لاریب‘ پاکستان اقبال ؒ کی فکری تگ و تاز اور قائد اعظم کی سیاسی و جمہوری جدوجہد کا ثمر ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں میں خود ی کا احساس ‘خود داری کا شعوراور آزادی کاعزم اقبال ؒ کے کلام اور قائد ؒ کے سیاسی تصورات نے بیدار کیا مگر آزادی کے بعد جس قدر جلد ہم اقبالؒ اور قائد اعظم سے اُکتا گئے‘ وہ بے نظیر و بے مثال ہے۔
1971ء میں مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوا تو بعض ستم ظریفوں نے یہ کہا کہ ہم نے قائدؒ کا آدھا احسان اُتار دیا‘ باقی بھی اتار دیں گے۔ باقی ماندہ پاکستان اور ملک کے اصل مالکوں یعنی محب وطن عوام کے ساتھ ہماری حکمران اشرافیہ نے جو سلوک کیا وہ کوئی بُرا کرایہ دار رہائشی مکان اور اس کے مالک سے نہیں کرتا۔ قائد اعظمؒ نے برملا یہ کہا تھا کہ میںیہ ملک محروم‘ بے کس اور غریب عوام کے لیے حاصل کرنا چاہتا ہوں؛جاگیرداروں‘ وڈیروں‘ سرمایہ داروں اور طاقتوروں کے لیے نہیں‘ مگر یہی بالآخر اس آزاد ریاست کے وسائل اور اختیارات سے مستفید ہوئے ‘عوام کا کوئی پرسانِ حال نہیں!
اقبالؒ کے ساتھ ''حسن سلوک ‘‘میں جو کمی رہ گئی تھی وہ حکومت پنجاب اور وفاقی وزارت داخلہ نے پوری کر دی ہے۔ تدریسی نصاب‘ قومی پالیسیوں اور ملکی نظام سے تو اقبالؒ کو ہم نے عرصہ ہوا خارج کر دیا تھا‘ 9نومبر کو یوم پیدائش پرتعطیل کی رسم پوری ہو رہی تھی یا دفاتر میں اقبالؒ کی تصویر آویزاںرہتی۔تعطیل موجودہ حکومت نے ختم کر دی ہے ع
وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر‘ وہ حساب آج چکا دیا
یہ فیصلہ مسلم لیگ کے سربراہ‘ قائد اعظم ثانی‘ پاکستان کے ''لبرل‘‘ وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کے برادر خورد کے دور حکمرانی میں ہوا۔کوئی اور کرتا مثلاً بے نظیر بھٹو‘ آصف علی زرداری یا پرویز مشرف تو کہرام برپا ہوتا مگر اب کوئی بولا نہیں۔ مجھے امیر الاسلام ہاشمی یاد آ رہے ہیں جن کے رشحاتِ قلم میں اقبالؒ سے اس عہدِ کم ظرف کی بے اعتنائی پر پوشیدہ طنز کے ساتھ ایک کسک‘ ایک اضطراب اور ایک پیغام ہے ؎
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سنائوں
دہقان تو مرکھپ گیا‘ اب کس کو جگائوں
ملتا ہے کہاں خوشۂ گندم کہ جلائوں
شاہین کا ہے گنبد شاہی پہ بسیرا
کنجشک فرومایہ کو میں کس سے لڑائوں
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سنائوں
ہر داڑھی میں تنکا ہے‘ ہراک آنکھ میں شہتیر
مومن کی نگاہوں سے بدلتی نہیں تقدیر
توحید کی تلوار سے خالی ہیں نیامیں
اب ذوق یقیں سے نہیں کٹتی کوئی زنجیر
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سنائوں
شاہیں کا جہاں آج تو کرگس کا جہاں ہے
ملتی ہوئی مُلاّ سے مجاہد کی اذاں ہے
مانا کہ ستاروں سے بھی آگے ہیں جہاں اور
شاہیں میں‘ مگر طاقت پرواز کہاں ہے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سنائوں
مر مر کی سلوں سے کوئی بیزار نہیں ہے
رہنے کو حرم میں کوئی تیار نہیں ہے
کہنے کو توہر شخص مسلمان ہے لیکن
دیکھیں تو کہیں نام کو کردار نہیں ہے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سنائوں
بے باکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن
مکاّری و روباہی پہ اتر اتا ہے مومن
جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو
وہ رزق بڑے شوق سے اب کھاتا ہے مومن
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سنائوں
پیدا کبھی ہوتی تھی سحر جس کی اذاں سے
اس بندۂ مومن کو میں اب لائوں کہاں سے
وہ سجدہ زمیں جس سے لرز جاتی تھی یارو
اک بارتھا‘ ہم چھٹ گئے اس بار گراں سے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سنائوں
جھگڑے ہیں یہاں صوبوں کے ‘ ذاتوں کے‘ نسب کے
اُگتے ہیں تہہِ سایۂ گل خار غضب کے
یہ دیس ہے سب کا مگر اس کا نہیں کوئی
اس کے تنِ خستہ پہ تو اب دانت ہیں سب کے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سنائوں
محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے
جمہور سے سلطانیٔ جمہور ڈرے ہے
تھامے ہوئے دامن ہے یہاں پر جو خودی کا
مر‘ مر کے جئے ہے کبھی جی جی کے مرے ہے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سنائوں
دیکھو تو محلاّت کے پردوں کو اٹھا کر
شمشیروسناں رکھی ہے طاقوں پہ سجا کر
آتے ہیں نظر مسند شاہی پہ رنگیلے
تقدیر اُمم سو گئی طائوس پہ آ کر
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سنائوں
مکّاری و عیّاری و غدّاری و ہیجان
اب بنتا ہے ان چار عناصر سے مسلمان
قاری اسے کہنا تو بڑی بات ہے یارو
اس نے تو کبھی کھول کے دیکھا نہیں قرآن
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سنائوں
کردار کا ‘گفتار کا ‘اعمال کا مومن
قائل نہیں ایسے کسی جنجال کا مومن
سرحد کا ہے مومن‘ کوئی بنگال کا مومن
ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں اقبال کا مومن
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سنائوں
1997ء میں برسر اقتدار آ کر میاں نواز شریف نے جمعہ کی چھٹی ختم کی‘ معاشی ترقی کا خواب پورا ہوا نہ عالمی برادری سے قدم ملا کر چلنے کا‘ ملک دیوالیہ ہونے لگا ۔اب اقبال ڈے کی چھٹی ختم کر کے ترقی و خوشحالی کو دعوت دی جا رہی ہے۔ خدا خیر کرے۔
محکوم ہندوستان میں اقبالؒ ڈے کے موقع پر قائد اعظمؒ نے اپنی یہ خواہش ظاہر کی تھی: ''اگر مسلمانوں کی الگ ریاست کے قیام تک میں زندہ رہا اور مجھے اقبال کے کلام اور مسلم ریاست کی حکمرانی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑاتو میں اوّل الذکر کو ترجیح دوں گا‘‘۔ قائد اعظمؒ کے وارثوں نے مگر اقبالؒ کو ایک دن کی تعطیل کا مستحق بھی نہیں سمجھا۔ اقبال تیرے دیس کا کیا حال سنائوں؟