڈیا پر وزیر اعظم سے منسوب‘ دو اعلانات پر تضاد کی تہمت لگائی جا رہی ہے کہ وزیر اعظم نے لودھراں میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی تاریخ‘ 2017ء دی ہے جبکہ اسی روز‘ چند گھنٹے بعد سیالکوٹ میں تقریر کرتے ہوئے بتایا کہ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ 2018ء میں ہو جائے گا۔ مجھے اس میں کوئی تضاد دکھائی نہیں دے رہا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ وزیر اعظم کلی طور پر اختیار رکھتے ہیں کہ جہاں پر جو تاریخ چاہیں‘ دے دیں۔ وزیر اعظم نے یہ تقریریں دو شہروں میں کی ہیں‘ جو ایک دوسرے سے سینکڑوں میل دور واقع ہیں۔ لودھراں‘ ملتان سے آگے ہے اور سیالکوٹ‘ لاہور سے تقریباً ستر میل دور۔ حکومت بجلی آسمان سے تو گرائے گی نہیں‘ وہ بھی انسانوں سے کام لیتی ہے اور بجلی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کے لئے تاریں استعمال کرنا پڑتی ہیں۔ بجلی تار کے اندر اسی طرح سفر کرتی ہے‘ جس طرح ہم سڑک پر کرتے ہیں۔ وزیر اعظم نے لودھراں میں جو تاریخ بتائی‘ وہ اسی شہر میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی تاریخ ہے اور سیالکوٹ میں لوڈشیڈنگ کم کرنے کی تاریخ‘ 2018ء کے اواخر میں بتائی گئی ہے۔ اس میں تضاد کہاں سے آ گیا؟ حکومتی انتظامات کے تحت‘ لودھراں میں بجلی پہنچانے کا انتظام‘ 2017ء میں کیا گیا ہو گا اور سیالکوٹ میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا پروگرام‘ 2018ء میں ہو گا۔
اگر آپ کو پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کے نظام اور قیمتوں کی ادائی کے طریقہ کار کا علم ہو تو میڈیا کبھی وزیر اعظم کے بیانات میں تضاد نہ ڈھونڈتا۔ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ پاکستان اتنی مقدار میں بجلی پیدا کر سکتا ہے کہ اسے لوڈشیڈنگ کی ضرورت ہی نہ رہے۔ یہ انتظامی اور مالیاتی معاملہ ہے۔ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کے نجی پلانٹ تاجرانہ ضروریات کے تحت کام کرتے ہیں۔ پاکستانی تاجر‘ سرمایہ کاری نفع کمانے کی خاطر کرتا ہے۔ اس کے پیش نظر قوم کی خدمت نہیں‘ اپنی کمائی ہوتی ہے۔ وہ چاہے تو دوا میں ملاوٹ کر کے نفع کما لیتا ہے۔ چاہے تو انتہائی ضرورت کی ادویات کا ذخیرہ کر کے‘ حسب ضرورت کما لیتا ہے۔ گاہک جب دوا مانگتا ہے تو دکاندار کا جواب ہوتا ہے کہ ''وہ تو ختم ہے‘‘۔ گاہک کی عاجزی اور بے بسی دیکھ کر‘ دکاندار اسے آپشن دیتا ہے کہ گاہک قیمت زیادہ ادا کرنے کو تیار ہو تو وہ پڑوسی دکاندار سے مہنگی دوا خرید کر لا دے گا۔ قلت کے مطابق وہ اپنی مرضی کے دام وصول کرتا ہے۔ پریشانی میں مبتلا گاہک‘ جب قیمت دینے پر تیار ہو جاتا ہے تو چند منٹ میں نایاب دوا دستیاب ہو جاتی ہے۔ میں نے دانستہ دوائوں کا ذکر کیا ہے‘ تاکہ آپ اندازہ کر سکیں کہ جس ملک کے تاجر‘ نفع کی خاطر دوائیں چھپا لیتے ہوں کہ مریض مرتا ہے تو مر جائے‘ وہاں پر پیسے کی خاطر کیا نہیں ہوتا ہو گا؟ تمام شہری جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں یہی ہوتا ہے۔ کوئی جئے یا مرے‘ ہمارے تاجروں کو اپنے نفع سے غرض ہوتی ہے۔
لوڈشیڈنگ کا کھیل بھی‘ نفع نقصان کے اصول کے تحت ہی کھیلا جاتا ہے۔ ایک دوسری بات بھی پڑھ لیجیے۔ بجلی پیدا کرنے والے یونٹ‘ مالک کے کنٹرول میں ہوتے ہیں۔ حکومت اور پیداواری یونٹوں کے مالکان میں‘ یہ انڈرسٹینڈنگ ہے کہ حکومت بجلی کے پیداواری یونٹ کی تمام پیداوار خریدنے کی پابند ہو گی۔ اگر حکومت بجلی کے تمام پیداواری یونٹ نہیں خریدتی تو ان یونٹوں کی قیمت ادا کرنے کی پابند ہو گی‘ جو وہ خرید نہیں پائی۔ ہوتا یوں ہے کہ حکومت کی طرف سے خریداری پر مامور‘ محکموں کے افسران‘ بجلی پیدا کرنے والوں کے ساتھ سمجھوتہ کر لیتے ہیں کہ وہ بجلی کے اتنے یونٹ کم خریدیں گے۔ مالک اور خریدار میں ایک خاص مقدار طے ہو جاتی ہے۔ فرض کیا کہ پیداواری یونٹ کا مالک‘ بجلی کی پیدوار میں بیس یا پچیس فیصد کمی کر دیتا ہے تو حکومت اس بجلی کی قیمت بھی ادا کرنے کی پابند ہے‘ جو پیدا ہی نہیں کی گئی۔ بجلی پیدا کرنے والے یونٹ کا مالک‘ جو گیس یا تیل بچاتا ہے‘ وہ اس کا نفع ہے۔ ایک نفع وہ اصلی بجلی کی قیمت میں وصول کرتا ہے اور دوسرا نفع بغیر بجلی بیچے‘ خریدار کے ساتھ بانٹ لیتا ہے۔ جو کچھ سننے میں آیا ہے‘ اس کے مطابق پاکستان میں جتنی بجلی پیدا کرنے کی استطاعت ہے‘ اگر وہ پوری کر لی جائے تو پاکستان میں ایک منٹ کی لوڈشیڈنگ کی ضرورت نہیں رہتی۔ ہمارے پیداواری یونٹ کے مالکان چاہیں تو 
ہماری ضرورت کی بجلی آسانی سے پیدا کر سکتے ہیں۔ یوں کر لیا جائے تو پاکستان کا سارا نظام ہی تلپٹ ہو جائے۔ سارے ہسپتال بند ہو جائیں۔ سارے سکول بند ہو جائیں۔ سارے بازار بند ہو جائیں۔ ساری مارکیٹیں بند ہو جائیں۔ اور سب کے کام‘ دھرے کے دھرے رہ جائیں۔ حکومتی اہلکار اور تاجر اس حد تک‘ ایک دوسرے کے محتاج ہو چکے ہیں کہ اگر رائج الوقت نظام میں خلل ڈال دیا جائے تو سارے کام بند ہو جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ بجلی بھی اتنی ہی پیدا کی جاتی ہے‘ جس میں دونوں فریقوں کی گزر اوقات کے ساتھ‘ عیش و عشرت کا خرچ بھی پورا ہوتا رہے اور خرچ میں کار کوٹھی کے علاوہ‘ یورپ کے دوروں اور وہاں کے بینکوں کے اندر‘ بیرونی کرنسی کے اکائونٹس کی رقم میں ہر سال اضافہ ہوتا رہے۔ آپ نے کبھی غور کیا کہ خاص دنوں میں لوڈشیڈنگ‘ مکمل طور پر ختم ہو جاتی ہے۔ اس وقت بجلی کہاں سے آتی ہے؟ بجلی یہیں پیدا ہوتی ہے مگر مخصوص دنوں میں جب حکومت عوام کو راحت دینے پر مجبور ہو تو جاری نظام میں عارضی رد و بدل کر کے‘ حکومت کا وعدہ پورا کر دیا جاتا ہے۔ جیسے ہی ضرورت ختم ہوتی ہے‘ قلت دوبارہ شروع ہو جاتی ہے۔ آپ پاکستان میں جتنی بجلی چاہیں‘ پیدا کر لیں‘ جب تک یہ کھلی مارکیٹ میں نہیں آتی‘ لوڈشیڈنگ ختم نہیں ہو سکتی۔ کراچی کی بجلی سپلائی کمپنی میں نجی ملکیت کا حصہ ڈال دیا گیا ہے۔ اس وجہ سے کمپنی کو خسارے میں دکھایا جاتا ہے۔ اگر صرف کراچی میں بجلی کی تقسیم کا نظام‘ ایک کمپنی کے ذمے ہو جائے اور پیداواری شعبہ کسی اور کی ملکیت ہو اور بلوں کی وصولی کوئی تیسری کمپنی کر رہی ہو تو لوڈشیڈنگ کا سلسلہ ہی ختم ہو جائے گا۔ لائنوں کے نقصان کی ذمہ داری‘ تقسیم کار کمپنی کی ہو گی۔ بلوں کی وصولی کا ٹھیکیدار کوئی اور ہو گا اور بجلی پیدا کرنے والا کوئی اور۔ اگر یوں ہو جائے تو آپ دیکھیں گے کہ چند ہی ہفتوں میں بجلی کے ایسے میٹر آ جائیں گے‘ جن میں کمپیوٹر کے ذریعے ایڈوانس رقم جمع ہوا کرے گی اور جیسے ہی جمع شدہ رقم ختم ہو گی‘ بجلی ازخود کٹ جائے گی۔ صارف اپنے میٹر میں جب تک مزید رقم نہیں ڈالے گا‘ بجلی کی فراہمی شروع نہیں ہو گی۔ نہ کوئی جھگڑا‘ نہ کوئی شکایت۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ غرض‘ ہر جگہ تاجروں کے اپنے اپنے انتظامات ہوں گے۔ حکومت کا عمل دخل 
ختم ہو جائے گا۔ صارفین اور بجلی فراہم کرنے والے نجی مالکان‘ اپنے اپنے مال کی خود حفاظت کریں گے۔ لائنوں کے نقصان سے بچنا‘ تقسیم کار کمپنی کا کام ہو گا۔ صارف کو ناجائز بلوں کی شکایت نہیں رہے گی۔ جو بجلی وہ استعمال کرے گا‘ اس کی قیمت کی وصولی تقسیم یا پیداوار کرنے والے کو‘ اپنے اپنے سودے کے مطابق مل جائے گی۔ درحقیقت یہی سرمایہ داری نظام ہے مگر ہمارے ہاں ہر کام میں حکومت کے عمل دخل نے ہر کسی کو بے ایمانی کا محتاج بنا رکھا ہے۔ میں بجلی چرا کر کرپشن میں حصے دار بن جائوں تو ایماندار صارفین مارے جائیں گے۔ بجلی بنانے والا بجلی پیدا کئے بغیر‘ قیمت وصول کرے گا تو اس کے وارے نیارے ہو جائیں گے۔ صارف اور بجلی پیدا کرنے والوں کے درمیان سے بیوروکریسی نکل جائے تو نہ قلت رہے گی اور نہ خسارہ۔ حکمران‘ جو بظاہر بہت بااختیار نظر آتے ہیں‘ کرپشن کے رائج الوقت نظام کے نگہبان ہیں۔ عام شہری ان سب کے عیش و عشرت کی قیمت ادا کرتا ہے۔ ہر بڑا محل نما گھر‘ بیس خاندانوں کو جھونپڑوں میں رہنے پر مجبور کرتا ہے۔ ہم سب اپنے حصے سے زیادہ یا کم لے کر‘ رائج الوقت نظام کو چلانے میں مصروف ہیں۔ اکثریت کے حصے میں غربت آتی ہے اور برائے نام اقلیت‘ بھاری اکثریت کی محرومیوں سے فیض یاب ہوتی ہے۔ چونکہ یہ سارا نظام حکومت ایک ہی طرز کار کے تحت کام کرتا ہے‘ اس لئے چیزوں کی قلت یا فراوانی‘ فائدے اٹھانے والے طبقات کی مرضی و منشا کے مطابق ہوتی ہے۔ جب پٹرول کی قلت یا بلیک ہوتی ہے تو کمانے والے ایک یا دو ہوتے ہیں۔ جس کے پاس زیادہ اختیارات ہیں‘ زیادہ نفع بھی اسی کے حصے میں جاتا ہے۔ لوٹے گئے سرمائے کی تلاش کرنا ہو تو بیرونی ممالک کے بینکوں میں ڈھونڈیے۔ جب تک ہم ایسا نہیں کریں گے‘ ہمارا قومی سرمایہ گھٹتا چلا جائے گا۔ گھٹتے گھٹتے یہ عالم ہو گیا ہے کہ ہم‘ قریباً سو ارب ڈالر سے زیادہ کے مقروض ہو چکے ہیں۔ ہماری سرکاری ملکیتیں گروی پڑ چکی ہیں۔ ہم خود گروی پڑ چکے ہیں۔ یہاں لودھراں اور سیالکوٹ میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے میں ایک سال کا فرق ہو تو حیرت کی بات نہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved