تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     07-11-2015

سرمایہ کاری؟

مرحوم بھائی کے بچوں کو دیکھنے کے لئے کاؤنٹی کے مشرقی خطے میں گیا تو اس کے گھر کا زیریں حصہ کچھ اجنبیوں سے آباد نظر آیا۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ پاکستانی ہیں ‘ سیاحتی (وزٹ ) ویزے پرسعودی عرب سے آئے ہیں۔ بچہ پیدا کرنے کے بعد واپس اپنے گھر چلے جائیں گے۔کنبے میں ایک عورت حاملہ تھی۔مزید کریدنے پر معلوم ہواکہ اس کا شوہر اور تین بچے ساتھ ہیں۔وہ چوتھے بچے کو بطور'' سرمایہ کاری‘‘ جنم دے گی اور اٹھارہ سال بعد وہ امریکی شہری ہو گا۔اس ملک میں جو پیدا ہوتا ہے وہ اس کا سٹیزن ہوتا ہے اور بالغ ہو کرملک کا صدر بھی ہو سکتا ہے خواہ وہ غیر قانونی تارکین وطن کے ہاں پیدا کیوں نہ ہوا ہو۔پاکستانی اور کئی دوسرے ترقی پذیر ملکوں کے کروڑ پتیوں کو امریکی قانون کی اس شق کی بھنک پڑ گئی ہے اور وہ امریکہ کا رخ کر رہے ہیں۔بچوں کے مستقبل کی فکر کسے نہیں ہوتی؟
اٹھارہ سال طویل ہو تے ہیں۔آئیے ایک اور امریکی قانون کا جائزہ لیتے ہیں جو اس ملک میں داخلے کے لئے بے چین غیر ملکی کروڑپتیوں کو بلا تاخیر مستقل ویزا پیش کرتا ہے۔اِس ہاتھ دے‘ اْس ہاتھ لے۔پچیس برس پہلے وفاقی حکومت نے EB-5 نام سے ایک ویزا پروگرام شروع کیا تھا‘جس کے تحت وہ غیر ملکی جو کم سے کم پانچ لاکھ ڈالر کسی امریکی کاروبار میں لگا سکے اور براہ راست یا بلا واسطہ دس نوکریاں پیدا کرے وہ مستقل قیام کے اہل ہو گا۔ میں نے تو پانچ لاکھ ڈالر اکٹھے نہیں دیکھے مگر نئے پاکستان میں ایسے لوگ بکثرت ہوں گے جو پانچ کروڑ روپے کو اپنے ہاتھوں کی میل سمجھتے ہوں گے۔امریکہ میں کرائے پر مکان حاصل کرنے‘ گروسری خریدنے ‘ بلا انشورنس ہسپتال جانے اور پھر اٹھارہ سال انتظار کرنے سے یہ راہ اختیار کرنا زیادہ آسان اور سریع جان پڑتا ہے۔مشکل یہ ہے کہ یہ پروگرام اس مہینے کے آخر میں ختم ہونے کو ہے۔خدا سے دعا ہے کہ کانگرس ‘ اس اختیار میں توسیع کر دے۔ایسی دعائیں بھی تو اللہ سے مانگی جاتی ہیں۔
اس پروگرام کے پیچھے یہ نظریہ کارفرما تھا کہ امریکہ میں رہائش کی پیشکش سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرے گی اور امریکی معیشت کو بڑھاوا ملے گا۔عملاً یہ پروگرام ناکام ہو چکا ہے مگر کانگرس اس کی سلور جوبلی منا رہی ہے ۔ ارب پتی ڈانلڈٹرمپ اور بعض دوسرے ریپبلکن صدارتی امیدوار‘ جو امیگریشن کے خلاف ہیں‘ چاہیں گے کہ کانگریس اس قانون کو جانے دے کیونکہ تحقیق اس کی تائید نہیں کرتی۔ گزشتہ سال موقر تھنک ٹینک بروکنگز نے اندازہ لگایا کہ ساڑھے آٹھ ہزار غیر ملکی سرمایہ کار‘ جنہوں نے اس منصوبے کے نفاذ کے بعدیہ ویزا وصول کیا ان کے خاندانوں کی تعداد ان سے دوگنا تھی۔گویا انہوں نے یہ سرمایہ کاری اپنے لئے نہیں اپنے بال بچوں کی خاطر کی تھی۔اس کے عوض امریکہ کو کیا ملا؟ معیشت میں تقریباً پانچ بلین ڈالر کی سرمایہ کاری اور پچاسی ہزار ڈالر کے بقدر کل وقتی ملازمتیں۔یہ بظاہر موثر جان پڑتا ہے تاوقتیکہ آپ اس بات پر غور نہ کریں کہ امریکی محنت کشوں میں پندرہ کروڑ سے زیادہ لوگ شامل ہیں اور یہ کہ امریکہ ہر سال دو سو بلین ڈالر غیر ملکی سرمایہ کاری کی صورت میں حاصل کرتا ہے۔
پھر بھی سینیٹ کے ریپبلکن اور ڈیموکریٹ اس قانون کی توسیع کے لئے کو شاں ہیں جو پاکستانیوں اور دوسرے موقع پرستوں کے لئے خوش آئند ہو گا مگر دونوں پارٹیوں کے لیڈر وں کی خواہش ہے کہ نیا قانون پہلے کی نسبت بہتر ہو۔مثلاً وہ یہ چاہتے ہیں کہ کم سے کم نئی رقم زیادہ ہواورسرمایہ کاری کے لئے پسماندہ علاقوں کی نشان دہی کر دی جائے۔جو لوگ اٹھارہ سال انتظار کر سکتے ہیں وہ نئے قانون کا خیر مقدم کریں گے۔جن لوگوں نے نا جائز طریقوں سے پیسہ بنا یا ہے ان کے لئے پانچ کروڑ روپے کی سرمایہ کاری بھی آسان ہو گی۔ کانگرس پسماندہ علا قوں کا تعین کر دے مگر وہ تو امریکہ میں رہنے اور اس کے ماحول سے لطف اندوز ہونے کے لئے تشریف لا رہے ہیں۔ وہ ویسٹ ورجینیا‘ مسس سپی اور آرکنساس میں کیوں رہیں گے؟ یہاں نقل و حمل کی مکمل آزادی ہے۔سرمایہ کاری کرنے کے بعد وہ شمالی ورجینیا‘ ہیوسٹن اور نیو یارک میں رہائش اختیار کریں گے۔
صدر کلنٹن نے اپنی باری مکمل کرنے سے پہلے یہ پیشگوئی کی تھی کہ اگلی صدی کا امریکہ گورا نہیں ہو گا۔ان کی پیشگوئی سچ ثابت ہوئی۔امریکہ کی سرکاری زبان گو انگریزی ہے مگر ہسپانوی بھی عام بولی جاتی ہے اور یہ زبان بولنے والے لاطینو لوگوں کی بکثرت موجودگی کے باعث اس ملک کا رنگ پھیکا پڑا ہے۔ یہ لوگ میکسیکو ‘ کیوبا‘ وسطی اور جنوبی امریکہ سے پناہ گیروں کے ملک ا مریکہ میں داخل ہوئے ہیں اور آج دوسری زبان بولنے والے ملک کے ہر شعبہ زندگی میں سرگرم عمل ہیں۔ان میں سے ایک‘ مارکو روبیو تو کیوبن تارکین وطن کی اولاد ہیں‘ جو سینیٹ کے رکن اور صدارتی انتخاب میں ریپبلکن ٹکٹ کے امیدوار ہیں۔ان کے دوست جیب بش بھی جو فلوریڈا کے گورنر رہے ہیں اور بیوی کے ناتے فر فر ہسپانوی بولتے ہیں‘ صدارتی امیدوار ہیں۔ وہ دونوں اپنی پارٹی کے ایک اور امیدوار ڈانلڈ ٹرمپ سے کہہ رہے ہیں کہ لاطینو رائے دہندگان کو ناراض کرکے انہوں نے اچھا نہیں کیا‘ٹرمپ نے ابتدائی صدارتی تقریروں میں یہ کہہ دیا تھا کہ قاتل اور عورتوں کی عزت کے ڈاکو‘ میکسیکو سے آتے ہیں۔وہ انہیں اٹھا کر باہر پھینک دیں گے اور ملک کی سرحدوں کو مضبوط تر کریں گے۔ پھر ریپبلکن امیدواروں میں دوسرے مباحثے میں وہ بولے: '' ایک عورت حاملہ ہوتی ہے۔وہ سرحد پار کرتی ہے۔امریکہ میں ایک بچے کو جنم دیتی ہے اور پچاسی سال تک ہم بچے کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ میرے خیال میں ایسا نہیں ہونا چاہیے‘‘ ا س بیان کو گوروں نے پسند کیا ہے اور مسٹر ٹرمپ‘ پارٹی ٹکٹ کے ایک درجن امیدواروں میں سب سے آگے ہیں۔
یاد پڑتا ہے کہ ایک دفعہ میں کیلے فورنیا میں تھا۔سین ڈیگو سے سڑک پار کرکے میکسیکو میں داخل ہوا۔ اس وقت ایک جانب میکسیکن مردوں اور عورتوں کی ایک لمبی قطار لگی ہوئی تھی۔اس قطار میں عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ تھی۔تیا وانا میکسیکو پہنچ کر معلوم ہو اکہ وہ سب امریکہ میں داخل ہونے کو بے تاب تھے۔عورتیں زیادہ تر حاملہ تھیں‘ جو امریکہ میں بچہ جن کر اپنے وطن واپس آ جاتیں۔ایک قانون کی رو سے ہسپتالوں کو مریض سے پوچھ گچھ کی اجازت نہیں۔ عورت سیدھی ایمرجنسی میں جاتی ہے‘ وہاں سے اسے زچہ بچہ وارڈ میں منتقل کیا جاتا ہے اور بچے کی پیدائش کے بعد وہ اس کا برتھ سرٹیفکیٹ اپنی جینز کی جیب میں اڑس کر راہ فرار اختیار کرتی ہے۔ ہونے والے بچے کا ''برتھ رائٹ ‘‘ حاصل کرنے کی غرض سے پاکستانی ماؤں کو مشورہ ہے کہ وہ ٹیکسس کا رخ نہ کریں کیونکہ پچاس میں سے یہی ایک ریاست ہے‘ جو چودھویں ترمیم میں دیئے جانے والے حق کو تسلیم کرنے سے لیت و لعل سا کام لیتی ہے ۔ روزگار کے متلاشی میکسیکن مرد‘ سرحد عبور کرکے بسوں اور ریل گاڑیوں میں سفر کرتے اندرون ملک جاتے ہیں اور ہر صبح سیون الیون (کارنر شاپ) کے باہر بیٹھ کر دیہاڑی لگانے کا انتظار کرتے ہیں۔ کسی کے پاس '' سرمایہ کاری‘‘ کے لئے پانچ کروڑ ڈالر نہیں ہوتے ۔عورتیں ہو ں یا مرد‘ اس سارے عمل میں قانون سے بچنا سب کا فرض ہے۔ اب پاکستانی عورتیں اس دوڑ میں شامل ہو رہی ہیں اوران کا طریق کار شاہانہ ہونے کے با وصف امید کرنی چاہیے کہ وہ اپنے فکر مند اور فراخ دل شوہروں کی امداد سے یہ دوڑ بھی جیتیں گی۔ایسی ایک خاتون کا پتہ ایک معاصر صحافی کی اہلیہ محترمہ نے دیا اور پہلی با ر سرمایہ کاری کی اصطلاح استعمال کی۔دوسری خاتون اپنی ہی ایک سابق رفیقہ کار نکلیں۔نضیرہ اعظم اور ان کے شوہر ڈاکٹر ظفر اقبال نے میاں بیوی کو کھانے پر بلایا تھا۔ میاں کراچی میں ایک خبری ادارے کے ایڈیٹر ہیں اور پاکستان کے مستقبل پر ذرا کم یقین رکھتے ہیں۔ یہ خواتین تیا وانا کی قطار میں نہیں لگتیں لاہور‘ اسلام آباد یا کراچی سے ہوائی جہاز کا سفر اختیار کرتی ہیں اور وزٹ ویزا پر واشنگٹن‘ نیو یارک ‘ لاس انجلیز یا کسی دوسرے امریکی شہر کے
بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اترتی ہیں اور وہاں سے ہسپتال کا رخ کرتی ہیں۔کھانے اور رہنے سہنے کا بندوبست پہلے سے ہو تا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved