تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     09-11-2015

بھارت کہاں جا رہا ہے؟

بھارت کے مہاتما موہن داس کرم چند گاندھی کو گولی مارنے والا نتھو رام گوڈسے ہندو تھا۔جس نے ہندوؤں کے لیڈر کو قتل کرنے کی واردات 30جون 1948ء کودہلی شہر میں کی۔گاندھی جی کا ایک مطالبہ ہندو دہشت پسندوں کو ناگوار گزراتھا۔جس میں مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ پاکستان کو ریڈ کلف کمیشن ایوارڈ کے مطابق متحدہ ہندوستان کے خزانے سے منصفانہ رقم ادا کی جائے۔پھر یوسف خان کی باری آئی۔پشاور کا یہ مسلم پٹھان بھارت کی فلم انڈسٹری کی مجبوری بنا،لیکن اسے بمبئی فلم انڈسٹری میں راج کرنے کے لیے اپنا نام یوسف خان سے دلیپ کمار میں تبدیل کرنا پڑا۔
آئیے ذرا اور پیچھے چلتے ہیں۔1930ء اور1940ء کے عشرے میں ہندوؤں نے ہندوتوا کی تحریک شروع کی۔اس تحریک کو وقتاََفوقتاََدو نام ملے۔ایک شدّھی، جس کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان میں بسنے والے مسلمان یا تو ہندو مذہب قبول کر لیں یا پھر انہیں تلوار کے زور سے ختم کر دیا جائے۔دوسری تحریک کا نام تھا سنگھٹن اور اس کا ایجنڈا یہ تھا کہ ہندوستان کو مسلم اقلیت سمیت تمام اقلیتوں سے صاف کر دیا جائے۔
1947ء میں پاکستان قائم ہو گیااور اس کے ساتھ ہی عارضی طور پر اس وقت کی سکھ قیادت نے ہندو لیڈر شپ کے ہاتھ مضبوط کیے۔سکھوں کے علیحدہ وطن خالصتان کا وہ معاہدہ جو ہر سکھ کے دل میں مچل رہا تھا ، وقتی طور پر دب گیااور اس کے ساتھ ہی ہندو مہا سبھا کی لیڈر شپ سیاسی طور پر زیرو ہو کر رہ گئی۔کانگرس بر سرِ اقتدار آئی۔ اس کے لیڈروں نے بھارت کے اندر اقلیتوں کی زبانی دلجوئی کے ذریعے اپنی سیاسی گرفت کو مضبوط کیا۔
آج تقریباََ سات عشروں کے بعد مہاتما گاندھی کے قاتل گروہ کے حامی انتہا پسند ہندو برسرِ اقتدار ہیں۔ بھارت کے اندر عملی طور پر ایک اور'' مہابھارت‘‘ لڑی جا رہی ہے،لیکن اس دفعہ یہ جنگ کورو اور پانڈو کے لشکروں کے درمیان نہیں ہے۔آج جنگ کا محاذ ریڈیائی لہریں،نشریاتی ٹیلی وژن ،بھاری بھرکم اخبارات، ٹوئیٹر، فیس بک،ویب سائٹ، انٹرنیٹ، اور سوشل میڈیا ہے، جہاں ایک طرف سرکاری سرپرستی میں گوشت خوری کے الزام لگا کر مسلمانوں کو قتل کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف بھگود گیتا کے بجائے گورو نانک صاحب کی گرنتھ پڑھنے کے جرم میں سکھ بھی مارے جا رہے ہیں۔عیسائی مذہب کے ماننے والوں کے لیے بھارت میں زمین پہلے ہی تنگ ہے ۔ان کی عبادت گاہیں یعنی چرچ ہی نہیںبلکہ ان کی دنیا داری سے دور خاتون نن اور ان کے پادری اور پاسٹر زندہ جلائے گئے۔یہاں دیانتداری سے یہ بھی کہنا ضروری ہے کہ ہندو دہشتگرد جتھے اور ان کے ایلیٹ سرپرست ہندوؤں کے سماجی ڈھانچے میں نچلی ذات کے ہندوؤں سے بھی غیر ہندو جیسا سلوک کرتے ہیں۔عرفِ عام میں اس طبقے کو اچھوت یعنی(UNTOUCHABELS) یا دِلت کہا جاتا ہے،جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہندوستان ہندو ٹھاکروں کا ملک ہے اور اس میں نچلی ذات کے ہندو،سکھ،عیسائی کے ساتھ ساتھ مسلم اقلیت کے لیے کوئی جگہ نہیں۔اس طرزِ سیاست نے بھارت کو پچھلے تین سال میں رائے عامہ کی سطح پر ذلیل و خوار کر کے رکھ دیا ہے۔
بھارت اس وقت اپنی تاریخ کے سب سے بڑے Cross Roads یعنی چوراہے پر کھڑا ہے۔بھارتی سماج میں معقول سوچ رکھنے والے شہریوں کے سامنے آج سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ بھارت کہاں جا رہا ہے؟ غار کے زمانے یا بائیسویں صدی کی طرف؟۔آئیے زمینی حقائق کے مطابق اس سوال کا جواب تلاش کریں۔
