تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     10-11-2015

پرویز رشید صاحب سے معذرت

لیجئے‘ بیٹھے بٹھائے ملک کو میں نے اکیس ارب روپے کا زخم لگا دیا۔ اگر اکیس ہزار کا معاملہ ہوتا تو سرائیکی محاورے کے مطابق اتنے روپے کڑوے کر دیتا، مگر پورے اکیس ارب ؟ خدا کی پناہ!
پوری رودادمیں آپ کو سناتا ہوں۔ میں تنہا مجرم نہیں دو اور بھی ہیں۔ ایک ڈاکٹر نثار چیمہ اور دوسرے وہی ہمارے عمران خان۔ ڈاکٹر نثار چیمہ‘ وہی نامی گرامی ہیں‘ چند سال پہلے راولپنڈی سے جن کے تبادلے پر ایک طوفان اٹھا تھا۔ چوہدری پرویزالٰہی وزیراعلیٰ تھے‘ اور انہوں نے یہ کہا تھا کہ میں اگر مجبور نہ ہوتا تو یہ فیصلہ منسوخ کر دیتا۔ ان کی مجبوری کیا تھی۔ یہ انہوں نے بتایا نہیں‘ جس طرح اب یہ بتانا پسند نہیں کیا کہ جناب ایاز صادق کی تائید پر وہ کیوں مجبور ہیں۔ 
وزیراعلیٰ حیران بہت تھے کہ یہ کس قسم کا ڈاکٹر ہے‘ راولپنڈی پریس کلب اور ضلع کونسل نے جس کی حمایت میں قراردادیں منظور کی ہیں۔ ''خدا کی پناہ وہ بڑا ہی فضول آدمی ہے‘‘۔ انہوں نے کہا تھا۔ ایسے آدمیوں سے اللہ کی پناہ ہی مانگنی چاہیے۔ اپنی مقبولیت اور محبوبیت کے بل پر بعض اوقات بڑے ہی غلط فیصلے وہ صادر کرا سکتے ہیں۔ پوتڑوں کے بگڑے ہوئے ہیں‘ موصوف ذوالفقار چیمہ کے چھوٹے بھائی ہیں اور چوہدری افتخار احمد چیمہ کے۔ ذوالفقار چیمہ زیادہ مشہور ہیں لیکن خطرناک زیادہ جسٹس افتخار چیمہ ہیں۔ اب وہ قومی اسمبلی کے ممبر ہو چکے مگر وہی جج کے جج۔ دوسروں سے زیادہ چھوٹے بھائی احتیاط برتتے ہیں۔ جو شخص اپنے ملاقاتیوں کے لیے چائے کی ٹرے خود اٹھا کر لائے‘ اس سے ڈرنا ہی اچھا ہے۔ ملاقاتی بھی کچھ خوف زدہ سے دکھائی دیتے ہیں۔( معلوم نہیں اس کے باوجود انہیں ووٹ کیوں دیتے ہیں؟۔)
اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ڈاکٹر نثار چیمہ نے کس طرح مجھے اپنے جال میں پھنسایا اور میرے ذریعے عمران خان ایسے شخص کو ۔
دوستوں کا تو ذکر ہی کیا ڈاکٹر صاحب اپنے ماتحتوں تک کو استعمال کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ عموماً بھی وہ میٹھے آدمی ہیں مگر جب کسی کا فرض اسے یاد دلانا چاہتے ہوں تو ان کا انداز اور بھی شیریں ہو جاتا ہے۔ 5 نومبر کی شام‘ جب چنگا بھلا میں کالم لکھنے میں مصروف تھا‘ ان کا فون موصول ہوا۔ ان کا لہجہ حیرت اور رنج میں ڈوبا ہوا تھا‘ جیسے کوئی شدید ذاتی نقصان پہنچا ہو۔ بولے: دیکھو‘ مرکز اور پنجاب کی حکومتوں نے کیا کیا؟۔ یومِ اقبال کی چھٹی ہی منسوخ کردی۔ ان لوگوں کو اگر روکا نہیں جا سکتا تو کم از کم عمران خان صاحب ہی سے کہیے کہ پختونخوا میں وہ اس فیصلے کی پیروی نہ کریں۔ میں نے ان سے وعدہ کرلیا اور ایک پیغام کپتان کو بھیج دیا۔ اس لیے کہ ان کے سامنے سچا ہو سکوں۔ اس کام میں کوشش اور دیر ہی کتنی لگتی ہے؟۔ اس کے بعد اپنے کام میں‘ میں مصروف ہوگیا اور اس بات کو مکمل طور پر بھول گیا۔ جی ہاں ‘ احتیاطاًکالم میں ذکر کردیا کہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔
ڈاکٹر نثار چیمہ مگر ایک اور طرح کی مخلوق ہیں۔ جب کسی کام کا وہ تہیہ کر لیں تو ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ کسی کو سونپا ہو تو اس کے سر پہ سوار ہو جاتے ہیں۔ بیچارہ شکایت بھی نہیں کر سکتا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا لہجہ شیریں سے شیریں تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ معلوم نہیں کس چکّی کا پسا ہوا وہ کھاتے رہے ہیں‘ تینوں بھائیوں کا طریق یہی ہے۔ فرق یہ ہے کہ تاخیر ہو تو ذوالفقار چیمہ کی آواز بلند سے بلند تر ہوتی جاتی ہے۔ جج صاحب کی کڑوی سے اور زیادہ کڑوی۔ حد یہ ہے کہ اپنے لیڈر تک کو وہ معاف نہیں کرتے۔ کبھی اس سے سامنا ہو تو پوچھتے ہیں کہ فلاں کام آپ کرتے کیوں نہیں‘ کیوں نہیں کرتے؟۔ ایسے آدمیوں کے باب میں خاموشی ہی روا ہے ۔
میں چونکہ خاموش نہ رہ سکا تھا؛ چنانچہ اب مجھے ان کی بات ماننی تھی۔ ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا تھا تاآنکہ چھٹی کا اعلان کر دیا‘ یا 9نومبر کا دن بخیریت گزر جائے۔ اب جو تاکید کے ساتھ انہوں نے مجھے یاد دہانی کرائی تو کپتان کو میں نے قدرے سخت پیغام بھیجا اور کچھ دلائل بھی تراشے کہ محاسبے کا وقت آئے تو سرخرو ہو سکوں۔ 
چیمہ برادرز کو آپ جانتے نہیں۔ پنجابی کا ایک محاورہ بات سمجھنے میں شاید تھوڑا سا مددگار ہو‘ ''چیمے تے چٹھے لڑن بھڑن نوں وکھو وکھ‘ کھان پین نوں کٹھے‘‘ چیمہ اور چٹھہ قبائل کا شعار یہ ہے کہ کھانے پینے میں تو یکجا ہوتے ہیں‘ خوش باش‘ مگر لڑائی کا وقت آئے تو اپنی جنگ خود لڑتے ہیں ۔( دلداری کی شان تو انفرادیت میں چھب دکھاتی ہے‘ دوسروں کے ساتھ مل کر لڑے تو کیا لڑے؟)
عمران خان سے میں نے کہا ''دیکھو بھائی‘ لیڈر کا امتحان فیصلے کی گھڑی میں ہوتا ہے۔ اگر اس وقت تم فیصلہ نہ کر سکو تو تم کاہے کے کپتان ہو‘‘ وہ بیچارہ بلبلا تا رہا کہ اس آخری وقت میں کیا کروں۔ اس طرح کے اقدامات پہلے سے کیے جاتے ہیں‘ سوچ سمجھ کر میں نے کہا ''کیا اقبال کے احسانات تم بھول گئے۔ چلیے ہم بھلا دیں مگر پختون کیسے بھول سکتے ہیں‘ کم از کم انہیں تو وعدہ وفا کرنا چاہیے۔ ان سے بہت امیدیں فلسفی کو وابستہ تھیں۔‘‘
شام ہوئی تو ایک بار پھر وہ طویل پیغام اسے بھیجا‘ جس میں اپنے تئیں دلائل کا انبار میں نے لگا دیا تھا۔ اب تک وہ زچ ہو چکا تھا۔ اس لیے کہ جو کچھ میں اس سے کہہ رہا تھا‘ اس کا خلاصہ یہ تھا۔ بھائی‘ تم کیسے لیڈر ہو‘ ڈھنگ کا ایک کام بھی بروقت نہیں کر سکتے۔ خدا مجھے معاف کرے‘ میں نے اس کی کمزوری سے فائدہ اٹھایا۔ اقبال کے ساتھ اسے محبت ہی بہت ہے۔ (تھوڑی سی ہمیں بھی ہے۔ زیادہ نہیں تو دس فیصد کلام زبانی یاد ہے)۔جب تک اس کا جواب آیا اور اس میں کچھ زیادہ تاخیر ہوئی‘ اس کا سب سے پرانا اور قریبی دوست گولڈی اطلاع دے چکا تھا کہ چھٹی کا اعلان ہو چکا ہے۔ کپتان کا جواب یہ تھا ۔ خدا کے بندے‘ اب تو بس کرو‘ تمہاری بات تو ہم نے مان لی‘ چھٹی کر دی اب اور کیا کریں؟۔
لگتا ہے کہ کچھ دشواری اسے پیش آئی تھی کیونکہ جب شکریے کا پیغام میں نے اسے بھیجا '' جی جی‘ بہت عنایت‘ اللہ آپ پر کرم کرے‘‘ تو تھوڑا وہ بگڑا اور لکھا: کیا تمہیں مجھ سے امید نہیں تھی!۔ سوچا‘ کام تو ہو چکا۔ اب ذرا سا چڑانے میں کیا حرج ہے۔ یوں بھی آج کل سخت بوریت کا وہ شکار ہے؛ جوابی پیغام میں عرض کیا تھا‘ جی جناب! امید تو تھی وگرنہ میںنے شہباز شریف سے رابطہ کیا ہوتا‘ اخبار نویسوں کی بات جو زیادہ سنتے ہیں اورآپ کے مقابلے میں کہیں زیادہ مشفق و مہربان ہیں۔ میرا خیال ہے کہ بات کو اس نے پا لیا اور چپکا ہو رہا۔ ایسے میں جوابی فقرہ چست کرنے میں اسے کچھ ریاضت درکار ہوتی ہے۔ بیچارہ مصروف آدمی‘ ممکن ہے‘ کل کلاںجتلائے‘ آپ جانتے ہیں کہ معاف کرنے والا تو وہ بھی نہیں۔
خیر‘ تب دیکھا جائے گا اور یہ کون سا اہم مسئلہ ہے کہ اس سوچ بچار میں وقت ضائع کیا جائے۔ میری فکر مندی کا سبب اور ہے۔ ایک ممتاز اخبار نویس نے لکھا ہے کہ ایک قومی تعطیل پر 82ارب کا نقصان ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بیٹھے بٹھائے ‘ ملک کو میں نے اکیس ارب روپے کا زخم لگا دیا۔ اب میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا کروں؟ کیا میں یہ تجویز پیش کروں کہ بیس کی بیس سالانہ چھٹیاں امسال منسوخ کر دی جائیں۔ اس سے ملک کو16 سوارب 40 کروڑ روپے کا فائدہ ہو گا۔یوں اگلے برس زرمبادلہ کے ذخائر دوگنے ہو جائیں گے۔32ارب ڈالر! یہ کام تو اسحاق ڈار ہی کر سکتے ہیں۔ تو اس شرمندگی اور مخالفت سے نجات کا انحصار ان پر ہے‘ وگرنہ عمر بھر پشیمانی ہی رہے گی۔
پس تحریر: مرکزیہ مجلس اقبال کے سالانہ جلسے سے خطاب کرنے جناب پرویز رشید لاہور پہنچے تو سامعین ہی نہیں‘ مقررین نے بھی ان پر آوازے کسے اور ان کی مذمت کی۔ خانہ نمبر دو کے ملزم کی حیثیت سے میرا قصور کیونکہ کچھ زیادہ ہے؛ لہٰذا میں پرویز رشید صاحب سے معافی کا خواستگار ہوں کہ سامعین فلسفہ ٔ خودی پر ان کے افکار سے فیض نہ پا سکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved