وزیر اعظم کل لودھراں اور سیالکوٹ کے دورے پر تشریف لے گئے جہاں انہوں نے کسانوں میں امدادی چیک بھی تقسیم کیے۔ موصوف کا اصل ٹارگٹ تو لودھراں تھا جہاں قومی اسمبلی کا ضمنی انتخاب ہونے جا رہا ہے حالانکہ الیکشن کمیشن نے ایسے اقدامات پر سخت پابندی لگا رکھی ہے لیکن یہ پابندی بجائے خود ایک مذاق کی حیثیت اختیار کر چکی ہے کیونکہ اس کی خلاف ورزی نہ صرف سابقہ ضمنی انتخابات میں کی گئی بلکہ بلدیاتی الیکشن میں بھی اس کی دھجیاں اڑائی گئیں اور اب ایک بار پھر یہ کار خیر سرانجام دیا جا رہا ہے اور الیکشن کمیشن نے اس سلسلے میں صرف زبانی جمع خرچ سے کام لیا ہے یعنی ایکشن لینے کا مبہم سا اعلان جس کی حیثیت سب کو معلوم ہے جبکہ عمران خان اور دیگر اپوزیشن کا یہ مطالبہ بھی ہوا میں اڑا دیا گیا ہے کہ اس ادارے کوانتظامی اور مالی طور پر با اختیار بنایا جائے بلکہ سابقہ کارکردگی کی بناء پر یہ مطالبہ بھی کیا جا چکا ہے کہ کمیشن کے صوبائی ارکان مستعفی ہوں یا انہیں ہٹا دیا جائے تاکہ کم از کم آئندہ انتخابات ہی صحیح طور پر منعقد ہو سکیں لیکن ؎
کون سُنتا ہے فغانِ درویش
قہرِ درویش بجانِ درویش
اور جہاں تک کسانوں میں چیک تقسیم کرنے کا تعلق ہے تو پہلی بات تو یہ ہے کہ لودھراں کے علاوہ چونکہ اور کہیں ضمنی انتخاب ہونے نہیں جا رہا اس لیے کہیں اور یہ چیک تقسیم بھی نہیں ہوں گے اور اگر ہوئے بھی تو آخر کتنے کسانوں کو یہ چیک ملیں گے اور جنہیں نہیں ملیں گے ان کی دلسوزی کا اندازہ کسی نے نہیں لگایا؛ چنانچہ اگر تین سو کچھ ارب روپے کا واقعی کوئی پیکیج موجود ہے تو چیک تقسیم کرنے کی بجائے انہیں اجتماعی طورپر دیگر سہولتیں بہم پہنچائی جائیں جن سے وہ بلا امتیاز فائدہ اٹھا سکیں مثلاً بجلی کے نرخ کم کیے جائیں‘ ڈیزل سستا کیا جائے‘ بیجوں کی سپلائی کو بہتر بنایا جائے اور فصلوں پر استعمال ہونے والی ادویہ کے نرخ کم کر کے ان کی سپلائی کو بہتر بنایا جائے جبکہ اس ضمن میں جعلی ادویات سپلائی ہونے کی اطلاعات بھی موجود ہیں لیکن حکومت ایسا نہیں کرے گی کیونکہ اس میں حکومت کی کارگزاری کھل کر سامنے نہیں آئے گی جبکہ چیک تقسیم کرنے کی ساری کارروائی ٹی وی پر دکھائی بھی جائے گی اور سکولوں‘ ہسپتالوں وغیرہ کی بہتر صورت حال بہتر بنانے کی بجائے میٹرو بس‘ اورنج لائن ریلوے اور موٹر وے وغیرہ کو فوقیت اس لیے دی جا رہی ہے کہ ان میں نمائش کا پہلو زیادہ ہے!
حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے کسانوں کا کچومر نکل گیا ہے۔ ایک تاجر حکومت کو کسان کے مسائل سے کیا آگاہی ہو سکتی ہے۔ پہلے ہی حالات اتنے خراب ہیں‘ اس پر اگر بھارت سے آلو‘ ٹماٹر اور پیاز کی درآمد ہونے لگ جائے تو کسان خودکشیاں نہیں کریں گے تو اور کیا کریں گے؟ لیکن موجودہ حکومت تمام تر معروضی حالات کے باوجود بھارت کے صدقے واری جانے کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ صنعت کا بھی برا حال ہے۔ ایک تو بجلی اور گیس کی عدم دستیابی کی وجہ سے بہت سی ملیں نہ صرف بند ہو چکی ہیں بلکہ لوگ اپنی ملیں اور کارخانے بیرون ملک شفٹ کر رہے ہیں!
اس پر مستزاد حکومت کی چائنا پالیسی بھی ہے کہ چائنا سے ڈیوٹی فری تجارت کے حوالے سے سب سے زیادہ نقصان ہماری صنعت نے اٹھایا ہے اور یہ تجربہ مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے کیونکہ چائنا میں لیبر پاکستان کی نسبت بہت سستی دستیاب ہے اس لیے وہاں اشیاء کی تیاری پر خرچہ ہماری نسبت بہت کم آ تا ہے اور وہ انہیں سستے داموں بیچ اور برآمد کر سکتے ہیں چنانچہ ہماری مصنوعات دکانوں ہی پر پڑی سڑتی رہتی ہیں۔ بہرحال اب کہیں جا کر حکومت کو ہوش آیا ہے اور اب وہ اس پالیسی پر نظر ثانی کا سوچ رہی ہے چنانچہ صنعت کاراگر بدحال ہو گا تو اس کا اثر زراعت اور کسان پر بھی پڑے گا۔
اور جہاں تک کسانوں میں چیکوں کی تقسیم کا تعلق ہے تو یہ بھی ساری کی ساری دکانداری ہے۔ مثلاً لودھراں میں انہی کسانوں کو چیک دیے گئے ہوں گے جو ان کے امیدوار کی دی ہوئی فہرست کے مطابق ہوں گے اور لودھراں کے علاوہ جو چیک تقسیم کئے جائیں گے وہ حکومتی ارکان مرکزی و صوبائی اسمبلیوں کی سفارش پر دیے جائیں گے کیونکہ حکومت کی اصل ترجیح اوّل اپنے اقتدار کو بہر صورت قائم رکھنا اور مضبوط کرنا ہے ۔ کسان ہوں یا غیر کسان‘ حکومت کو کسی کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مُرغی انڈے کی صنعت پر حکومت کی اجارہ داری ایک الگ داستان ہے جس میں مرغیوں کی خوراک بطور خاص شامل ہے‘ یعنی کسان کے لیے اتنی گنجائش بھی نہیں چھوڑی گئی کہ وہ زراعت کی کسمپر سی ہی کے زخم کھاتے رہیں اور پولٹری جیسے کسی اضافی ذریعہ روزگار سے بھی محروم رہیں۔ دودھ اور ڈیری پروڈکٹس پر ایک وفاقی وزیر چھائے ہوئے ہیں جہاں کسی کو پر مارنے کی جرأت نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ ایک طرف حکومت عوام کو غیر ملکی قرضوں کی زنجیروں میں جکڑ رہی ہے اور دوسری طرف اس قرضے کی ادائی بھی اس مفلوک الحال طبقے پرنت نئے ٹیکس لگا کر کی جائے گی جو اطلاعات کے مطابق ورلڈ بینک کی بنیادی شرائط میں سے ہے جنہیں مان کر ہی قرضہ حاصل کیا جا سکے گا ۔
نمونے کی شرائط صُلح نامہ
اگر آپ واقعی صلح اور رجوع کرنا چاہتے ہیں تو وہ چند معمولی شرائط سے مشروط ہے جن میں سب سے پہلی یہ ہے کہ نگوڑے جہانگیر ترین کو پارٹی سے فوری طور پر فارغ کیا جائے کیونکہ وہ دوبارہ بھی اس طرح کی سازش کر کے رنگ میں بھنگ ڈال سکتے ہیں۔ اس طرح زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ آپ ان کا ہوائی جہاز جھوٹنے سے محروم ہو جائیں گے جبکہ آپ امیر آدمی ہیں‘ اپنا جہاز خود بھی خرید سکتے ہیں‘ بصورت دیگر جہاز خریدنے کے لیے حسب معمول چندہ اکٹھا کیا جا سکتا ہے کیونکہ اگر آپ کینسر ہسپتال وغیرہ کے لیے چندہ اکٹھا کر سکتے ہیں تو جہاز خریدنے کے لیے کیوں نہیں؟
دوسری شرط یہ ہے کہ میری سیاسی مہمات میں کوئی دخل اندازی برداشت نہیں کی جائے گی بلکہ آپ مجھے جلد از جلد وزیر اعظم بنوانے کی کوشش کریں گے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بینظیر بھٹو کے بعد ملک کو کوئی خاتون وزیر اعظم نصیب ہی نہیں ہوئی ہے۔ آپ تو کپتان ہیں‘ آپ کو وزیر اعظم بننے کی ضرورت ہی نہیں‘ نیز آپ کے ہاتھ پر وزارت عظمیٰ کی لکیر ہی نہیں ہے ورنہ آپ دھرنے کے دنوں ہی میں وزیر اعظم بن جاتے، علاوہ ازیںآپ کے وزیر اعظم بننے سے میں ملک کی خاتون اوّل ہو سکتی ہوں تو میرے وزیر اعظم بننے سے آپ مردِ اوّل کیوں نہیں بن سکتے اور اس پر قناعت نہیں کر سکتے۔؟
آخری اور بالکل معمولی سی شرط یہ ہے کہ آخر مجھے ہاتھ کُھلے کرنے کی ضرورت بھی پیش آتی رہے گی اس لیے مجھ پر ہاتھ اٹھانے کی پابندی نہیں لگائی جا سکتی جو کہ میرے بنیادی حقوق کے منافی ہو گا۔ تاہم‘ میرے لیے آپ کی طرف سے لگائی گئی کوئی شرط قابلِ قبول نہیں ہو سکتی۔ خاطر جمع رکھیں!
آج کا مقطع
راہ میں راکھ ہو گئیں دھوپ کی پتیاں ظفرؔ
آنکھ بکھر بکھر گئی اپنی ہی آب و تاب سے