تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     09-11-2015

پنجاب کے بے روح ڈھانچے

لودھراں میں ایک بند پڑی سرکاری عمارت دیکھ کر دنیا ٹی وی کے نمائندہ عطاء اللہ اعوان سے اس کی کہانی پوچھی تو اس نے بتایا کہ یہاں کچھ سال پہلے تک ضلعی ہسپتال قائم تھا جوایک نئی اور کشادہ عمارت میں منتقل ہوچکا ہے۔ پرانی عمارت کے بارے میں فیصلہ ہوا کہ یہاں زچہ و بچہ کے لیے ایک خصوصی ہسپتال قائم کردیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے اس کے لیے فنڈز کی منظور ی بھی دے دی لیکن سات سال ہونے کو آئے، فنڈز آتے ہیں نہ زچہ بچہ ہسپتال قائم ہوتا ہے۔ قصورمیں دیکھا کہ ایک عمارت کے گرد قدآدم جھاڑیاں اگی ہیں۔ اس کے بارے میںاسلم خان نے بتایا کہ یہ سپورٹس جمنازیم ہے، چھ کروڑ روپے کی لاگت سے نو سال پہلے تعمیر ہوا تھا، تھوڑا سا کام باقی ہے مگر اس کی فائل سرکاری توجہ سے محروم ہوگئی ہے ۔ خانیوال میںکئی ایکڑ پر محیط کروڑوں روپے کی لاگت سے بنایا گیا ایک سرکاری بس اڈہ ویران پڑا ہے۔ اس کی کہانی کچھ یوں ہے کہ پچھلے تین سالوں سے ایک نجی بس اڈہ تین مرلے کی دکان میں چل رہا ہے اور قانون، اثر و رسوخ کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہوئے ہے۔ اس نجی اڈے کے مالکان دھڑلے سے غریب ٹرانسپورٹروں کو مارتے بھی ہیں اور ان سے بھتہ بھی وصول کرتے ہیں۔ بورے والا میں معلوم ہوا کہ سپورٹس جمنازیم جب سے بنا ہے صرف پانچ منٹ کے لیے اس وقت کھلا جب وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اس کے افتتاح کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں رانا خالد اور عاطف سعید نے خبر دی 
کہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے حکومت نے ایک ارب روپے کے خرچ سے پینسٹھ کلو میٹر لمبی پائپ لائن تریموں ہیڈو رکس سے ٹوبہ تک بچھا ئی ہے، تین کلو میٹر مزید پائپ لائن پڑ جائے تو ٹوبہ میں پانی کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہوجائے، لیکن سرکار اور ٹھیکیدار کے درمیان جھگڑے کی وجہ سے یہ پائپ لائن ایک کھڈے میں آکر ختم ہوجاتی ہے۔ مجھے ان کی بات پر یقین نہ آیا تو وہ دونوں مجھے اس کھڈے تک لے گئے جس میں آکر ایک ارب روپے کی پائپ لائن غارت ہوتی ہے۔ اس کھڈے سے کچھ ہی فاصلے پر پانی ذخیرہ کرنے کے تالابوں میں گھاس اگتی ہے جو غریب لوگ اپنی بھیڑ بکریوں کے لیے کاٹ لے جاتے ہیں۔ چکوال کے ضلع ہسپتال کے بارے میں معلوم ہوا کہ پچھلے سال بجٹ میں سے ڈیڑھ کروڑ بچا تو ہسپتال کے منتظم نے عمارت پر قیمتی ٹائلیں لگوا کر افسرانِ بالا سے شاباش پائی اور مریضوں کو سر درد کی دوائی بھی میسر نہ آئی۔ لودھراں سے لے کر چکوال تک پھیلے ہوئے ان تمام سرکاری عمارتوں کی کہانیاں بظاہر الگ الگ ہیں، لیکن اصل میں یہ ایک ہی کہانی کے مختلف باب ہیں اور اس کہانی کا عنوان ہے 'بے روح ڈھانچے‘۔ پنجاب بھر میں پھیلے ہوئے یہ ڈھانچے میرے اس سفر کے سنگ میل ہیں جو میں دنیا ٹی وی کے بلدیاتی الیکشن کارواں کے ساتھ گزشتہ تین ہفتے سے کر رہا ہوں۔ 
اس کارواں کا امیر عمران پٹیل ہر شہر میں ایک چوک منتخب کرتا ہے اور میرے ہاتھ میں مائیک دے کر حکم دیتا ہے کہ لوگوں سے ان کی کہانیاں سنو۔ جب لودھراں سے ہم نے یہ سلسلہ شروع کیا تو خیال تھا کہ ہر جگہ ایک مختلف داستان سننے اور سنانے کو ملے گی، لیکن لودھرا ں سے حافظ آباد تک ہر کہانی میں سرکار کا بنایا ہوا ایک بے روح ڈھانچہ در آتا ہے۔ ہر جگہ ایک ہی بات سننے کو ملتی ہے کہ ہسپتال ہے لیکن دوائی اور ڈاکٹر کے بغیر، سکول کی عمارت کھڑی ہے مگر تعلیم نہیں، آب رسانی کا نظام موجود مگر آب ندارد، نکاسی کا نظام موجود 
لیکن گندا پانی گلیوں میں کھڑا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ سرکار ڈاکٹر، استاد یا دوسرے اہلکاروں کو تنخواہ نہیں دے رہی، لیکن نظام میں کوئی گرہ ایسی پڑ گئی ہے کہ کام نہیں ہو رہا۔ بس تین ادارے ہیں جو کچھ نہ کچھ حرکت میں نظر آتے ہیں: ایک تو ہے پنجاب پولیس اور دوسرا پاکستان ریلوے۔ جی ہاں، پنجاب پولیس، بے پناہ بدنامی کے باوجود اس کے سپاہی لشتم پشتم سرکار کا بھرم رکھے ہوئے ہیں ۔ کہیں سڑک میں رکاوٹ ہو تو یہ ہٹا تے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، مجرموں کا پیچھا کرتے بھی نظر آتے ہیں اور راتوں کو اپنے ازکار رفتہ ہتھیاروں کے ساتھ سنسان سڑکوں پر ناکے لگا کر آنے جانے والوں کو کچھ نہ کچھ تحفظ کا احساس بھی دلاتے رہتے ہیں۔ پولیس کے بعد ریلوے دوسرا ادارہ ہے جس کی کارکردگی آہنی پٹڑیوں پر دوڑتی ہوئی ٹرینوں کی صورت میں تقریباًہر شہر میں نظر آتی ہے۔ ٹرین کے آہنی پہیوں کا شور دن رات ایک پاکستانی کو یقین دلاتا رہتا ہے کہ ابھی سب کچھ ختم نہیں ہوا۔ تیسرا ادارہ ہے نیشنل ہائی وے اتھارٹی جس کی بنائی ہوئی سڑکوں پر دن رات دوڑتی ہوئی گاڑیاں اس کی کارکردگی کی داد دیتی نظر آتی ہیں۔ جہاں تک تعلق ہے عوامی خدمات فراہم کرنے والے شہری اداروں کا، ان کو بند کردینا ان کو چلانے سے بہتر معلوم ہوتا ہے۔ سٹیل مل وغیرہ تو محض بدنام ہیں ورنہ ٹیکسوں کا پیسہ جس تیزی سے تعلیم، صحت ، پبلک ہیلتھ ، بسوں کے سرکاری اڈوں، 
ضلعوں کے سپورٹس بورڈ، ٹاؤن پلاننگ کے محکموں اور مارکیٹ کمیٹیوں پر بغیر کسی فائدے کے خرچ ہوتا ہے اس کا توحساب ہی ممکن نہیں۔ ان اداروں سے جس کسی کو واسطہ پڑتا ہے وہ کانوں کو ہاتھ لگاتا باہر کی طرف بھاگتا ہے۔ سوائے لوگوں میں قنوطیت پھیلانے کے ان اداروں میں بیٹھے لوگ کچھ نہیں کر رہے۔ مایوسی کے اس کاروبار سے تو بہتر ہے کہ ان سفید ہاتھیوں کو بیک جنبشِ قلم ٹھکانے لگا دیا جائے تاکہ عوام ایک ہی بار رو دھو کر اپنا کوئی دوسرا انتظام کر لیں۔ اور ہاں، جنوبی پنجاب کا نام لے کر رونے دھونے والوں کو خبر ہو کہ اداروں کی بربادی کسی ایک علاقے تک محدود نہیں بلکہ اس کے اثرات لودھراں سے چکوال تک ایک سے ہیں۔
اگر یہ ادارے چلانے ہیں تو اس کی ایک ہی بنیادی شرط ہے اور وہ یہ کہ حکومتِ پنجاب اب نظام کی اصلاح کی طرف توجہ کرے۔ اس حوالے سے پہلا قدم یہ ہوگا کہ سرکاری کاغذات میںان اداروں کی کارکردگی نئی عمارت نہیں بلکہ عوام کو سہولت کی فراہمی کی بنیاد پر متعین کی جائے۔ ہسپتال ڈاکٹر اور سکول استاد کی موجودگی سے بنتا ہے، عمارت کی بلندی اور خوبصورتی کا صحت یا تعلیم سے کوئی تعلق نہیں۔ گھاس پھونس کے جھونپڑے میں اگر ڈاکٹر یا استاد بیٹھا اپنا کام کر رہا ہے تو یہی جھونپڑا ہسپتال یا سکول ہے۔ اگریہ دونوں اپنا کام نہیں کر رہے تو پھر سنگ مرمر کی خوبصورت ترین عمارت بھی ایک مرقد سے زیادہ اہم نہیں ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved