تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     09-11-2015

مودی کو میری دلی مبارک

وزیراعظم نریندر مودی، نتیش کمار کو مبارکباد دے رہے ہیں، لیکن میں اپنے پیارے دوست نریندر مودی کو مبارک دے رہا ہوں۔ بہار میں نریندر مودی کی تو لاٹری کھل گئی ہے۔ اگر مودی بہار میں جیت جاتے تو ان کی بیماری کافی سنگین صورت اختیار کر جاتی۔ وہ لاعلاج مریض بن جاتے۔ ان کا غرور آسمان کو چھونے لگتا۔ وہ اپنے آپ کو ملک کا سب سے بڑا لیڈر سمجھنے لگتے۔ بھاجپا کے کارکنوں کی مستی بڑھ جاتی۔ مودی کے وزراء اور ارکان پارلیمنٹ کی کیفیت وہی ہو جاتی ‘جو کسی پرائیویٹ لیمٹڈ کمپنی کے فرمانبردار ملازمین کی ہوتی ہے۔ سربراہ آرایس ایس موہن بھاگوت کی جانب ابھی بناوٹی پیار دکھایا جاتا ہے‘ وہ اپنی اصلی شکل اختیار کر لیتا۔ لال کرشن ایڈوانی اور مرلی منوہر جوشی جیسے لوگوں کا ابھی صرف مذاق ہی اڑایا جا رہا ہے، پھر ان کی بے عزتی بھی شروع ہو جاتی۔ اپوزیشن کی جانب سرکار کا رویہ کافی نفرت والا ہوجاتا۔ ملک میں رفتہ رفتہ تقریباً ایمرجنسی کی حالت بن جاتی۔ ملک کے عام اور خاص لوگ یہ سوچنے لگتے کہ مودی کا نعم البدل ابھی ڈھونڈنا ہے۔ لوگوں کی سوچ یہ ہوتی کہ یا تو مودی کو بیچ میں ہی اقتدار سے آزاد کیا جائے، اگر وہ کسی طرح ساڑھے تین سال کھینچ لے گئے تو بی جے پی اگلے دوتین دہائی تک جنگل میں چلی جائے گی۔ بہار نے اس بات پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ بہار نے مودی کو اب جو دوا دی ہے‘ وہ کسی ''جمال گھوٹے‘‘ سے کم نہیں ہے۔گزشتہ ڈیڑہ برس سے ان کو جو قبض پریشان کر رہا تھا اب وہ دستوں میں بدل جائے گا۔ مودی کا پیٹ اور دماغ دونوں صاف ہو جائیںگے۔ دلی کی دوا بے اثر ثابت ہوئی، مودی نے اس سے کوئی سبق نہیں لیا۔ بہار میں بھی نتیش کے مقابلے میں خود کو کھڑا کر لیا، دلی میں بھی یہی کیا تھا۔کچھ سدھرے تو پھرکاغذ کی ایک پتلی کو لے آئے۔ بہار میں تو کسی پتلی کی بھی آڑ نہیں لی، خود ہی اڑ لیے۔ اپنی رونق کو چکنا چور کروا لیا۔ بحث کی سطح بھی اوپر نہیںر کھی۔ بہارکے عام آدمی نے خود سے پوچھا کہ کیا نتیش کو شکست دے کر مودی بہار کے وزیراعلیٰ بنیںگے؟ ایک 'بہاری ‘ نے سچ مچ 'باہری‘کو پٹکنی مار دی۔ اب اصلی سوال یہ ہے کہ مودی بہار سے بھی کوئی سبق لیں گے یا نہیں؟انہیں طے کرنا ہے کہ وہ بھارت کے وزیراعظم ہیں یا وزیر پرچار؟
بہار کے چنائو نے 2019 ء کے لوک سبھا کے چنائوکی بنیاد ابھی سے رکھ دی ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں ایک ہونے کی کوشش کریں گی لیکن 1977ء کی طرح وہ انہیں جوڑنے والا کوئی جے پرکاش نارائن ڈھونڈ نہیں پائے۔ ڈھونڈیں تو شاید مل جائے! ورنہ ہماری حزب اختلاف تو آج بھان متی کا کنبہ ہی ہے۔ مودی کو یہ سمجھ تو ہوگی ہی اور وہ اب بھی سنبھل جائیں تو بہتر ہوگا! 
امیت شاہ اور مودی 
اخباروںکی خبر ہے کہ بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے اتوارکو اپنے پارٹی لیڈروں اور وفاقی وزرا کو پھٹکار لگائی‘جن کے غلط بیانات کے سبب پارٹی اور سرکار کی بدنامی ہو رہی ہے۔ اس خبر کی ہیڈ لائن دیکھ کر میرے دل میں یہ خیال آیا کہ 'دیرآید درست آید! بی جے پی لیڈروں کی نیند توکھلی! گویا جب جاگے تبھی سویرا! پھر راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے سربراہ کا بیان بھی دیکھا، اس نے 'پانچ جنیہ‘ اور 'آرگنائزر‘ کو سنگھ کا خاص میگزین ماننے سے انکار کیا اور پانچ جنیہ میں چھپے اس لیکھ سے سنگھ کو الگ کیا جس میں گائے کے قاتل کا قتل وید کے حساب سے جائز بتایا گیا تھا۔ مجھے لگا کہ امیت شاہ اور نریندر مودی کو اب ڈیڑھ سال بعد سمجھ آئی کہ بھارت میں کامیاب حکومت چلانے کا فن کیا ہے۔ انہوں نے اس گرو منتر کو اپنایا ہے کہ گجرات بھارت نہیں اور بھارت گجرات نہیں، لیکن میری خوشی کچھ ہی پل میں کافور ہو گئی، جب میں انہی خبروں کے آخر میں پہنچا۔ میں نے یہ پڑھا کہ جن لوگوں سے امیت شاہ نے بات کی تھی‘ان میں سے کچھ نے کہا کہ ہماری شاہ سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی اور ایک نے کہا کہ ملاقات ہوئی تھی لیکن اس مدعا پر ان سے کوئی بات نہیں ہوئی۔ اگر خبر کا یہ آخری حصہ ٹھیک ہے تو ماننا پڑے گا کہ اخباروں میں اس خبر کو چپکایا گیا ہے،اس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں۔ یہ شک اس لیے بھی کنفرم ہوتا ہے کہ اخباروں نے یہ صاف صاف نہیں بتایا کہ امیت شاہ والی خبرکے ذرائع کیا ہیں؟ اگر یہ شک حقیقت ہے تو بہت افسوس ناک ہے۔ یہ توکریلا اور نیم چڑھا والی بات ہوگئی!
اگر سچ مچ مودی اور شاہ اپنی سرکار اور پارٹی کی عزت بچانا چاہتے ہیں اور اپنے عہدوں پر قائم رہنا چاہتے ہیں تو انہیں دادری جیسے واقعات کی سخت لفظوں میں مذمت کرنی چاہیے۔کوئی وجہ نہیں کہ وہ گول مال لغات کا استعمال کریں۔ پارٹی اور سرکارکے جن لوگوںکو اوٹ پٹانگ بیان دینے کی عادت ہے‘ان کے ساتھ ان کے لائق برتاؤ ہونا چاہیے۔ اگرضروری ہو تو انہیں سزا دینے کی ہمت بھی ہونی چاہیے۔
پارلیمنٹ نیچی ‘عدالت اونچی
سپریم کورٹ نے تختہ الٹ دیا۔ لیڈر لوگ کہہ رہے ہیں کہ عدالت نے پارلیمنٹ کی خود مختاری کو للکار دیا ہے۔ اس نے عدالت کو اونچا اور پارلیمنٹ کو نیچا کر دیا ہے۔پارلیمنٹ اس لیے نیچے ہوگئی کہ جس قانون کو پارلیمنٹ نے سبھی کی اتفاق رائے اور زیادہ تر ودھان سبھائوں نے پاس کیا تھا‘اسے سپریم کورٹ نے غیر آئینی اعلان کر دیا۔ وہ کون سا قانون تھا؟ وہ تھا ججوں کی تقرری کا۔ اب تک ہائی کورٹوں میں ججوں کی تقرری ججوںکی ایک جماعت ہی کر دیتی تھی اور صدر اور گورنر اس پر مہر لگا دیتے تھے، لیکن موجودہ سرکار نے ججوں کے ذریعے ججوںکی تقرری کوکافی غلط پایا۔ اس نے اس سسٹم میں ترمیم کی۔ چھ آدمیوںکا سیلیکشن کمیشن بنایا ‘جس میں وزیر قانون، دو مشہور آدمی، چیف جسٹس اور دو دیگر جج تھے۔ اسی ترمیم کو عدالت نے گرا دیا۔
یوں تو دنیا کے خاص ممالک میں ججوں کی تقرری میں سرکار کا ہاتھ ہوتاہے، لیکن یا تو وہ عمل کافی سخت اور دوراندیش ہوتا ہے یا پھر تقرریوں کے لیے پارلیمنٹ کی رائے لینی پڑتی ہے۔ ایسے میں من مانی اور دھاندلی کرنا مشکل ہوجاتا ہے، لیکن بھارت کے نئے اور پرانے سسٹم میں کافی غلطیاں ہیں۔ پرانے سسٹم میں سپریم کورٹ کے جج اپنوں کو ریوڑی بانٹتے رہے تو انہیں روکنے والا کوئی نہیںتھا، جبکہ نئے سسٹم میں سرکاری دخل اندازی مشکوک بنی ہوئی ہے۔ دونوں سسٹم کولھو میں گُڑ پھوڑنے والے ہیں۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے سرکار کو گڑکا دیا ہے، لیکن اسے پتا ہے کہ اس میں بہت کمیاں بھی ہیں۔ سپریم کورٹ کا یہ لچیلا پن یہ بتاتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ اور سرکار کو نیچا دکھانے پر تارو نہیں ہے۔ اس نے اس آئینی ترمیم کو رد کردیا ہے تو یہ اس کا حق ہے۔ اسے پارلیمنٹ کی توہین کیوںکہا جا رہا ہے؟کیا ہماری عدالتیں آزاد نہیں ہیں؟ کیا وہ پارلیمنٹ کی نوکرانی ہے؟کیا اس نے پارلیمنٹ سے ججوںکی تقرری کا حق چھین لیا ہے؟ایسا کچھ نہیں ہے۔ بدعنوانی عدالتوں میں بھی ہے، لیکن آج بھی عوام کا اعتماد لیڈروں سے زیادہ ججوں پر ہے۔ ہمارے لیڈر ججوںکی تقرری ہتھیانے کے لیے آئینی ترمیم لے آئے، لیکن انگریزوں کی سڑے ہوئے انصاف کے سسٹم میںکوئی بھی بنیادی سدھارکرنے کی بات نہیں سوچتا۔
پانچ بار وزیر اعظم بنے! 
گزشتہ روز ماریشیٔس کے وزیر اعظم شری انی رُدھ جگن ناتھ کے ساتھ لگ بھگ دو گھنٹے بات ہوئی۔ کھانا کھاتے وقت ہم دونوں ساتھ ساتھ بیٹھے تھے۔ ان کے ساتھ ماریشیٔس اور بھارت میں پہلے بھی کئی بار کھانا اور گفتگو ہوئی‘ لیکن اس مرتبہ جتنی کھلی بات ہوئی‘ شاید پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ سر شوساگر رام غلام کے بعد‘ جو پہلے وزیر اعظم تھے‘ ماریشیٔس میں عہدہ وزیر اعظم صرف تین لوگوں کے ارد گرد گھومتا رہا ہے۔ پہلے جگن ناتھ جی‘ دوسرے نوین رام غلام اور تیسرے پال بیرانجے۔ یہ اتفاق ہے کہ ان تینوں لیڈروں سے میرے کافی گہرے تعلقات رہے۔ گزشتہ تیس پینتیس برسوں میں ہم لوگ ایک دوسرے کے گھر بھی آتے جاتے رہے‘ لیکن جب ہم بھارت اور ماریشیٔس کے تعلقات کی بات کرتے ہیں تو سر شوساگر رام غلام کے بعد جو نام سب سے زیادہ ابھرتا ہے ‘وہ انی رُدھ جگن ناتھ کا ہی ہے۔ وہ اپنا نام رومن میں فرانسیسی طریقے میں لکھتے ہیں‘ جس کا تہجی ہوتا ہے 'اینی روڈ جگنیٹ‘ لیکن میں انہیں ان کے نجی نام ہندی سے ہی بلاتا ہوں۔ وہ پانچویں بار ماریشیٔس کے وزیر اعظم بنے ہیں۔ دنیا کی سیاست میں جتنی بھی جانتا ہوں‘ آج تک میں نے کسی بھی ایسے لیڈر کا نام نہیں سنا‘ جو اپنے ملک کا پانچ بار وزیر اعظم منتخب ہوا ہو۔ جگن ناتھ جی تو دو بار صدر بھی چنے گئے۔ ان کی بیگم صاحبہ میڈم لیڈی سروجنی بھی بہت دریا دل اور مہذب خاتون ہیں۔ ماریشیٔس میں ہی سونام دھنیہ‘ مرحو م سوامی کرشنانند جی نے ہی میرا تعارف ان دونوں سے کروایا تھا۔ جگن ناتھ جی کے بیٹے ببھی آج کل رکن پارلیمنٹ ہیں۔ جگن ناتھ جی گزشتہ پچاس سال سے بھی زیادہ عرصے سے ماریشیٔس کی سیاست میں متحرک ہیں۔ 86 سال کی عمر میں بھی ان کا جوش دیکھنے لائق ہے۔ انہوں نے اپنے مخالفین کے بارے میں بھی مجھے بہت وسیع طریقے سے بتایا لیکن اب ان کی زبان میں وہ تیزاب نہیں دکھائی دیا‘ جو تیس سال پہلے ہوا کرتا تھا۔ وہ بھارت ماریشئس تعلقات میں چین یا پاکستان کو کوئی رکاوٹ نہیں مانتے‘ حالانکہ ان کے بڑھتے اثر کو قبول کرتے ہیں۔ انہوں نے ماریشیٔس سے بھارت آنے والے اربوں روپیہ کے کالے دھن کی خبروں کو بے بنیاد بتایا اور دوطرفہ کالا دھن سمجھوتے کی اہمیت کا خاکہ کھینچا۔ افریقہ میں پھیل رہی دہشت گردی پر جب میں نے خدشات ظاہر کیے تو انہوں نے کہا: ماریشئس میں ہم خاصے خبردار ہیں‘ فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved