وزیراعظم نے رقم دینے کا وعدہ کیا
لیکن ایک دھیلہ نہیں دیا: قائم علی شاہ
وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم نے رقم دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن ایک دھیلہ بھی نہیں دیا‘‘ چنانچہ چائنا کٹنگ کے سلسلے میں جن زمینوں کی الاٹمنٹ منسوخ کر دی گئی تھی مجبوراً انہیں دوبارہ بحال کرنا پڑا ہے حالانکہ وزیراعظم کے پاس دھیلوں کی کمی نہیں ہے اور ایک آدھ دھیلہ دینے سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا؛ چنانچہ اسی سوگ میں میری تقریر کے دوران کمشنر صاحب بھی سوئے رہے اور شکر کیجئے کہ میں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ تقریر کے دوران خاکسار بھی کئی بار سو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ '' وفاقی حکومت سندھ کے مسائل حل کرنے میں کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کر رہی‘‘ حالانکہ جہاں ہم سندھ میں اپنی دلچسپی کا پورا پورا اظہار کر رہے ہیں اور کئی وزراء اور سیکرٹری وغیرہ پہلے ہی یا تو ضمانتیں کروا چکے ہیں یا اس کے مزید اظہار کے لیے بیرون ملک سدھار چکے ہیں، وہاں انہیں اِدھر اُدھر سے مانگ تانگ کر گزارہ کرنا پڑتا ہے جبکہ رینجرز اور نیب وغیرہ بھی مسلسل قطع رحمی کا اظہار کر رے ہیں۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
ملکی ترقی کے لیے معیشت کو
سیاست سے الگ رکھنا ہو گا: اسحق ڈار
وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا ہے کہ ''ملکی ترقی کے لیے معیشت کو سیاست سے الگ رکھنا ہو گا‘‘ جبکہ آئے روز مالی سکینڈلز کے انکشاف سے ملکی ترقی اور معیشت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا کیونکہ حکومت ترقی کرے گی تو ملک بھی ترقی کرے گا جبکہ حکومت کی ترقی کو ملکی ترقی ہی سمجھنا چاہئے اور یہ جو وزیراعظم نے کہا کہ کسان کی ترقی ملک کی ترقی ہے تو اس میں بھی یہی راز پوشیدہ ہے کیونکہ کارخانے وغیرہ لگانے کے ساتھ ساتھ صاحبِ موصوف نے کافی زمینیں بھی خرید رکھی ہیں اور اس طرح کسان بن گئے ہیں لہٰذا بطور کسان بھی ان کی ترقی میں ملکی ترقی کا راز پنہاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''قوم متحد ہو جائے تو پاکستان کا مستقبل بہت روشن ہے‘‘ اور یہ اسی طرح متحد ہو سکتی ہے کہ آنکھیں بند کر کے وزیراعظم کے ہاتھ پر بیعت کر لے اور پارلیمنٹ بھی موصوف کی ولولہ انگیز قیادت کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے ساتھ کھڑی ہو جائے تو ملک کے مستقبل کو روشن ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ آپ اگلے روز حضرت داتا گنج بخشؒ کے سالانہ عرس پر خطاب کر رہے تھے۔
سندھ حکومت کام کرتی نہیں،
بس پیسے مانگتی ہے: مصدق ملک
وزیراعظم کے ترجمان مصدق ملک نے کہا ہے کہ ''سندھ حکومت کام کرتی نہیں، بس پیسے مانگتی ہے‘‘ جبکہ ہم نہ صرف کام کر رہے ہیں بلکہ پیسے بنا بھی رہے ہیں؛ چنانچہ ماسوائے ورلڈ بینک کے کسی سے مانگتے بھی نہیں جبکہ پیسے بنانے سے بڑا اور کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ''سندھ حکومت کام کرے گی تو پیسے ملیں گے‘‘ اگرچہ رینجرز وغیرہ نے اس کے کام کو کافی متاثر کیا ہے اور خطرہ بھی ہے کہ اب ہمارے کام کو بھی متاثر کیے جانے کا وقت آ گیا ہے لیکن ہم قائداعظم کے پیروکار ہیں جنہوں نے فرمایا تھا کہ کام، کام اور صرف کام؛ چنانچہ اسحق ڈار صاحب کے ذریعے بھی کام، کام اور صرف کام ہی کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''وزیراعظم نے جو بھی وعدہ کیا ہے، پورا کریں گے‘‘ اور صاحب موصوف کے جس بیان کے بعد ''گے‘‘ یا ''گا‘‘ آ جائے اس کے بارے میں خود ہی اندازہ لگا لینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ''قائم علی شاہ ہمارے بزرگ ہیں‘‘ اور بزرگوں کا کام دعائیں دینا ہوتا ہے، پیسے مانگنا نہیں، لہٰذا وہ اپنی بزرگی کا ہی کچھ خیال کریں۔ آپ اگلے روز وزیر اعلیٰ سندھ کے بیان کا جواب دے رہے تھے۔
بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی
کی مثال ملنا مشکل ہے: منظور وٹو
پیپلز پارٹی پنجاب کے تاحال صدر میاں منظور احمد خان وٹو نے کہا ہے کہ ''بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کی مثال ملنا مشکل ہے‘‘ اور جو کام اپنے دور میں ہم نے کر رکھے ہیں، ان کی مثال ملنا مشکل ہی نہیں، ممکن ہے بلکہ اُس کا تو گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں اندراج ہونا چاہئے جبکہ زرداری صاحب، ہردو سابقہ وزرائے اعظم، رحمان ملک، اور خاکسار و دیگران کے انفرادی کارہائے جمیلہ کا بھی اندراج ہونا چاہئے کیونکہ جب ہمیں اور کوئی ریکارڈ نہ ملا تو ہم نے اپنے ہی ریکارڈز توڑ ڈالے جو زرداری صاحب نے کسی زمانے میں قائم کر رکھے تھے۔ انہوں نے کہا ''کہ حکومت نے فالتو بیلٹ پیپرز اپنے ارکان اسمبلی کو دئیے‘‘ حالانکہ حصہ رسدی ہمیں بھی دئیے جا سکتے تھے اگرچہ اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑنا تھا کیونکہ ان پر انگوٹھا لگانے والا ہی کوئی نہ تھا کیونکہ دماغی کمزوری کی وجہ سے ہمارے ووٹرز کو یاد ہی نہ رہا کہ اس دن الیکشن ہے اور وہ گھروں سے باہر ہی نہ نکلے جبکہ وہ ہماری قربانیوں کو یاد کرنے میں ہی اتنے مگن تھے کہ انہیں اور کچھ یاد ہی نہ تھا بلکہ انہیں یاد کر کر کے ہمیں بھی کچھ یاد نہیں رہتا اور سارا کچھ بھول جاتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
ناشتے کی میز پر
پلک نواز... بوڑھے والدین کی نگاہ... اہلِ خانہ پر پڑے تو دُور افق کی گھاٹیوں سے... صبح اپنے رنگ و نور سے لدی پھندی... نکل پڑے... مکان... جہاں مقیم بوڑھے والدین... رُکے تو اپنا سونے جیسا روپ... اس مکاں پہ وار دے... مکاں کے سارے رنگ کو اُتار دے... یہ لوگ تو عظیم شہر میں... عظیم شہر کا قدیم اندرون ہیں... یہاں وہاں تھڑے ہیں... جن پہ لوگ بیٹھ کر... تمام دن کی راکھ کو اُڑا سکیں... کسی کے ساتھ بیٹھ کر... ذرا سا ہنس سکیں... ذرا سا... اپنے آپ کو رُلا سکیں... یہ لوگ تو سرائے کی کلید ہیں... جہاں پہ دُنیا والے... اک سکوں سے رات کاٹ لیں... جو چاروں اور گھیرتا ہے... وہ محیط پاٹ لیں... یہ لوگ تو خلا کا ثقل ہیں... فلک کا رنگ ہیں... اگر نہ ان کا ساتھ ہو... نہ دھوپ ہو کرن بھری... فلک نہ نیل رنگ ہو... یہ کون ہیں... کہ جن کی عطر سے بھری ہوا... کہ جن کا عطر سے بھرا وجود... عکس ریز ہے... کہاں آ رہی ہیں... ارغنون کی دُھنیں... یہ ارغوانی باغ ہے... کہ ناشتے کی میز ہے... نزار،کم بدن... جو ایک قاش سنگترے کی... ناشتے کی میز سے اُٹھائیں... تو پھلوں میں رس پڑے... جو دھیرے سے... ذرا سا مُسکرائیں... سارا خاندان ہنس پڑے!!
آج کا مطلع
اب کی بہار میں تو عجب ماجرا ہوا
زخموں کا باغ ایک ہی شب میں ہرا ہوا