تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     09-11-2015

تعزیت یا مشَقّت

عزا ء کے معنیٰ ہیں: مصیبت پر صبر کرنا، انگریزی میں اسے Consolationکہتے ہیں اور تعزیت کے معنیٰ ہیں: کسی کو مصیبت کے عالم میں تسلی دینا ، صبر کی تلقین کرنا ، اسے انگریزی میں Condolenceکہتے ہیں ۔ اسلام میں مصیبت زدہ بھائی کو صبر کی تلقین کرنا اور تسلی دینا ایک اَحسن عمل ہے اور باعثِ اجر ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کا فرما ن ہے : '' جو بھی مسلمان مصیبت کے وقت اپنے مسلمان بھائی کو تسلی دے اور صبر کی تلقین کرے ، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اُسے کرامت کا جوڑا پہنائے گا،(سُنن ابن ماجہ:1601)‘‘۔
کسی کی موت پر اس کے قریبی رشتے داروں کے ساتھ تعزیت کا وقت شرعاً تین دن تک ہے ، جبکہ پہلے دن تعزیت کرنا افضل ہے اور تین دن کے بعد تعزیت کرنا مکروہ ہے ۔ دُرِّمختار میں ہے : ''اہلِ میت مسجد کے علاوہ کسی جگہ تین دن بیٹھیں تاکہ لوگ اُن سے تعزیت کر سکیں ، پہلے دن تعزیت کرنا افضل ہے اور اس کے بعد مکروہ ہے ، سوائے اس شخص کے جو بر وقت موجود نہ ہونے کی وجہ سے تین دن کے بعد آئے ، (ردُّ المحتار مع الدر المختار ، جلد :3، ص : 110)‘‘۔ 
امام احمد رضا قادری سے سوال کیا گیا کہ تعزیت میت کی تدفین کے بعد ہی ہو سکتی ہے یا پہلے بھی جائز ہے ؟ انہوں نے جواب میں لکھا : تدفین کے بعد تعزیت کرنا افضل ہے اور تدفین سے پہلے بھی بلا کراہت جائز ہے اور پھر انہوں نے صحیح امام ابن السکن کے حوالے سے لکھا کہ میت کے وُرثاء سے تعزیت باعثِ اجر ہے ۔ میت کی اطلا ع ملنے پر میت کے وُرثاء سے تعزیت کرنے کاایک اجر ہے ،جنازے میں شریک ہونے کا دو گنا اجر ہے ، جنازے کے ساتھ چلنے کا تین گنا اجر ہے اور تدفین میں شریک ہونے کا چار گنا اجر ہے ۔ اس سے ملتی جلتی حدیث صحیح مسلم میں بھی ہے ،(حدیث53-54:) حدیث میں تعزیت پر ترغیب کے لیے اجر کی مقدار قیراط کو اُحد سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ فتاویٰ عالمگیری میں خزانۃ الفتاویٰ کے حوالے سے لکھا ہے : تین دن تک تعزیت کے لیے بیٹھنے کی رُخصت ہے ، لیکن یہ پسندیدہ عمل نہیں ہے ۔ علامہ شرنبلالی نے ''المراقی الفلاح ‘‘ میں لکھا ہے : غم زدہ شخص کے پاس تعزیت کے لیے جمع ہونا مکروہ ہے ، بلکہ بہتر یہ ہے کہ جب لوگ تدفین سے واپس آئیں تو منتشر ہو جائیں اور اپنے اپنے کام میںمشغول ہوجائیں اور اہلِ میت بھی اپنے کام میں مشغو ل ہوجائیں ۔ 
خلاصہ یہ ہے کہ میت کے لیے تعزیت ، دُعا اور ایصالِ ثواب جائز بلکہ پسندیدہ عمل ہے اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا بھی جائز ہے ، میت کے ورثاء کے پاس جا کر تعزیت کرنا بھی جائز ہے ، البتہ اس مقصد کے لیے خاص طور پر بیٹھنا جب کہ یہ شرعی منکرات سے خالی ہو، جائز ہے، مگر اس کا نہ کرنا افضل ہے ۔ البتہ اسے حرام اور بدعت قرار دینا درست نہیں ہے، (فتاویٰ رضویہ ، جلد :9، صفحہ : 399-401تلخیص)۔ رسول اللہ ﷺ کے ایک نواسے کا انتقال ہوا تو آپ کی صاحبزادی نے آپ کو اپنے ہاں تشریف لانے کی درخواست کی ۔ آپ ﷺ وہاں تشریف لے گئے اور یہ کلماتِ تعزیت ارشاد فرمائے :''اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ،لِلّٰہِ مَا اَخَذَ وَلَہٗ مَا اَعْطٰی،وَکُلُّ شَیئٍ عِنْدَ ہٗ اِلیٰ اَجَلٍ مُّسَمًّی،فَلْتَصْتَبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ،ترجمہ: بے شک ہم سب اللہ ہی کے لیے ہیں اوریقینا ہم سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ، اللہ نے جو کچھ ہم سے لے لیا وہ اسی کی عطا تھی اور اس کے پاس ہر چیز کے لیے ایک وقت مقرر ہے، پس صبر کرو اور اللہ سے اجر کی اُمید رکھو، (سنن ابن ماجہ : 1588)۔ 
یہ موضوع میں نے اس لیے منتخب کیا کہ میرے پاس چکوال سے یہ سوال آیا :''ہمارے علاقے بالخصوص ہمارے گاؤں سہگل آباد ،چکوال میں فوتگی کے موقع پر لوگ تعزیت کے لیے آتے ہوئے اس بات کا قطعاً خیال نہیں کرتے کہ میت کے گھر والے آرام کررہے ہوں گے یا ان کے کھانے کا وقت ہے۔لوگ صبح کی نماز تک آتے رہتے ہیں ۔میت کے گھر والوں کو صبح کی نماز سے رات ساڑھے دس بجے تک بیٹھنا پڑتاہے ،اتنالمبا وقت بیٹھنا اور کئی دن تک اس سلسلے کا چلتے رہنا میت کے گھر والوں کے لیے دشوار ہوجاتاہے ۔تعزیت کا یہ سلسلہ مردوں ،عورتوں دونوں میں ایک جیساہے ۔معلوم یہ کرناہے :کیا تعزیت کے لیے گاؤں والے مل کر اوقات مقرر کرسکتے ہیں، یہ خلافِ شریعت تو نہیں ؟اگر تحدید کردی جائے تو عوام کے لیے کیا دلائل رکھے جائیں گے،تعزیت کے لیے کون سا وقت بہتر ہوگا؟‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ ہم نے تعزیت کے مسنون و مستحب اور سادہ سے عمل کو اتنا پیچیدہ اور مشکل بنادیا ہے کہ اب یہ عملاً تعزیت کی بجائے مشقت اورتکلیف کا باعث بن گیا ہے ، جس کا کوئی اظہار بھی نہیں کرسکتا۔ یعنی جنہیں ہم تسلی اور صبر کی تلقین کرنا چاہتے ہیں ، درحقیقت انہیں مشقت میں مبتلا کرنے (Inconvenience) اوررنجیدہ کرنے کا باعث بنتے ہیں ۔ 
ہمارے ہاں صوبۂ خیبر پختونخوا،قبائلی علاقوں اور ملک کے بعض دیگر علاقوں میں یہ رواج ہے کہ میت کے اہلِ خانہ اپنے کام کاج چھوڑکر گھر پر بیٹھے رہتے ہیں اورمہمان آتے رہتے ہیں،دعااور مہمان داری کا سلسلہ ساتھ ساتھ جاری رہتاہے اور بعض صورتوں میں یہ سلسلہ مہینہ بھر چلتا رہتا ہے ۔اگر گھروالے موجود نہ ہوں یااپنی مصروفیات میں لگ جائیں یاڈیوٹی پر چلے جائیں تولوگ طعن کرتے ہیں کہ باپ یا ماں کا کفن ابھی میلا نہیںہوااوریہ دنیاداری میں مشغول ہوگئے ۔اسی طرح انتقال کے بعد جوپہلی عید آتی ہے ،اُس میں ازسرِ نو تعزیت کاسلسلہ شروع ہوتاہے اور کسی کے عزیز کی جدائی کے غم کو تازہ کیا جاتا ہے۔ گھر والے تنگ بھی ہوتے ہیں اورنہ آنے والوں کا شکوہ بھی کرتے ہیں ۔جب معاملہ اس حد تک بڑھ جائے تویہ باعثِ تکلیف ہے اور اس بناپر یہ یقینا غیر مستحسن اور خلافِ اَولیٰ ہے،ایسی رسوم کا خاتمہ ہونا چاہیے ،کیونکہ رسول اللہﷺ کافرمان ہے : (1)''(دین میں) آسانی پیداکرو،دشواری نہیں اور لوگوں کو ( رحمتِ باری کی) بشارت سناؤ، انہیں دین سے دورنہ کرو(صحیح البخاری :69)‘‘۔(2) ''بے شک تمہیں آسانی فراہم کرنے والا بناکر بھیجا گیا ہے اورتمہیں دشواری میں مبتلا کرنے والا بناکر نہیں بھیجاگیاہے،(سُنن ترمذی:147)‘‘۔ حیرت ہے کہ وہ علاقے جہاں تعزیت کی یہ ناپسندیدہ رسم جاری ہے ،وہاں ایک مکتبۂ فکر کے علماء کے خطابات کا من پسند موضوع شرک وبدعت ہوتاہے ،لیکن اس کو وہ بھی اپنا موضوعِ کلام نہیں بناتے ،بلکہ وہ اپنے علاقوں میں خود اس پرعمل پیراہوتے ہیں ،بعض اوقات رُسوم، شریعت پر حاوی ہوجاتی ہیں اور علماء کی قوّتِ مزاحمت اور جذبۂ اصلاح بھی دب جاتاہے ۔
پختونخوامیں تعزیت ودعائے مغفرت کی ایک اور رسم بھی روحِ دعاکے منافی ہے: مثلاً اہلِ میت کے گھر میں دس افراد بیک وقت داخل ہوئے ۔ ایک نے کہا : دعاکے لیے ہاتھ اٹھائیں ،کچھ پڑھے پڑھائے یاکلماتِ دعاکہے بغیرہاتھ چہروں پر پھیر دیئے ،پھر دوسرا کہے گا:پھر دعاکریں ،الغرض باری باری سب اپنی حاضری لگائیں گے ،یہ محض ایک دکھاوے کاعمل ہوتاہے۔ دعاتواللہ ربّ العالمین کی بارگاہ میں حضوریٔ قلب کے ساتھ التجاکا نام ہے ،سوال کرنے کا نام ہے، اسے محض رفعِ یدین برائے دعاکی ایک مشق بنا دیا گیا ہے۔اس سے دعاکی روح مجروح ہوتی ہے ،اسے بند ہونا چاہیے ۔ جب ایک مجلس دعا میں دس یا سو افراد بیٹھے ہیں اورسب نے خلوصِ نیت سے اللہ کی بارگاہ میں وفات پانے والے شخص کے لیے مغفرت اور اُس کے پسماندگان کے لیے صبر کی دعاکرلی توکافی ہے ۔ایک ہی مجلس میں بیٹھے ہوئے الگ الگ حاضری لگانا بے سود ہے ، ریاکاری ہے اور دعاکی حقیقت سے ناواقفی کی دلیل ہے ۔اس حوالے سے شہروں میںاَموات کے لیے دعائے مغفرت اور ایصالِ ثواب کے لیے جو سوئم کی تقریب ہوتی ہے ،اس میں سہولت ہے کہ جو لوگ نمازِ جنازہ اور تدفین میں شریک نہیں ہوسکے ،ان کی طرف سے تعزیت اور اجتماعی دعا ایک ساتھ ہوجاتی ہے ۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہم نے شریعت اور رسوم کو خلط ملط کر دیا ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ بعض صورتوں میں رسوم یعنی سماجی روایات شریعتِ الٰہیہ پر غالب آجاتی ہیں اور ہمارے ہاں شرعی اَحکام کے ترک کواتنا معیوب نہیں سمجھا جاتا جتنا کہ معاشرتی رُسوم کے ترک کو سمجھا جاتا ہے ۔ ہندو معاشرت کی بہت سی روایات ہم میں کسی نہ کسی طرح نفوذ کیے ہوئے ہیں،لہذا ایک اجتماعی اصلاحی تحریک کی ضرورت ہے ۔ مگر اس میں بھی خطرہ یہ دَرپیش رہتا ہے کہ ہم ایک انتہا سے دوسرے انتہا پر چلے جاتے ہیں ، توازن کو قائم رکھنا ہمارے قومی مزاج کا حصہ نہیں ہے ۔ حدیثِ پاک کی رُوسے غیر مسلم کی عیادت جائز ہے اور تعزیت بھی کر سکتے ہیں ، یعنی اس کے لیے صبر کی دعا کر سکتے ہیں ، البتہ غیر مسلم میت کے لیے دعائے مغفرت نہیں کر سکتے۔ غیر مسلم کے لیے ایمان اور ہدایت کی دعا کر سکتے ہیں ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved