پاکستان اور بھارت میں سیاست دان، جنرل اور سفارت کار جیسے ہی اپنے عہدے سے سبکدوش ہوتے ہیں، اُنہیں امن ایک نعمت لگنے لگتا ہے۔ حالیہ دنوں کراچی آنے والے ایک بھارتی وفد کے ساتھ بات چیت کے دوران یہی سوچ غالب دکھائی دی۔ یہ وفد خورشید محمود قصوری کی کتاب''Neither a Hawk nor a Dove‘‘ کی تقریبِ رونمائی کے لیے پاکستان آیا تھا۔ ایک اور موقع پر ہمارے سابق وزیرِخارجہ نے کہا کہ اُنہیں سرحد کے دونوں طرف عوام کی مثبت سوچ اور معقول رویوں پر اعتماد ہے۔ میری خواہش ہے کہ میں بھی ایسی ہی رجائیت اپنا سکوں۔ کئی برسوںسے بھارت کے ساتھ پر امن تعلقات کا متلاشی رہنے اور ان کی وکالت کرنے کے بعد خدشہ محسوس ہوتا ہے کہ میں ناامید ہوچلاہوں۔ مجھے ان دونوں ممالک کے درمیان امن کا عمل (اگر کوئی ایسی چیز تھی) آگے بڑھتا دکھائی نہیں دیتا۔
بہت عرصہ پہلے میں نے لکھا تھا کہ ہمیں اپنے ماضی کی الجھنوں سے نکلنے، دیگر مہذب انسانوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے، ہتھیاروں کے انبار لگانے کی بجائے دونوں ریاستوں کے درمیان تجارت اور بات چیت کے عمل کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ تاہم پرانے تعصبات اور خدشات سے دامن چھڑا کر آگے بڑھنا مشکل ہوتا ہے۔ میری پکار کے صدا بہ صحرا ہونے میں کوئی امر مانع نہ تھا۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ امن کی بات کرنے والی لابی کمزور ہوتی جارہی ہے، کیونکہ بھارت اور پاکستان دونوں ممالک کی نوجوان نسل کو ڈیڈلاک توڑنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ دونوں ممالک سے تعلق رکھنے والے امن کے داعی جو ہر سال سرحد پار کرکے دوسروں سے ملنے آتے تھے، عمر کی گھاٹی میں اتر رہے ہیں۔ تاریک ہوتے ہوئے حالات امن پسندوں کے بالوں کی سفیدی کے برعکس ہیں۔
طارق فاطمی جو وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے نمائندہ خصوصی برائے خارجہ امور ہیں، کا خیال تھا کہ دوطرفہ مسائل کے حل کے لیے بھارت اور پاکستان کے عوام کو اپنی اپنی حکومتوں پردبائو بڑھانا چاہیے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے وزیر ِاعظم کو امن کی ضرورت پر قائل کرنے یا اُن پر دبائو ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ دوسری طرف بھارتی وزیر اعظم کو اپنے ہمسایوں کے ساتھ پرامن تعلقات قائم کرنے میں کوئی سیاسی فائدہ دکھائی نہیں دیتا۔ بھارت میں موڈ خراب ہوتا جا رہا ہے۔ ہندوانتہا پسندوں کے دبائو کی وجہ سے پاکستان سے تعلق رکھنے والے کھلاڑیوں، موسیقاروں اور فن کاروں کے لیے پرفارم کرنے کے امکانات دم توڑ چکے ہیں۔ اس وقت رجائیت کا دامن تھامنا بہت مشکل ہوچکا ہے۔ اگرچہ لبرل اور سیکولر بھارتی شہری اس بڑھتی ہوئی انتہا پسندی سے خائف اور شرمسار ہیں، لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ اس وقت قوم پرست اور انتہا پسند جنونی ہندو ہی بھارت کا اصل چہرہ ہیں۔
ایک طویل عرصے تک میں اپنی اسٹیبلشمنٹ اور سویلین جنگجوئوں کو مورد ِالزام ٹھہراتا رہا کہ وہ پاک بھارت تعلقات کے راستے میں ایک رکاوٹ ہیں، میری رائے تھی کہ کشمیر کے مسئلے کا کوئی فوجی یا سفارتی حل ممکن نہیں ؛ چنانچہ ہمیں موجودہ صورت ِحال کو قبول کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔ تاہم بھارت یہ رعایت دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے، اس لیے اس پر بات تک نہیں ہوسکتی ہے۔
خطے میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کو دیکھتے ہوئے مل کر کوشش کرنے کی ضرورت تھی، لیکن بھارت پاکستان میں تبدیل ہونے والی سوچ کا ادراک کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ مانا کہ نئی دہلی کے پاس پاکستان پر اعتماد نہ کرنے کے بہت سے بہانے ہیں، جیسے کارگل، ممبئی حملے، لیکن ہمہ وقت ان کا راگ الاپنے سے صرف جنگجویانہ فطرت رکھنے والی لابی کو ہی تقویت مل رہی ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، اس نے پہلے تو ممبئی حملوں میں ملوث افراد کے خلاف مقدمہ چلانے سے غیر ضروری طور پر پس و پیش سے کام لیا، لیکن اگر موجودہ صورت ِحال کی ذمہ داری کا تعین کیا جائے تو کہنا پڑے گا کہ اس میں بھارت کا زیادہ قصور ہے۔ ایک زیادہ طاقتو ر ریاست ہونے کی وجہ سے اسے اپنے اوپر اعتماد ہونا چاہیے تھا۔ اس کی بجائے یہ ہمیشہ بامعنی گفتگو سے اجتناب کرتا دکھائی دیتا ہے۔ پوائنٹ سکورنگ سے ہوسکتا ہے کہ شیو سینا اور بی جے پی کے قوم پرستوں کا دل خوش ہو جاتا ہو، لیکن اس سے امن کا عمل سبوتاژ ہوتا رہے گا۔
ایک وقت تھا جب پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو بھارتی حملے کا ہوّا کھڑا کرنے کی ضرورت تھی تاکہ دفاعی اخراجات میں اضافے کا جواز پیش کیا جاسکے؛ تاہم اب وہ وقت لد چکا۔ اب ہم جہادیوں کے خلاف ایک طویل جنگ میں الجھے ہوئے ہیں۔ اس جنگ میں فوج کو عوام کی حمایت بھی حاصل ہے اور حکومت اسے بھرپور وسائل فراہم کر رہی ہے۔ درحقیقت ہمارے جنرل اس بات پر خوش ہوں گے کہ مشرقی سرحد پر تنائو کم ہو کیونکہ وہ مغربی محاذ پر بے حد مصروف ہیں۔ تاہم اس وقت اُنہیں بھارتی فورسز کی طرف سے جارحیت کا سامنا ہے جو کشمیر میں شیلنگ کرتی رہتی ہیں۔ ان عوامل کی وجہ سے پیدا ہونے والے روایتی ہتھیاروں میں عدم توازن کے احساس نے پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ میدان ِجنگ میں استعمال ہونے والے شارٹ رینج ایٹمی ہتھیار بنائے۔
سدھندرا کلکرنی جو ممبئی میں خورشید قصوری کی کتاب کی رونمائی کے منتظم تھے اور جن کے چہرے پر شیو سیناکے کارکنوں نے سیاسی پھینکی تھی، کراچی آمدکے بعد ایک مقامی ٹی وی پر دکھائی دیے۔ اُن کا کہنا تھا کہ شیوسینا بھارت کی نمائندگی نہیں کرتی۔ ہوسکتا ہے وہ درست کہہ رہے ہوں، لیکن وہ تنظیم بی جے پی کے ساتھ انتہائی قربت رکھنے کی وجہ سے کچھ بھی کرنے کے لیے آزاد ہے۔ درحقیقت بھارت میں ہندو ازم کو ملنے والی تقویت پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ درست ہے کہ ہندوتوا کے کارکن فی الحال دہشت گردی کا ارتکاب کرتے دکھائی نہیں دیے لیکن کون جانتا ہے کہ آنے والے وقت میں یہ کیا رخ اختیار کرلیں۔ اب بھی وقت ہے، بھارت کو ہم سے سبق سیکھنا چاہیے، تب تک جنوبی ایشیا میں امن کے امکانات دھندلے ہیں۔