ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک خوبصورت شہزادہ ہوا کرتا تھا۔ اس کی ایک حسین اور دلکش بیوی اور تین بچے تھے۔ پیٔر نامی یہ شہزادہ اپنی بیوی مارگریٹ اور تینوں بچوں سمیت کینیڈا کے وزیر اعظم ہائوس میں رہتا تھا۔ ان کی زندگی پریوں کی داستان کی طرح تھی۔ یہ کینیڈا کا حکمران خاندان تھا۔ سبھی لوگ ان سے پیار کرتے تھے، انہیں چاہتے تھے؛ تاہم میاں بیوی کے درمیان عمر کا فرق حائل ہوتا گیا۔ بیوی بائیس برس کی تھی جبکہ شوہر کی عمر اکیاون برس تھی۔ بیوی کو چاروں طرف سے سکیورٹی اور پروٹوکول کے تقاضوں نے گھیر رکھا تھا۔ اس سے ہر طرح کی ''سیاسی موزونیت‘‘ کی توقع کی جاتی تھی، مگر یہ حدود و قیود اسے منظور نہیں تھیں، لہٰذا وہ بغاوت کر بیٹھی۔ اپنی سوانح حیات میں اس نے لکھا کہ ''جس دن سے میں مسز پیٔر ایلیٹ ٹروڈو بنی، شیشے کی ان دیکھی دیواریں میرے چاروں اطراف یوں کھڑی کر دی گئیں جیسے دماغی امراض کے ہسپتال میں ذہنی عوارض میں مبتلا مریضوں کے گرد بنائی جاتی ہیں، جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ اب اپنے فیصلے خود کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے اور جنہیں تیز روشنی سے بچایا جانا چاہئے‘‘۔ بعد میں ایک انٹرویو میں بھی اس نے اپنی شادی کے بارے میں یہی کہا کہ ''جہاں تک میری ذاتی شناخت کا تعلق ہے، یہ میرے لیے مکمل تباہی تھی‘‘۔
چنانچہ جلد ہی وہ مارگریٹ سے میگی بن گئی۔ تفریح اور آسائش کے لیے نیویارک اس کا من پسند مقام بن چکا تھا۔ مین ہٹن کا مشہور ڈسکو کلب اسٹوڈیوـ 54 اس کا ٹھکانہ تھا۔ پارٹیوں میں مگن رہنا، ناچتے تھرکتے رہنا اور الزبتھ ٹیلر، روسی بیلے ڈانسر میخائیل بیرشنکوف اور اینڈی وارہل جیسے نامی فنکاروں کے ساتھ گپ شپ میں مصرو ف رہنا اس کی نئی شناخت تھی۔ اس دوران اس کے کئی معاشقے بھی مشہور ہوئے۔ رولنگ سٹونز کے مک جیگر کے ساتھ اس کی محبت کی داستان اخباروں کی زینت بنتی رہی۔ بعد میں مشہور برطانوی موسیقار رونی ووڈ کے ساتھ بھی اس کے رومان کا چرچا ہوتا رہا۔ رونی ووڈ نے اس کے ساتھ شب باشی کا اعتراف بھی کیا تھا۔کہتے ہیں کہ کینیڈا کی اس خاتونِ اول کے ساتھ سینیٹر ٹیڈی کینیڈی کا معاشقہ بھی بڑے زور شور سے چلا تھا۔ نیو یارک اور اٹاوا کے درمیان وہ بڑے تواتر سے پرواز کیا کرتی تھی۔ کسی وزیر اعظم کی اہلیہ کا ایسا بے باکانہ رویہ پہلے کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ سبھی اس کے رویے اور حرکتوں پر حیرت زدہ بلکہ پریشان تھے۔ کیراکس میں ایک سرکاری عشائیے کے دوران اپنی میزبان یعنی وینزویلا کی خاتونِ اول سے اظہارِ خلوص کے طور پر وہ ناچتے گاتے، کُود کر میز پہ چڑھ گئی تھی۔ وائٹ ہائوس میں ایک سرکاری اور رسمی عشائیے میں اس نے منی سکرٹ پہن کرشرکت کی جبکہ ہوانا میں ایک سنجیدہ مقصد کے لیے منعقدہ تقریب میں وہ جینز پہن کر پہنچ گئی تھی۔
آخر کار اس کی جوانی اس کے شوہر کے بڑھاپے سے جیت گئی اور اٹھائیس برس کی عمر میں مارگریٹ نے اپنے ستاون سالہ شوہر اور تین چھوٹے بیٹوں کو چھوڑ دیا اور مکمل طور پر عیش و عشرت میں کھو گئی۔ شراب نوشی اور منشیات کی کثرت کے باعث وہ نروس بریک ڈائون اور دماغی مرض کا بھی شکار ہوئی۔ ایک زمانے میں اس نے کہا تھا کہ ''میں اپنے شوہر کے کوٹ پہ سجے گلاب سے زیادہ کچھ بننا چاہتی ہوں‘‘۔ 1984ء میں اسی شوہر سے علیحدگی کی درخواست اس نے جمع کرا دی۔ علیحدگی کے ایک ماہ بعد اس نے دوسری شادی کر لی اور یہ دوسری شادی بھی طلاق ہی پر منتج ہوئی۔ اپنی آزاد روی اور بے باکانہ طرزِ زندگی سے دنیا کو حیران و پریشان کرنا اسے پسند تھا۔ 1997ء میں اپنے ایک انٹرویو میں اس نے یہ تک کہہ دیا تھا کہ اگر حشیش کو قانونی حیثیت دی گئی اور یہ کیپسول کی شکل میں دستیاب ہوئی تو ہر روز شراب کی بجائے وہ یہی استعمال کیا کرے گی۔ 1998ء میں اس کا سب سے چھوٹا بیٹا مائیکل ایک برفانی تودے کی زد میں آکر ایک جھیل میں ڈوب کر ہلاک ہو گیا۔ یہ وزیر اعظم پیٔرٹروڈو کے لیے بہت بڑا صدمہ تھا۔ ان کا دل چُور ہو گیا۔کبھی وہ بے حد وجیہ اور خوش شکل ہوا کرتے تھے مگر اب بوڑھے اور بیمار دکھائی دینے لگے۔ اس حادثے کے دو سال بعد 2000ء میں وہ بھی انتقال کر گئے۔ جس عورت سے انہوں نے بے حد عشق کیا تھا وہ اپنے باقی دونوں بیٹوں جسٹن اور الیگزینڈر سمیت ان کے سرہانے سوگوار بیٹھی تھی۔ اپنے سابق شوہر کے حوالے سے اس کا کہنا تھا: ''شادی ختم ہو جانے کا مطلب یہ قطعاً نہیں کہ محبت بھی ختم ہو گئی ہے‘‘۔ پیٔرٹروڈو اور اس کی عمر میں انتیس برس کا فرق تھا۔ پیٔرٹروڈو نے طلاق کے بعد دوسری شادی نہیں کی، مارگریٹ ہی ان کی واحد محبت تھی۔ اپنے والد کی آخری رسومات کے دوران جسٹن ٹروڈو نے ان کے لیے الوداعی تقریر کی تھی جو ذرائع ابلاغ میں براہِ راست نشر ہوئی۔ اپنی اس تقریرکے ذریعے اس نے کینیڈین عوام کے دل جیت لیے۔ پندرہ سا ل بعد نومبر 2015ء میں جسٹن ٹروڈو کینیڈا کے وزیر اعظم منتخب ہوچکے ہیں۔ وہ 1971ء میں کرسمس کے دن پیدا ہوئے۔ وہ ابھی چار ماہ کے تھے کہ امریکی صدرنکسن نے ان کے مستقبل کی پیش گوئی کر دی تھی۔ اٹاوا کے اپنے سرکاری دورے میں ایک عشائیے کے دوران جام نوش کرتے ہوئے انہوں نے اسے''مستقبل کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے نام‘‘ کیا تھا۔ تاہم اس''مستقبل کے وزیر اعظم‘‘ کا کیریئر کافی پُرپیچ رہا ۔ 2008ء میں مقننہ میں اپنے انتخاب سے قبل وہ کئی ایک ملازمتیں کر چکے ہیں۔ وہ ایک استاد رہے ہیں، بنجی جمپنگ کر چکے ہیں اور ماحولیاتی جغرافیے کے کوچ بھی رہے ہیں۔ باکسنگ میں بھی وہ قسمت آزما چکے ہیں اور ایک بار سرعام نیم عریاں رقص بھی کر چکے ہیں۔ 2007ء میں The Great Warنامی فلم میں انہوں نے اداکاری بھی کی۔ یہ فلم پہلی جنگِ عظیم میں کینیڈا کے کردار کو اجاگر کرتی ہے۔ جسٹن میں بے قراری کا وہی عنصر نمایاں دکھائی دیتا ہے جو ایک خاتونِ اول کے طورپر ان کی والدہ کی پرسکون زندگی کی راہ میں حائل رہا تھا۔ تاہم والدہ کی جانب سے حاصل ہونے والے اس جینیاتی عنصر کا نتیجہ ان کے لیے مختلف رہا ہے۔ اپنی والدہ کی زندگی کے برعکس ان کی زندگی المیوں سے عبارت نہیں ہوئی بلکہ انہیںفتح نصیب ہوئی اور تینتالیس برس کی عمر میں وہ اسی وزیر اعظم ہائوس واپس پہنچ گئے ہیں جہاں وہ پیدا ہوئے تھے۔
آج 67 برس کی عمر میں مارگریٹ ٹروڈوبھی کافی بدل چکی ہیں۔ ان میں وہ آزاد روی اور بے باکی باقی نہیں جس کی وجہ سے وہ 1970ء کے عشرے میں خبروں کی زینت بنا کرتی تھیں۔ ایک مدت کے بعد وہ روزمرہ کے لباس میں ملبوس نظر آئیں۔ ان کے چہرے پہ جھریا ں قدرے نمایاں ہیں۔انہوں نے کندھوں پر بال کھلے چھوڑے ہوئے ہیں اور دوسری مائوں جیسی ایک نارمل ماں ہی دکھائی دیتی ہیں۔ اپنے بیٹے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کی مسکراہٹ رک نہیں رہی تھی۔ وہ بہت پرسکون، باوقار اور تصنع سے مبرا دکھائی دے رہی تھیں۔ ان کی اپنی زندگی بھی یک دم المیے سے فتح میں بدل گئی ہے۔ چھ برس قبل انہوں نے کہا تھا: ''خوش رہنے کے لیے میں نے بڑی محنت کی ہے۔ یہ درحقیقت ایک جدوجہد تھی۔ اچھی یادوں پہ میں مسکراتی ہوں اور بری یادوں پہ آنکھیں بند کر لیتی ہوں، اس آگہی کے ساتھ کہ میں زندہ رہی ہوں‘‘۔
زندگی بالعموم دوسرا موقع دیتی ہے۔ مارگریٹ بھلے ان سب المیوں سے گزر کر آئیں، جیسے انہوں نے 2009ء کے ایک انٹرویو میں بتایا بھی تھا، لیکن اپنے ان پُر وحشت لمحوں میں انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ قسمت انہیں حقیقی خوشی کا ایک اور موقع بھی دے گی اور وہ اسی وزیر اعظم ہائوس واپس چلی جائیں گی جو انہوں نے اکتیس برس قبل چھوڑا تھا اور جہاں ان کے تینوں چھوٹے بیٹوں کو ان کے شوہر نے تنہا پالاتھا۔ اب وہ وزیر اعظم کی والدہ ہیں اور چمکتے چہرے کے ساتھ وہ پھر یہ کہہ سکتی ہیں کہ '' میں یادوں پہ مسکراتی ہوں، اس آگہی کے ساتھ کہ میں زندہ رہی ہوں!‘‘