اپنی تمام تر طاقت اور توانائی جھونکنے کے باوجود، آبادی کے لحاظ سے بھارت کے تیسرے بڑے صوبہ بہار میں وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑاہے۔جہاں ان کے مخالفین گرینڈ سیکولر الائنس، جس میں موجودہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی جنتا دل متحدہ، سابق وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو کی راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس شامل ہے، نے 245 رکنی ایوان میں 178 نشستیں حاصل کرکے واضح اکثریت حاصل کرلی ہے۔ بی جے پی کی قیادت والے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کو صرف 58 سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا ہے۔پچھلے سال پارلیمانی انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کرنے کے بعد، دوسری بار مودی کو ہار کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ اس سے قبل دارالحکومت دہلی میں امسال فروری میں منعقدہ دہلی اسمبلی انتخابات میں شرمناک شکست کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی ساری توجہ حکمرانی کے بجائے بہار اسمبلی انتخابات پر مرکوز کردی تھی ۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ان خلاف توقع انتخابی نتائج کے بعد مودی کی حکومت اور پارٹی پر گرفت کمزور ہوجائے گی اور پارٹی کے اند ر ان کے مخا لفین کو ایک آواز اور توانائی مل جائے گی، نیز پارلیمان کے ایوان بالا (راجیہ سبھا ) میں اکثریت حاصل کرنے کی پارٹی کی کوشش کو بھی زبردست جھٹکا لگا ہے۔
بی جے پی کے صدر اور مودی کے دست راست امیت شاہ نے ہندو ووٹروں کو یکجا کرنے اور انہیں خوف کی نفسیات میں مبتلا کرنے کیلئے ایک پبلک جلسہ میںللکار کر کہا ،کہ بہار میں اگر ان کی ہار ہوجاتی ہے، تو پاکستان میں پٹاخے پھوٹیں گے۔اس کے علاوہ بی جے پی نے گائے کو بھی ایک طرح سے انتخابی موضوع بنایا، کیونکہ ان کو معلوم تھا، کہ پاکستان گائے اور مسلمانوں کا خوف دلا کر ہندوئوں کو بی جے پی کے حق میں لام بند کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے انتخابی حربہ کے طورپر ووٹروں کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرنے کی بھر پور کوشش کی،مگر دوسری طرف نتیش کمار کے زیر قیادت اتحاد نے ان انتخابات کو اعلیٰ ذات بنام نچلی ذات اور تعمیر و ترقی کے وعدوں پر محدود رکھنے کی بھر پور کوشش کی۔ بی جے پی کی ہار کی ایک اور وجہ ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کا وہ بیان بھی تھا، جس میں انہوں نے نچلی ذاتوں کیلئے نوکریوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ریزرویشن پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی صلاح دی۔ اس سے بہار میں نچلی ذاتوں نے بی جے پی سے کنارہ کشی کی تو دوسری طرف دہلی سے متصل دادری میں گائے کا گوشت فریج میں رکھنے کے الزام میں ایک معمر مسلم اخلاق احمد کو جس طرح پیٹ پیٹ کر ہلاک کیا گیا، اس سے بہار میں مسلمانوں میں خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی تھی۔ اس طرح مسلمانوں اور نچلی ذاتوں نے یکجا ہوکر بی جے پی کی کشتی ڈبودی۔ اس سے یہ بات ایک بار پھر ثابت ہوگئی کہ بھارت میں فرقہ پرستی اور انتہا پسند ہندو ئوں کا مقابلہ کرنے کیلئے کچلے ہوئے طبقات کے اتحادیعنی Alliance of Oppressed کی بھر پور گنجائش ہے۔
بہار میں جب گزشتہ سال اسمبلی کے ضمنی انتخابات ہوئے تھے تو اس میں لالو پرسادیادو اور نتیش کمار نے ہاتھ ملالیا تھا جو اس سے قبل ایک دوسرے کے سخت حریف تصور کئے جاتے تھے ۔ ایک اور عنصر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال کے پارلیمانی انتخابات کے بعد سے جہاں پر بھی اسمبلی انتخابات ہوئے ،وہاں بی جے پی کے ووٹوں کا تناسب روبہ زوال رہا اور جو رائے دہندگان بی جے پی کے سبز باغ کے جھانسہ میں آئے تھے وہ اب مودی حکومت کی کارکردگی سے مایوس ہوچکے ہیں ۔ اس حقیقت سے مودی اور ان کے دست راست امیت شاہ ( جنہیں مودی نے پارٹی کا صدر بنادیا) منہ نہیں موڑ سکتے ۔ پارلیمانی انتخابات میں زبردست ہزیمت نے وزیر اعلیٰ نتیش کمار اور لالو پرسادیادو کوماضی کی تلخیوں کو بھلا کر متحدہونے پر مجبور کردیا کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو اپنا سیاسی وجود کھو بیٹھتے ۔بہار کی سیاست میں ذات پات کا غلبہ ہے اور اس حقیقت سے کوئی انکار نہیںکرسکتا کہ وہاں کے رائے دہندگان مسائل سے زیادہ اپنی اپنی ذات (caste) کو ترجیح دیتے ہیں اوراسی وفاداری کی بنیاد ووٹ پر ڈالتے ہیں ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مودی کو محض نام نہاد ترقی کے نعرہ کی بنیاد پر ووٹ نہیں ملا تھا بلکہ بی جے پی نے ریاست میں انتہائی پسماندہ طبقات اور دلتوںکا ایک اتحاد قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔بہار کی آبادی میں مختلف ذاتوں اور فرقوں کا تناسب کچھ اس طرح ہے : دیگر پسماندہ طبقات (OBC/EBC) کا تناسب 51 فی صد ( ان میں یادو 14 فی صد ، کرمی 4 فی صد اور کوئری 8 فی صد ) نیزانتہائی پسماندہ طبقات یا EBC کا تناسب 24 فی صد بشمول کشواہا چار فی صد اور تیلی 3.2 فی صد۔ مہا دلت 10 فی صد اور دلت 6 فی صد (جس میں پاسوان،دسدھ چار فی صد ہیں )۔ مسلمان 16.5 فی صد ، پیدائشی مراعات یافتہ طبقات 15 فی صد ( بھومیہار 6 فی صد، براہمن 5 فی صد ، راجپوت 3 فی صد ، اور کائستھ ایک فی صد) ۔ قبائلی (ایس ٹی) 1.3 فی صد اوردیگر فرقے 1 فی صد ( بشمول عیسائی، سکھ اور جین)۔ویسے بی جے پی کی پہچان ' اونچی جاتوں‘ کی جماعت سے ہے۔ اس نے اپنی اس شبیہ کو بہتر کرنے کی غرض سے بہارا ور یوپی میں پسماندہ فرقوں کو زیادہ سے زیادہ نمائندگی دینے کی حکمت عملی اپنائی ہے ، گو بی جے پی یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ سب جماعتوںسے مختلف جماعت ہے۔ ذات پات کا معاملہ لیں تو وہ اپنی
مخالف جماعتوں جیسے جنتادل ، سماج وادی پارٹی اور بہو جن سماج پارٹی وغیرہ پر ذات پات کی سیاست کرنے کا الزام لگاتی ہے ، جبکہ وہ خود اس لعنت میں بری طرح سے مبتلا ہے ۔ان انتخابات کے موقع پر وہ یہ پرچار کرتی رہی کہ پہلی مرتبہ بی جے پی نے ایک پسماندہ طبقہ کے فرد کو وزیر اعظم کا امیدوار بنایا۔ دو رخی مقابلہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کا ووٹ بھی سیکولر جماعتوں میں منقسم ہونے سے محفوظ رہا ۔ اس کے علاوہ یہ بھی حقیقت تھی کہ این ڈی اے کے حامیوں کی ایک قابل ذکر تعداد نیتش کمار نے بہار کی ترقی کے لئے ایک دہائی میں جو کام کئے ہیں ، اسے پسند کرتی تھی لیکن اس نے پارلیمانی الیکشن میں بی جے پی کو ووٹ دیا تھا۔ گزشتہ پندرہ مہینوں میںمودی حکومت کی جو کارکردگی رہی ہے وہ کوئی ایسی نہیں کہ عام رائے دہندگان کو راغب کر سکے۔ سوائے آرایس ایس کے حامیوں کو خوش کرنے کے اس نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جو عام آدمی کے لئے یک گونہ راحت کا باعث ہو۔ ہوشربا مہنگائی میں کمی کے بجائے ہردن اضافہ ہورہا ہے۔ پھرکرپشن کے یکے بعد دیگرے معاملے منظر عام پر آئے لیکن وزیراعظم اور پارٹی قیادت اپنے مبینہ بدعنوان اراکین کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے کتراتی رہی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بی جے پی دلت طبقات کی ایک بڑی تعداد کو اپنا ہمنوا بنانے کی حکمت عملی میں کامیاب ہو ئی تھی، مگر موہن بھاگوت کے بیان نے دلتوں کو بھی خوف میں مبتلا کیا۔ آزادی کے بعد پہلی مرتبہ کرائے گئے ذات شماری Census) (Caste کی رپورٹ نہ شائع کرکے بھی مودی حکومت نے جنتادل اتحاد کو ایک اہم انتخابی موضوع طشت میں سجاکر دے دیا ہے۔
غالباً اسی کے پیش نظر مودی نے گیا کے جلسئہ عام میں نتیش کمار کو ذاتی طور پر نشانہ بنایا تھا اور ان کے ڈی این اے پر سوال اٹھایا تھا ۔نیز بہار کو بیمار ریاست (پسماندہ ) کا طعنہ دیا تھا کہ یہ سب گزشتہ 25سال سے راشٹریہ جنتادل اور جنتادل (م) کی حکومتوں کے سبب ہے ۔ تاہم نتیش کمار نے مودی کا ہی حربہ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہار کے وقار پر حملہ ہے۔ انہوں نے ''شبد واپسی‘‘ مہم بھی شروع کررکھی ہے اور اس کے تحت 50 لاکھ بہاریوں کے بال اور ناخن کا نمونے جمع کرنے کے لئے ریاست میں مختلف مقامات پر کیمپ لگائے گئے جو ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کی غرض سے مودی کو بھیجے جائیں گے ۔ستم ظریفی یہ ہے کہ مودی جس سوشل میڈیا کو اپنے پروپیگنڈا کے لئے استعمال کرتے ہیں، نیتش نے اسی کا استعمال کرکے مودی کو نیچا دکھایا۔ گو ‘بی جے پی کو پارلیمانی الیکشن کے بعد مہاراشٹر، جموں وکشمیر ،جھارکھنڈ اور ہریانہ کے اسمبلی انتخابات میں کامیابی ملی لیکن ان ریاستوں میں کانگریس یا اس کی حلیف جماعتیں بر سر اقتدار تھیں اور لوگوں میں کانگریس کے خلاف جذبات پائے جاتے تھے۔ بہار میں ایسا معاملہ نہیں تھا۔ علاوہ ازیں تحویل اراضی بل کے مسئلہ نے بی جے پی کے تعلق سے یہ تاثر قوی کردیا ہے کہ یہ کارپوریٹ گھرانوں اور دولت مندوں کی حکومت ہے۔ چونکہ بہار کی بیشتر آبادی زراعت پر منحصر ہے اس لئے اس کا اثر انتخابات پرپڑنا لازمی تھا۔ بی جے پی کا فرقہ وارانہ چہرہ بھی اس کے لئے نقصان دہ ثابت ہوا ۔۔جن پارٹی رہنمائوں کو مودی نے نظر انداز کیا تھا وہ بھی موقع کی تلاش میں تھے۔ ان میں سر فہرست اداکاری سے سیاست میں آئے شترو گھن سنہا ہیں جو کھلے عام کبھی نتیش کمار اور کبھی دہلی کے وزیر اعلیٰ کجری وال کی تعریف کرکے بی جے پی قیادت کا منہ چڑاتے ہیں۔ان عوامل کی روشنی میں بی جے پی کیلئے بہار ٹیڑھی کھیر ثابت ہوا۔ اس کا اثر اب آئندہ سال ہونے والے تامل ناڈو اور مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات پر بھی پڑے گا ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ امیت شاہ کا ایک بہترین حکمت ساز ہونے کا میڈیا کا بنایا ہوا امیج بھی ملیامیٹ ہوگیا اور مودی کی حکومت اور پارٹی دونوں پر گرفت اب ڈھیلی پڑسکتی ہے ۔