نمبر ایک،بھارت میں مسلمانوں کی آبادی 50کروڑ سے زائد ہے۔ سرکاری طور پر انہیں40کروڑ کہا جاتا ہے۔سکھ،عیسائی اور نچلی ذات کے دِلت ہندو ملا کر یہ مظلوم آبادی100کروڑ کو جا پہنچتی ہے۔آج کا بھارت نہ تو 100کروڑ لوگوںکو دھکے دے کر ہندوستان سے نکال سکتا ہے ، نہ ہی 100کروڑ قبریں کھودنا مودی اور اس کے حمایتیوں کے لیے ممکن ہے۔اس لیے موجودہ لڑائی کا انجام مہا بھارت والا نہیں ہو گا،بلکہ اس کے نتیجے میں بھارت کا وجوداز خود خطرے میں ہے۔یہ بات بھی یاد رہے کہ بھارت کے اندر تاریخ کی اس سب سے بڑی بے چینی کا ذمہ دار نہ پا کستان ہے،نہ پاکستان کا سپائی ماسٹر،آئی ایس آئی۔
نمبر دو،دستیاب خبروں کے مطابق بھارت میں 42فلم ساز ،اداکار،صحافی،پبلشراور دیگر شعبوں کے ممتاز خواتین و حضرات بھارتی ریاست کے اعلیٰ ترین ایوارڈ واپس کر چکے ہیں۔ساتھ ساتھ انہوں نے انعامات کے چیک ہندو خزانے کو واپس بھجوا دیئے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ بھارت واضح طور پر اقلیت ،سیکولر اور انتہا پسند ہندو طبقوں میں بٹ کر صف آراء ہو گیا ہے۔مودی سرکار کی سرپرستی میں اگر انتہا پسندوں کو عارضی فتح دلوائی گئی تو اس سے عالمی امن اور علاقائی سلامتی فوری خطرے کا شکار ہو جائے گی۔
نمبر تین،کیا وہ مغربی دنیا جو مسلم دہشتگرد اور سیاسی اسلام جیسی اصطلاحوں کے ذریعے جاہ پرست مسلم بادشاہوں کے خاندانی اقتدار کی چوکیدار بنی ہوئی ہے،وہ ہندو انتہا پسندی کو مزید نظر انداز کر سکتی ہے؟
نمبرچار،یورپ،امریکہ اور آسٹریلیا سمیت دنیا بھر میںمچھلی اور مرغی سے کئی گنا زیادہ گوشت کھایا جاتا ہے۔ان ملکوں میں سب سے زیادہ اسٹیک مشہور کھانا ہے، جس میں زیادہ تربڑا گوشت استعمال ہوتا ہے۔مودی سرکار نے گائے کو ماں قرار دے کر اس کی پوچا کا جو سلسلہ شروع کیا ہے، اس کے نتیجے میں مغربی ملکوں میں موجودہ ہندو ایسے ریستوران،ذبح خانے اور گوشت کی دکانوں پر حملے کر سکتے ہیں،جہاں ان کی مقدس گاؤ ماتا کٹ کر قیمے،کوفتے،کباب اور اسٹیک میںبانٹ دی جاتی ہے؟
نمبر پانچ،مشرقی ایشیائی مسلم اقلیت کے ساتھ بد سلوکی کا پہلا ریکارڈ بھارت نے قائم کیا،دوسرا روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ برما نے قائم کیا،۔لیکن بھارت اور برما کے درمیان ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار ہے،۔جبکہ برما میں40سال سے زیادہ عرصے سے مارشل لاء لگا ہوا ہے۔ اس صورتحال کے پیشِ نظر تاریخ کے اس چوراہے میں کیا بھارت آخر کار جمہوریت کو خدا حافظ کہنے لگا ہے؟
مودی سرکار کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہندوستان میں موجود30سے زائد آزادی کی تحریکوں کو جمہوریت کے نام پر تو شاید ٹالا جا سکتا ہے لیکن ہندوریاست دِلت سمیت اقلیتوں کو اپنی مرضی کا غلام نہیں بنا سکتی۔
میں کوئی پیش گوئی نہیں کرنا چاہتا لیکن دیوار پر لکھا ہو اپڑھ سکتا ہوں۔آج بھارت کی انتہا پسندی کے مطابق پاکستان کو سارک، آسیان،یورپی یونین اور دیگر ایشیائی اور بین الاقوامی فورمز پر بھارت کے اندر ابلنے والا مذہبی دہشتگردی کا لاوا پھٹنے سے پہلے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔اور ہماری کاروباری قیادت تھوڑی دیر کے لیے بھارت کے ساتھ کاروبار کو بھول کر پاکستان کے کاروبارِ سلطنت کو بھی دیکھ لے۔وقت گزرنے کے بعد ہم وہ سفارتی ،علاقائی او ر عالمی مفادات حاصل نہیں کر سکیں گے جن کے لیے آج ماحول انتہائی سازگار ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved